"MMC" (space) message & send to 7575

ستر سال کا سفر

13اگست کو قیامِ پاکستان کو ستر سال پورے ہوجائیں گے اور 14اگست کوہم پاکستان کا اکہترواں یومِ آزادی اور ستّرویں سالگرہ منائیں گے۔ قیامِ پاکستان کے وقت دونوں حصوں مغربی پاکستان (اب پاکستان) اور مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) کی آبادی تین تین کروڑ(مجموعی طور پر چھ کروڑ) تھی ۔اب پاکستان کی آبادی تقریباًبیس کروڑ اور بنگلہ دیش کی ساڑھے سولہ کروڑ ہے۔ ستر سال میں کم وبیش نصف مدت فوجی اور نصف مدت سول حکمرانی رہی۔مغربی پاکستان کے ون یونٹ ہونے کی بنیاد پر پہلا دستور 1956میں بنا اور 1958میں اُسے منسوخ کردیا گیا، دوسرا دستور 1962میں بنا،یہ بالواسطہ انتخاب پر مبنی تھا اور1969میں اُسے بھی منسوخ کردیا گیا ۔7دسمبر کو متحدہ پاکستان میں ون مین ون ووٹ کے اصول پر پہلے قومی انتخابات ہوئے اور 16دسمبر 1971کو ہندوستان کی فوجی مداخلت کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔10اپریل 1973کواسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا متفقہ دستور پاس ہوا اور 14 اگست 1973کو نافذ ہوا۔آج تک پاکستان کے چاروں صوبوں، قبائلی علاقہ جات، شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر کے جڑے رہنے کی اساس یہی دستور ہے۔ اس دستورمیں اب تک بائیس ترامیم ہوچکی ہیں۔
الغرض ہندوستان کے برعکس پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل جاری نہ رہ سکا ،نہ سیاسی جماعتیں مضبوط ہوئیں اور نہ دستوری حدود کے اندر رہتے ہوئے ادارے مضبوط ہوسکے۔اس لیے ہمارے ہاں مقتدرہ پوری قوت کے ساتھ جلوہ گر رہی۔ اب درست یا غلط یہ تاثر دیاجارہا ہے کہ آزاد عدلیہ کا مقتدرہ کے ساتھ ایک غیر مَرئی تعلق قائم ہوگیا ہے، واللہ اعلم بالصواب۔ہمارے ہاں پارلیمنٹ ، جمہوری اداروں اور سیاسی جماعتوں کے مستحکم نہ ہونے کی ذمے داری خود سیاست دانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔1985میں غیر جماعتی بنیاد پرقومی انتخابات ہوئے ، اس کا مقصد بھی سیاسی جماعتوںکو کمزوراور منقسم کرنا تھااور ایسا ہی ہوا۔ لسانی بنیادوں پر سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور مذہبی گروہوں کے مسلح جتھے اور ان کی باہم آویزش کا آغاز بھی فوجی حکمرانی کے دور میںہوا۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار کے نتائج پاکستان اب تک بھگت رہا ہے اور بظاہر ان سے ملک وقوم کے مکمل نجات پانے کے آثار ناپید ہیں۔
پس ہمارے سیاستدانوں کو اپنی ناکامیوں ،نادانیوں اور عاقبت نااندیشی کا بھی اعتراف کرنا چاہیے۔ اسی لیے ہم وقتاً فوقتاً لکھتے رہتے ہیں کہ ملک کو سیاست دان کی نہیں ،قائد اورمُدَبِّرکی ضرورت ہے ، جو لمحۂ موجود کا اسیر بن کرنہ رہے، اسے دور اندیش اوروژنری ہونا چاہیے، کوتاہ بینی کا انجام تو سامنے ہے۔ میں کہا کرتا ہوں: اولاد ماں باپ کے تجربے سے اور شاگرد استاد کے تجربے سے سبق حاصل نہیں کرتا، تاوقتیکہ اسے خود ٹھوکر نہ لگے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاست دان اور حکمران تاریخ یا دوسروں کے تجربات سے سبق حاصل کرنا تو درکنار، خود ٹھوکر کھاکر بھی سبق حاصل نہیں کرتے، ان کا شعار اپنی غلطیوں کو بار بار دہرانا اور ہربار ایک ہی انجام سے دوچار ہونا ہے، رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے :''تم ضرور ہو بہوپچھلی امتوںکے طریقوں کی پیروی کروگے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے ، تو تُم بھی ان کی پیروی کروگے ، ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ! آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں ، آپﷺنے فرمایا : اور کون ؟، (صحیح بخاری : 7320) ‘‘۔ سو ہمارے سیاستدانوں کی کمزوریاں اُن کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہیں ، جیسے آج جنابِ نواز شریف کوعوام کا مینڈیٹ اورپارلیمنٹ کی بالادستی سب کچھ یاد آرہا ہے، لیکن کیا انہوں نے چار سال تک پارلیمنٹ ، کابینہ اور خود اپنی سیاسی جماعت کو وہ وُقعت دی ،جو ان کا استحقاق تھا ؟
1988سے 1999تک کے جمہوری ادوار میں سیاسی قائدین ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے ، 2002کے انتخابات میں مصنوعی سیاسی جماعت تشکیل دینے کے لیے اداروں کو استعمال کیا گیا ، اس کے باوجود تعداد پوری ہوتی ہوئی نظر نہ آئی تو پیپلز پارٹی میں سے کچھ منتخب لوگوں کو توڑ کر پیٹریاٹ کے نام سے ایک گروپ بنایا گیا۔2008کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اپنے اتحادیوں سمیت اقتدار میں آئی اورجنابِ آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے ۔ لیکن آزاد عدلیہ کے دبائو میں رہے‘ اس حکومت پر کرپشن اور نا اہلی کی چھاپ لگی ، یہ عوام کے لیے کوئی فیض رسانی نہ کرسکی ۔ واحد اعزاز جو اس کے حصے میں آیا ، وہ نحیف ونزار جمہوری نظام کا تسلسل تھا۔ 2013کے انتخاب کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت آئی ،لیکن سیاسی جماعتوں کی محاذ آرائی جاری رہی۔ 2014کے دھرنے کے دوران جنابِ عمران خان کے منہ سے ''امپائر کی انگلی اٹھنے ‘‘کے الفاظ نے یہ تاثر دیا کہ اس احتجاج کو کسی غیبی قوت کی پشت پناہی حاصل ہے اور پھر جنابِ جاوید ہاشمی کے بیانات نے اس تاثر کو تقویت دی ،یہ ایسی باتیں ہیں جن کا مدار قرائن پر ہوتا ہے ، کسی تحریری وثیقے کی صورت میں ان کا ثبوت کسی کے پاس نہیں ہوتا۔
سپریم کورٹ نے جس آئینی وقانونی سبب کی بنیاد پر جنابِ نواز شریف کو نا اہل قرار دیا ہے،اس کی معقولیت کے بارے میں آئینی وقانونی ماہرین کی آراء منقسم ہے ،یہ بات مسلّم ہے کہ کئی لوگوں کے لیے یہ فیصلہ نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہواہے، لیکن اس سے ملک کے آئینی وقانونی ،عدالتی اور جمہوری نظام کے استحکام اور ساکھ کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں اور عالمی میڈیا بھی اسے موضوعِ بحث بنا رہا ہے ۔ہمیں اپنی محدود عصبیتوں سے نکل کر بحیثیت مجموعی ملکی اور قومی وقار کو بھی دیکھنا چاہیے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں ہے کہ کون چلا گیا اور اس کی جگہ کون لے گا، شخصیات ہماری دلچسپی کا موضوع نہیںہیں،یہ اُن کا مسئلہ ہے جو ان سے وابستہ ہیں یا جن کا کوئی مفاد اُن سے وابستہ ہے،اسی طرح ایوانِ اقتدار میں پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنا بھی اُن کی دلچسپی کا موضوع ہے، جو بزعم خویش اس کے امیدوار اور حق دار ہیں،ہمارا ان امور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔1993ء میں پہلی معزولی کے بعد ہماری جناب نواز شریف سے ایک ملاقات ہوئی تھی،اس کے بعد اس پوری مدت میں ستمبر 2015کووزیرِ اعظم ہائوس میں''اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان ‘‘کے قائدین کے ہمراہ اُن سے ہماری صرف ایک عمومی ملاقات ہوئی ،جس میں اُس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف ،ڈی جی آئی ایس آئی ، وزیرِ داخلہ ،وزیرِ مذہبی اموراورمقتدرہ کے دیگر ذمے داران موجود تھے۔
ان ستر برسوں میں پاکستان نے جو غیر معمولی کارنامہ انجام دیا ،وہ ایٹم بم بنانا اور ایٹمی دھماکا کرنا ہے ،اس کے نتیجے میں پاکستان کو ایک طرح کا تحفظ مل گیاہے ۔ اگر خدانخواستہ پاکستان پر دشمن نے روایتی جنگ مسلط کی ،توسب کو معلوم ہے کہ اس کا روایتی حربی اسلحہ ، مادّی ومالی وسائل اور عددی قوت پاکستان سے کئی گنا زائد ہے ،لہٰذا اپنے دفاع اور بقا کے لیے آخری چارۂ کار کے طور پرپاکستان ایٹم بم کو استعمال کرسکتا ہے، اسی لیے ایٹم بم کو سدِّ جارحیت کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے،پس یقین ہے کہ پاکستان کو1971کے المیے ایسے حالات کا سامنا آئندہ کبھی نہیں کرنا پڑے گا۔سابق صدر ایوب خاں کے دور میں تربیلہ ڈیم اور منگلا ڈیم بنے، مگر اس کے بعد آبی ذخائر کے حوالے سے اس شعبے میں ہم بحیثیت قوم کوئی اضافہ نہ کرسکے۔
یہ بات پوری قوم کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ ایٹم بم آج تک صرف امریکہ استعمال کرسکا ہے، مسلم ممالک پر تو چڑھائی کرنے میں امریکہ ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتااور''مدر آف آل بمز‘‘بھی گرادیتاہے، لیکن شمالی کوریا کے خلاف اقتصادی پابندیوں، فائر اینڈ فری اور طاقت کے استعمال کی دھمکیوں کے باوجودتاحال کوئی عملی اقدام نہیں کرسکا۔ سوویت یونین افغانستان میں اپنی ہزیمت و پسپائی اور تحلیل برداشت کرگیا، لیکن ایٹم بم چلانے کی ہمت نہیں کرسکا، اس کے لیے اور بہت سے عوامل درکار ہوتے ہیں۔ان میںملک وقوم کا سیاسی ومعاشی استحکام، قومی اتفاقِ رائے اور ملی اتحاد بھی شامل ہیں۔1965ء کی پاک بھارت جنگ میں جو قومی وملی جذبہ ہر فرد اور ہر طبقے میں نظر آتا تھا، وہ 1971ء میں ناپید تھا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل پاکستان کی تاریخ سے بالکل بے بہرہ ہے اور تاریخ پڑھائی بھی نہیں جاتی۔ میڈیا جو تاریخ بتاتا ہے، وہ متنازعہ ہے۔ تاریخ کے حوالے سے ہر ایک کی تعبیر اپنی اپنی عصبیتوں کے تابع ہے، ایک کے نزدیک کوئی ابلیس ہے تو دوسرے کے نزدیک فرشتہ، ایک کے نزدیک کوئی شہید ہے ، تو دوسرے کے نزدیک قاتل۔ پاکستان میں کرپشن کی ابتدا جعلی کلَیموں سے شروع ہوئی، لوگوں کے نسب بدل گئے، کئی نامی بے نام ہوگئے اور کئی بے نام نامور بن گئے،نذیر دہقانی نے کہا ہے:
کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے
ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے
پھر کرپشن ہمارے جسدِ ملّی کے رگ وپے میں سرایت کرتی چلی گئی، پہلے راشی اور مرتشی ہونا عیب تھا، پھر اعزاز بن گیا۔ علم اور کردار بے توقیر ہوگئے اور دولت ذریعۂ وقار وافتخار بن گئی۔یہ اخلاقی امراض وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرضِ مُزْمِن (Chronic) کی شکل اختیار کرگئے۔ آج پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو صدر ایوب خان اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار غنیمت نظر آتے ہیں، خصوصاً صدر ایوب خان کے دورمیں اعلیٰ بیوروکریسی کے انتخاب میں اقربا پروری نہیں تھی ، ان کا علمی ، فکری اور نظریاتی معیار کافی بلند تھا، اب ایسا نہیں ہے۔اسی طرح جن اکابرعلماء ومشائخِ اہلسنت نے تحریکِ پاکستان میںجاندار کردار ادا کیا تھا،آج ان کے اسمائے گرامی آپ کونصابی کتابوں اورقومی تاریخ میں نہیں ملیں گے،محسن بھوپالی نے کہا تھا:
نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں