پاکستان کے اندر ریاست ،ہماری قومی سلامتی کے اداروں اور عوام کے خلاف جو فساد برپا ہے ،جانی اور مالی نقصان کی صورت میں ہم اُس کی بھاری قیمت ادا کرچکے ہیں ، کر رہے ہیں اور یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ تا حال جاری وساری ہے ۔اس کی شدت کبھی کم ہوتی ہے اور کبھی زیادہ ، اسی طرح کبھی امن کا وقفہ قدرے طویل ہوجاتا ہے اور کبھی پے در پے واقعات ہونے لگتے ہیں ،اس فساد کوختم کرنے کے لیے پہلے آپریشن'' ضربِ عضب ‘‘شروع کیا گیا اور اب آپریشن ''ردُّ الفساد‘‘ جاری ہے ۔ داخلی امن کے قیام کے لیے کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں رینجرز کو اختیارات دیے گئے ہیں ،یہ معمول کی صورتِ حال نہیں ہے ۔
اس تناظر میں بار بار یہ سوال اٹھایا جارہا تھا کہ ریاست اور عوام سے متصادم عناصر یہ کام مذہبی عنوان سے یا مذہبی تاویل کا سہارا لے کر کر رہے ہیں اور اس حوالے سے ثقہ علماء کا بیانیہ یاموقف سامنے نہیں آرہا۔دہشت گردی کے مختلف سانحات پرموقع بہ موقع سیاسی انداز کے مذمتی بیانات تو آجاتے ہیں ،لیکن ایک باقاعدہ مربوط دینی موقف سامنے نہیں آرہا۔سو قطعی موقف کا مطالبہ ''جوابی بیانیے‘‘کے عنوان سے کیا جارہاتھا ۔چنانچہ تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے اس ذمے داری سے عہدہ براہونے کا فیصلہ کیا اور ایک متفقہ بیانیہ مرتب کر کے قوم کے سامنے پیش کیا ۔اس بیانیے کا بنیادی مسوّدہ میں نے ترتیب دیا تھا ،پھر اِسے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے پڑھا اور بعض مفید مشورے دیے ، حذف اوراضافہ بھی ہوا،پھر میں نے اسے حتمی شکل دی اور اُس کا مسوّدہ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی رکن پانچوں تنظیمات کے ذمے داران کوارسال کیا اور سب نے اُس کی توثیق کی ۔
طے یہ ہوا تھا کہ وزیرِ اعظم پاکستان ،وزیرِ داخلہ ،وزیر مذہبی امور ،چیف آف آرمی اسٹاف اور ہمارے حساس اداروں کے سربراہان کی موجودگی میں اِسے جاری کیا جائے گا ،مگر اُس کی نوبت نہ آسکی۔چنانچہ میں نے اُسے روزنامہ دنیا میں شائع کیا اور بعض دیگر اخبارات وجرائد کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی اُسے جاری کردیا گیا ، لاکھوں افراد نے پڑھ کراس کی تحسین کی اور پذیرائی بخشی۔
لیکن جنابِ خورشید ندیم کو ہماری یہ کاوش یکسر پسند نہ آئی۔ انہوں نے اس پر منفی تبصرہ کیا ، اِسے محض مذمتی بیان سے تعبیر کیا اور اپنی دانش کے جوہر بکھیرتے ہوئے نئے سوالات اٹھائے ۔ہم نے اپنے ملک کے تناظر میں اپنا موقف بیان کیا تھا اورعالمی سطح پر یا دیگر مسلم ممالک میں اس حوالے سے جو تحریکات اور باہمی آویزشیں جاری ہیں ،اُن کو موضوعِ بحث نہیں بنایا تاکہ لوگوں کے ذہن میں مسئلہ واضح ہو اور کنفیوژن پیدا نہ ہو۔اس فکر کے حاملین کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا کہ فتوے جاری کرنے کا اختیار علماء کے پاس نہیں ہونا چاہیے ،یہ ریاست کا کام ہے ، ریاست یہ کام کہاں انجام دے رہی ہے ،ہمیں اس کا علم نہیں ہے۔ البتہ فاضل کالم نگارنے اپنی جانب سے علماء پر کئی فتاویٰ صادر کردیے ،وہ لکھتے ہیں:
''علماء بیانیے کو موضوع بناتے ہیں تو بالعموم تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہیں ،وہ اس کے سیاق وسباق کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں ۔وہ جس بیانیے کا اپنے تئیں جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ،اُس کے بنیادی تصورات کو زیرِ بحث نہیں لاتے ،وہ محض رویّوں کی مذمت کرتے ہیں۔یہ رویّے جس دینی تعبیر کا حاصل ہے ،وہ تعبیر ان کا موضوع نہیں بنتی ۔اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ اس بیانیے سے واقف ہی نہیں ،تو اُن کی علمی ثقاہت کے بارے میں سوال اٹھتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ گریز دانستہ ہے،تو پھر علمی دیانت زیرِ بحث آئے گی ‘‘۔فاضل کالم نگار نے ملک کے سرکردہ علماء کے بارے میں سوئِ ظن سے کام لیا اور مندرجہ ذیل فتاویٰ اُن پر لاگو کیے :
(۱)''علماء نے'' تجاہلِ عارفانہ ‘‘سے کام لیاہے،یعنی حقائق سے صَرفِ نظر کیا ہے ،اس کے معنی ہیں :''جانتے بوجھتے انجان بن جانا ‘‘ اور عوامی زبان میں اِسے منافقت بھی کہہ سکتے ہیں ،(۲)علماء نے سیاق وسباق کو نظر انداز کردیا ہے اوربنیادی محرّکات کو زیرِ بحث نہیں لائے،وہ محض رویوں کی مذمت کرتے ہیں ،(۳) یا پھر علماء میں صورتِ حال کو سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں ہے اور یوں اُن کی فقہی ثقاہت مشتبہ ہے ،(۴)اگر علماء نے ان کے پیش کردہ محرکات سے دانستہ گریز کیا ہے ،تو پھر وہ بددیانت ہیں ‘‘۔
اگر ہم یہ لکھتے تو لبرل میڈیا ہاتھ دھوکر ہمارے پیچھے پڑ جاتا ،لیکن کسی نے موصوف کے اس اندازِ بیان پر سرسری انداز میں بھی کلام نہیں کیا ۔فاضل کالم نگار کو اپنے بارے میں خوش فہمی ہے کہ دانش اُن سے شروع ہوتی ہے اور ان ہی پر ختم ہوتی ہے اور عالمی تناظر کو اُس کے حقیقی محرّکات واسباب سمیت صرف وہی جانتے ہیں ۔اس علمی تعلّی کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔ ہمارا مسئلہ ''داعش یا القاعدہ ‘‘نہیں ہے ،داعش میں بھی اب لام کا اضافہ ہوچکا ہے،یعنی پہلے اس کا نام ''دولتِ اسلامیہ عراق وشام ‘‘تھا ، اب اس میں ''لیبیا‘‘کا لاحقہ بھی شامل ہوچکا ہے ۔یہ فکر عالمِ عرب میں تخلیق ہوئی اور وہیں کارفرما ہے ، چونکہ اُ ن کے پاس وسائل ہیں ، اس لیے وہ ہمارے خطے ،وسطی ایشیا اور امریکہ ویورپ سے فدائی یا ہم خیال افراد تیار کر کے اپنے ساتھ شامل کرلیتے ہیں ۔اسی طرح ''حزب التحریر ‘‘اور''المہاجرون‘‘ ایسی تنظیمیں برطانیہ میں تخلیق ہوئیں اور اُن کی فکری آبیاری کرنے والے عرب علماء تھے ، یہ الگ بات ہے کہ اس فکر سے یورپ میں مقیم پاکستانی نژاد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی متاثر ہوئے ۔ان میں سے ''حزب التحریر ‘‘ نظریاتی بنیاد پر لٹریچر کے ذریعے رُوبہ عمل ہے ،اُن کی کسی دہشت گردانہ کارروائی کا ہمیں علم نہیں ہے ،البتہ ''المہاجرون‘‘ والے شدت پسند ہیں ۔
سو ہم نے سادہ انداز میں اپنے خطے کے تناظر میں بات کی تاکہ تمام متعلقہ لوگوں تک بات پہنچ جائے اور اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجائے کہ ریاستِ پاکستان کے خلاف اس فساد کو مذہبی تائید وحمایت حاصل ہے یا مذہبی قوتیں اس کی پشت پناہ ہیں یا علماء اس کی نظریاتی آبیاری کر رہے ہیں ۔اس لیے کہ ریاستِ پاکستان سے متصادم تحریکِ طالبان پاکستان کے بعض رہنمائوں کا کوئی نہ کوئی علامتی تعلق مسلکِ دیوبند کے علماء سے سمجھا جارہا تھا ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کی تحریک پر جب ان طبقات سے مذاکرات شروع ہوئے ،تو بعض علمائے دیوبند نے ہی رابطہ کاری کی ذمے دای قبول کی ۔یہ مذاکرات ناکام ہوئے اورانجامِ کار ان کا مقدر ناکامی ہی تھا۔لہٰذا اب ضروری تھا کہ تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کے ساتھ ساتھ علمائے دیوبند کی توانا آواز بھی شامل ہو کہ ریاست اور عوام سے برسرِ پیکار عناصر کے پاس اس فکرکی اساس پردہشت گردی کی کارروائیوں کا کوئی شرعی جواز باقی نہ رہے۔ ہمارے بیانیے میں یہ بات دو ٹوک انداز میں بیان کردی گئی ہے۔یہ بھی صراحت کردی گئی ہے کہ اگر پاکستان کا کوئی دینی ادارہ ان کا پشتیبان ہویا ان کے لیے جائے پناہ بنے یا ان کو نظریاتی تقویت دے ،تو حکومت اس کے خلاف قانونی کارروائی کرسکتی ہے ، ہم اس کا دفاع نہیں کریں گے ۔
فاضل کالم نگار نے علماء پر ایک اور الزام یہ لگایا کہ اُن کے نزدیک اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے حقوق مساوی نہیں ہوتے۔ ان کالموں میں ،میں ایک سے زائد مرتبہ اس دستاویز کا ترجمہ درج کرچکا ہوں جس کی رُو سے فتحِ بیت المقدس کے بعد امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہاں کے نصاریٰ کو امان عطا کی تھی ،اُن کی عبادت گاہوں اور صلیبوں کو تحفظ دیا تھا ، اُن کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی آزادی دی تھی اور یہ اُس وقت ہوا جب اسلام اُس خطے کی دو سپر پاورز کوشکست دے کر وحدانی سپر پاور بن چکا تھا ۔ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہماری قانونی و سیاسی اصطلاحات اور روز مرّہ محاورے سے اقلیت کے لفظ کا استعمال ترک کر دیا جائے اور تمام غیر مسلموں کو مساوی درجے کا پاکستانی تسلیم کیا جائے۔ ہمارا آئین اُن کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے ، لیکن فاضل دانشور کو اس پر بھی اطمینان نہیں ہے۔ کسی بھی ملک میں نادر واقعات کو اُس ملک کا عمومی رویہ گرداننا زیادتی ہے ،کیا حالیہ برسوں میں ہم نے نہیں دیکھا کہ ہندوستان میں محض گائے ذبح کرنے کے الزام میں ایک ہجوم ایک مسلمان کو ظالمانہ طریقے سے مار مار کر موت سے ہمکنار کر رہا ہے۔لیکن جس طرح ہمارے ملک میں ایسے کسی ناخوشگوار واقعے پر میڈیا اپنے ملک کی مکروہ تصویر زور شور سے دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہوتا ہے ،کیا انڈیا کا میڈیا اپنے ملک کے خلاف اس شِعار کو اپنا تا ہے۔
فاضل کالم نگار لکھتے ہیں :
''اسلامی ریاست کے مسلم اور غیر مسلم شہری برابر نہیں ہیں۔ چونکہ اسلامی ریاست ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے، اس لیے جو لوگ اس نظریے پر ایمان نہیں رکھتے، ریاست کے ساتھ ان کی وفا داری پوری طرح ثابت نہیں ہوتی،لہٰذا مسلم اور غیر مسلم کے شہری حقوق برابر نہیں ہو سکتے۔ اس فرق کے سبب ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کوکلیدی منصب نہیں دیے جا سکتے‘‘۔ پاکستان کی موجودہ دستوری پوزیشن یہ ہے کہ صدرِ پاکستان اور وزیرِ اعظم پاکستان کے علاوہ کسی بھی منصب پر غیر مسلم فائز ہوسکتا ہے ، صرف ان دو مناصب کے حلف نامے میں اِقرارِ ختمِ نبوت کا عقیدہ شامل ہے۔اِکّا دُکّا واقعات تو اب یورپی ممالک اور امریکہ میں بھی ہورہے ہیں ،لیکن اُن پر کوئی الزام نہیں لگاتاکہ وہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ ،آزادیٔ مذہب اور اپنے سیکولرازم کے نظریے سے منحرف ہوگئے ہیں،سو :''نزلہ بر عضوِ ضعیف می ریزد‘‘۔ (جاری)