"MMC" (space) message & send to 7575

بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم

حضرت سید عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک فارسی نظم قومی ،مِلّی اور ملکی حالات کے تناظر میں ہمارے حسبِ حال ہے ،اس نظم میں بار بار رقص کے ذکر کو اس کے شرعی جواز پر محمول نہ کیا جائے، یہاں رقص کاکلمہ حَظّ اور لطف اٹھانے کے معنی میں ہے ،لیکن ہماری لطف اندوزی کسی کارِ نمایاں پر نہیں ،بلکہ اپنی رسوائیوں پر ہے ، نظم درج ذیل ہے :
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم 
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم 
تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم 
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم 
تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی 
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم 
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں 
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم 
اگرچہ قطرہ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے 
منم آں قطرہ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم 
خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را 
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم 
منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم 
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم
ترجمہ:''(1)میں نہیں جانتا کہ محبوب کے دیدار کے وقت میں کیوں رقص کرنے لگتا ہوں ،مگر اپنے اس ذوق پر مجھے ناز ہے کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔(2)(اے محبوب!) تو جب بھی نغمہ سرا ہوتا ہے ،تومیں اس پرہر بار رقص کرتا ہوں ،تو مجھے جس انداز میں رقص کروانا چاہے ،اے دوست!میں اُسی انداز میں رقص کرتا رہوں گا۔(3)(اے محبوب!)تووہ قاتل ہے کہ تماشا لگانے کے لیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خونخوار خنجر کے نیچے بھی رقص کرتا ہوں (بسمِل ،بسم اللہ الرحمن الرحیم کا مخفَّف ہے اور اس سے مراد ذبح کا وقت ہے کہ جب ذبیحے کو لٹاکر'' بسم اللہ اللہ اکبر‘‘ پڑھی جاتی ہے اور ذبح کے وقت ذبیحے کے تڑپنے کی کیفیت کو بھی بسمِل سے تعبیر کرتے ہیں ) ۔ (4)اے محبوب! آئو اور تماشا کرو کہ میں جانبازوں کے ہجوم میں اپنی رسوائی کے سو سامان لیے سرِ بازار رقص کر رہا ہوں۔(5)اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے کی نوک پر نہیں ٹھہرپاتا ،لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہو ںکہ نوکِ خار پر بھی رقص کرتا ہوں ۔(6)وہ رند بھی کیا خوب ہے کہ جس کی خاطر میں اپنی پارسائی کو پامال کردیتا ہوں اور وہ تقویٰ بھی کیا خوب ہے کہ میں جبّہ ودستار سمیت رقص کرتا ہوں ۔(7)میں عثمان مروندی ہوں اور شیخ منصور حلّاج کا دوست ہوں ،مجھے ایک مخلوق ملامت کرتی ہے اور میں ہوں کہ سرِ دار بھی رقص کرتا ہوں‘‘۔
اس نظم کا چوتھا شعر ہمارے کالم کا سرنامہ یا عنوان ہے ۔اقوامِ عالَم میں ہم عجیب قوم ہیں ،ہم ایسے معاملات کو، جنہیں بند کمرے میں یا براہِ راست رابطے کے ذریعے طے کیا جاسکتا ہو ،چوراہے کے بیچ طے کرنا پسند کرتے ہیں ،ہم اپنی رسوائیوں پر ماتم کرنے کی بجائے ان کا جشن مناتے ہیں ۔آج اقوامِ عالَم کے درمیان یہ ہماری انفرادیت اور پہچان بن چکی ہے ۔ڈان لیکس کے حوالے سے جو کچھ ہوا ،وہ حسرت ناک ہونے کے ساتھ ساتھ حیرت ناک بھی ہے ،یہ ہمارے حکمرانوں اور ہمارے فیصلہ ساز اداروں کی دانش وفراست کا منہ چڑانے کے لیے کافی ہے ۔منظّم اور مہذّب ملکوں میں بھی انتظامیہ اور اداروں کے درمیان اختلافِ رائے ہوتا ہے ،مگر اس کو حل کرنے کا ایک باوقار طریقۂ کار بھی ہوتا ہے ۔ہمارے انتہائی ذمے دار ادارے ،جنہیں ملکی اور قومی امور پر کافی حد تک کنٹرول حاصل ہے ، ٹویٹ کواپنی تشویش کاذریعۂ اظہار بناتے ہیں ،کاش کہ ایسا نہ ہوتا۔وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بجا کہا :''ٹویٹس نظام انصاف کے لیے زہرِ قاتل ہیں ‘‘۔ حکمرانوں اور نظام کی غلطیاں اور کمزوریاں بجا ،لیکن ان کی جانب متوجہ کرنے کا یہ طریقہ کسی بھی حال میں پسندیدہ نہیں ہے اور شاید پوری دنیا میں اس کی کوئی مثال نہ ملے ۔ہمارے دفاعی ادارے کو سب سے منظّم اور بااختیار سمجھا جاتا ہے ،سوِل حکومتیں بوجوہ اُن سے دبی دبی اور سہمی سہمی سی رہتی ہیں اور اُس پرمستزاد یہ کہ ہمہ وقت باہم محاذ آرائی پر آمادہ سیاست دان اپنی حُرمت کو قدرِ مشترک بنانے اور سمجھنے کی بجائے ایک دوسرے کی رسوائیوں کا لطف اٹھاتے ہیں اور حضرت لعل شہباز قلندر رحمہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں :''بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم ‘‘کا کامل مصداق بنتے ہیں ۔
ہمارے سیاسی ڈھانچے اور سیاست دانوں کی یہی کمزوری اُن کی رسوائی کا سامان فراہم کرتی ہے ،کل ایک فریق کے چہرے پر کالَک مَلی جارہی تھی ، آج دوسرے فریق کا چہرہ ہے اور کل آئندہ کسی تیسرے فریق کا چہرہ مشقِ ستم بنے گا ، لیکن اگر اس چہرے کا نام ہم ''حکمران اور سیاست دان‘‘رکھ لیں ،تو یہ رسوائی پورے سیاسی نظام اور سیاسی اخلاقیات کے چہرے کی کالک ہے۔ہم اپنی کالک کو گورا سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہوں، تو پھر یہ مرض ناقابلِ علاج بن جاتا ہے۔تاہم سیاسی حکمرانوں کی تمام تر کمزوریوں اور بے تدبیریوں کے باوجود بصد ادب گزارش ہے کہ اس سے ہمارے حساس اور ذمے دار اداروں کا وقار بلند نہیں ہوا۔دوسری جانب بدقسمتی سے ہمارے حصے میں جو آزاد میڈیا آیا ہے ،اُس کی لغت میں بھی قومی وقار ، ملک وقوم کی عزت وناموس اور نظام کی حرمت کوئی معنی نہیں رکھتی، انہیں صرف بلند وبالا آہنگ میں رونقِ محفل سجانی ہے اوربہ ہزار حیلہ وتدبیر ناظرین کو اپنی اسکرین کے ساتھ جوڑے رکھنا ہے،وطن وملک کی ناموس چہ معنی دارد،اس ذہنی نہاد پر بھی صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے ۔
حضرت لعل شہباز قلندر کی نظم کے تیسرے شعر پر غور کریں توہمارے طاقتور ادارے ہمارے سوِل حکمرانی کے ہیولاتی ڈھانچے کو مرغِ بسمل کی طرح خنجرِ خونخوار کے نیچے رقص کرتا دیکھنے کا تماشا لگاتے ہیں اور اس سے لطف اٹھاتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہمارے سوِل حکمرانوں کی اوقات کیا ہے ؟۔اُن کی نا اہلیوں کے پیشِ نظر یہ تصویر یقینابعض حضرات کے نزدیک نہایت پسندیدہ ہے اور وہ اس سے حسبِ توفیق لطف بھی اٹھاتے ہیں اور کَچوکے پہ کَچوکا لگاتے ہیں ،مگرہمیں اس پر اس لیے افسوس ہوتا ہے کہ یہ چہرہ ہمارے ہی نظامِ ریاست وحکومت کا ہے ، سو کیا اپنی تذلیل پر خوش ہونا اور لطف اٹھانا کسی باحمیّت اور غیّور قوم کا شِعار ہونا چاہیے ، لیکن صد افسوس کہ ہمارے ہاں منظر یہی ہے۔ حکومت اور حکمرانی کا نشہ ہی ایسا ہے کہ نوکِ خارپر سرِ بازار رقص کُناں ہونے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ 
ایسے حالات میں ہمارے دوست اور دشمن ممالک بھی یقینا تذبذب میں مبتلا ہوتے ہوں گے کہ پاکستان کے جمہوری سیٹ اَپ میں پاکستان کا حقیقی چہرہ کون ساہے ،اس ملک کا حقیقی دماغ کہاںہے اور پاکستان کی زبان یعنی ترجمان کون ہے ،وہ کس سے بات کریں اور کس سے معاملات طے کریں ،سب جانتے ہیں کہ ہماری پارلیمنٹ اور حکومت کی حیثیت کیا ہے ؟،کسی نے سچ کہا ہے: 
تن ہمہ داغ داغ شدپنبہ کجا کجا نہم
ترجمہ: ''پورے کا پورا بدن زخموں سے چور چور ہے ،پھایا رکھوں ،تو کہاں کہاں رکھوں ‘‘۔ایک وقت تھا کہ عدالت ہائے عظمیٰ وعالیہ کے فاضل جج صاحبان اپنے فیصلوں کو آئین وقانون اور سابق عدالتی نظائر سے موَثَّق اور مدلَّل کرتے تھے ، آج پاپولزم یعنی عوامی مقبولیت کا دور ہے۔ اس لیے فاضل جج صاحبان اپنے فیصلوں میں خلیل جبران کے فرمودات اور ماریو پوزو کے ناول ''گاڈفادر‘‘سے اقتباسات نقل کرتے ہیں تاکہ فیصلے کو قبولیتِ عامّہ ملے اور وہ زبانِ زدِ خاص وعام ہوجائے ۔یہ شِعارعزت مآب جنابِ جسٹس دوست محمد کھوسہ نے رائج کیا ۔انہوں نے پہلے این آر او کے فیصلے میں خلیل جبران کا حوالہ دے کرمیڈیا کے لیے زبان کے چٹخارے کا اہتمام کیا اور اب پاناما لیکس کے فیصلے میں''گاڈ فادر‘‘نامی ناول کے ابتدائی اقتباسات کواختلافی نوٹ کے ذریعے نمایاں کرکے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا ہے ۔سواب ہمارے فیصلے آئینی وقانونی حوالہ جات اور عدالتی نظائر سے مدلّل نہیں ہوں گے ،بلکہ ناولوں، افسانوں اور ادیبوں کے حوالوں سے مسجّع ومرصّع ہوا کریں گے اور ہم اِن قابلِ قدر مآخذ سے عدل کشید کریں گے،کیسا مقامِ افتخار ہے ۔ ہمارے آزاد میڈیا کوبھی یہ ادبی سوغات اور نرم وملائم ولذیذروحانی غذا مبارک ہو۔پہلے ہم ''دیوانِ حافظ‘‘سے فال نکالنے کا سنا کرتے تھے ،اب ہماری عدالتوں کے فیصلے بھی اسی طرح کے دیوانوں ،افسانوں اور ناولوں سے برآمد ہوں گے ۔
اختلافات کی حقیقت اور جواز مسلّم ،صورت وجسامت، قدوقامت اور رنگتوں کے تنوُّع کے ساتھ ساتھ اُفتادِ طبع ، ذہنی نہاد اور ترجیحات میں تفاوت بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کے متنوّع مظاہر میں سے ہے ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اور اُس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے ،بے شک اس میں جہان والوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں ،(الروم:22)‘‘۔سوہرچیز میں تنوُّع نہ صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظہر ہے ،بلکہ اُس کی حکمت بھی اس کے پیچھے کارفرما ہوتی ہے،ارشادِ باری تعالیٰ ہے :''اور اگر اللہ چاہتا تو(اپنے تکوینی امر سے)تم سب کو ایک امت بنا دیتا ، لیکن وہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے، (النحل:93)‘‘۔مگر اُس کی مشیئت نے یہ چاہا :''تاکہ جوجسے ہلاک ہونا ہے ،وہ دلیل سے ہلاک ہو اورجسے زندہ رہنا ہے، وہ دلیل سے زندہ رہے، (الانفال: 42)‘‘،یعنی اللہ تعالیٰ کا قانونِ مکافاتِ عمل عدل کے تقاضے پورے ہونے کے بعد روبہ عمل آتا ہے۔پس فردکے ساتھ اختلاف اور اُس کی ناپسندیدگی کے باوجود قومی مناصب کا کسی نہ کسی درجے میں احترام ضروری ہے ،یہ اقوامِ عالَم کے درمیان ایک مسلّمہ اور مشترکہ قدر ہے ،سو ہمیں بھی اپنے نظمِ اجتماعی کے لیے کوئی نہ کوئی اَقدار وضع کرکے اُن کی پاسداری کا اہتمام بھی کرناچاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں