مسلّح افواج ایک منظم ادارہ ہے اوران میں اعلیٰ عہدوں کے لیے سلیکشن کا ایک باقاعدہ نظام ہے، فیصلے محض شخصی پسند وناپسند کی بنا پر نہیں، بلکہ ادارتی سطح پر ہوتے ہیں، یہ دعویٰ تو مبالغہ اور فطرت انسانی سے ماورا ہوگا کہ وہ ذاتی ترجیحات اور فروگزاشتوں سے بالکل پاک ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی صورتِ حال قابل اطمینان ہے ۔وہ منصب کے لیے درکارمعیار کو ملحوظ رکھتے ہیں اور امکانی حد تک پرفیکشن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل ISPRکے عہدے پر میجر جنرل رینک کا افسر ہوتا ہے اور اس کاانتخاب یقینا سوچ بچار کے بعد ہوتا ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ وہ میڈیا سے اپنی گفتگو میں الفاظ کا چنائو سوچ سمجھ کر کرتے ہیں اورمغلوب الغضب نہیںہوتے ۔ سابق ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ اس سلسلے میں زیادہ ماہر تھے۔وہ اپنا تاثر سافٹ رکھتے اور ریلیکس ہوکر گفتگو کرتے تھے۔ ہمارا براہِ راست رابطہ نہیں ہے ،تاہم جناب جنرل آصف غفور کو مشورہ ہے کہ وہ تنائو سے آزاد ہوکر تاثر کو بہتر بنائیں ۔ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی تو برف کی سل کی مانند ٹھنڈے ٹھار آدمی تھے،لہٰذا چہرے کے تاثرات سے ان کے دل کی بات جاننا مشکل تھا۔ ان کے جانشین جنرل راحیل شریف ذرا نمود پسندتھے اور جناب جنرل قمر جاوید باجوہ بَین بَین ہیں ،کیونکہ ورثے میں پائی ہوئی روایت کو یک دم چھوڑنا مشکل ہوتا ہے۔
پاک وہندمیں کور کمانڈر کہلاتے ہیں، امریکی دنیا پر حکمرانی کے دعویدار ہیں ،لہٰذا ان کی کمانڈ خطے پر محیط ہوتی ہے۔میرے علم میں نہیں ہے کہ کسی باوقار ملک میں فوجی کمانڈروں کی میٹنگ کوہماری طرح میڈیا میں غیر معمولی کوریج دی جاتی ہو۔ بیشتر ممالک میں یہ معمول کا معاملہ ہوتا ہے اورمیڈیا کو اس سے باخبر رکھنا ضروری نہیں سمجھا جاتا ۔ لیکن چونکہ ہمارے ہاں مسلح افواج وقفے وقفے سے اقتدار پرفائزرہی ہیں، اس لیے حساسیت زیادہ ہے ،میڈیا کی ریٹنگ کے بھی تقاضے ہوتے ہیں، سو وہ چار چار آنکھیں کان لگاکر بیٹھ جاتے ہیں کہ کہیں سے کھود کرید کرکوئی سنسنی خیز خبر نکالی جائے۔ متن سے یہ خواہش پوری نہ ہو تو پھر ماہرین اور تجزیہ کاروں کی فوج ظفر موج کا میلہ لگ جاتا ہے۔بینَ السطور، حاشیہ اور شرح کا میدان بڑاوسیع ہے ۔میڈیا رپورٹر اندر کی خبر نکالنے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ ہم اس طرح کے دعوے کرنے کا حق نہیں رکھتے،صرف منظر کو دیکھ کر رائے قائم کرتے ہیں، جس میں غلطی کا امکان موجود ہوتا ہے۔ کبھی دورانِ سفر کسی صاحبِ منصب سے ملاقات ہوجاتی ہے،وہ احترام ومحبت سے اپنا تعارف کراکے مل لیتے ہیں اور سنجیدہ تبادلۂ خیال بھی ہوجاتا ہے۔ ہم اپنے اپنے طبقات کے بارے میں دیانت داری سے بات کرتے ہیں، لیکن فرمان نبوی کے مطابق ''مجلس کی گفتگو امانت ہوتی ہے‘‘،لہٰذا ایسی باتیں سینے کا دفینہ ہوتی ہیں۔
سو جب سول اور فوجی اداروں میں مَوقِف کا اظہار معروف ادارہ جاتی طریقۂ کارسے ہٹ کر میڈیا کے ذریعے ہورہا ہو تو اس کے معنی ہیں : ''مانا کہ ہمارے ہاں بہت کچھ ٹھیک ہے ،لیکن سب کچھ ٹھیک نہیں ہے‘‘،کہیں نہ کہیں چنگاری سلگ رہی ہے اور یہ موجودہ حسّاس قومی وبین الاقوامی تناظر میں ملک کے مفاد میں نہیں ہے ، اختلافِ رائے کی صورت میں بھی اظہار معروف طریقہ ٔ کار کے مطابق ہونا چاہیے۔ جناب جنرل آصف غفور نے کہا: ''خاموشی کی بھی اپنی زبان ہوتی ہے ‘‘۔ فقہی اصول ہے :'' جب کسی کی رضا مندی معلوم کرنے کے لیے سوال کیا جائے،تو اس پر سکوت رضا مندی کی دلیل ہے‘‘ ،اس کی مثال یہ ہے: ''کنواری عورت سے سوال کیا جائے کہ آپ کواتنے مہر کے عوض فلاں شخص سے نکاح قبول ہے ،وہ خاموش رہے یا مسکرادے تو یہ اس کی رضامندی سمجھی جائے گی ، کیونکہ حیا زبانی اظہار میں مانع ہے ، جبکہ مطلقہ یا بیوہ عورت سے یہی سوال کیا جائے تو اس کا سکوت کافی نہیں ہوگا ،بلکہ زبانی اظہار کے لیے کہا جائے گا،کیونکہ وہ اس تجربے سے گزر چکی ہے اور اس کے لیے حیا اقراریا انکار میں مانع نہیں ہے۔ ہماری رائے میں یہاں بھی شکایات یا غلط فہمی کے ازالے کے لیے طرفین کی رسمی نشست ضروری ہے۔
ہمارے نزدیک جناب احسن اقبال کوجذباتی اندازاختیار نہیں کرنا چاہیے تھا ،لیکن بہر حال ایسے موقع پر، کم تر درجے ہی میں سہی،اس کا جواز بنتا ہے۔ دوسری بات جنرل صاحب نے یہ فرمائی:'' رینجرز کی مدد مانگی گئی تھی، ضروری نہیں کہ یہ عمل تحریری ہو‘‘یعنی زبانی استدعا بھی ہوسکتی ہے۔ یہی اصل مسئلہ ہے کہ جو سول ادارے یا افسران اس کے مُجاز تھے، وہ کسی ایسی تحریر ی یا زبانی استدعا سے انکاری ہیں۔ وزیر مملکت طلال چوہدری نے کہا کہ ذمے دار کا تعین ہونا چاہیے اور اسے سزا ملنی چاہیے،اداروں کے درمیان تنائو کے ماحول میں یہ الفاظ مناسب نہیں ہیں۔ انہیں کہنا چاہیے تھا:'' ان کی سرزنش یا تادیبی کارروائی ہونی چاہیے‘‘، اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ احسن طریقے سے معاملہ نمٹایا جائے۔ حکومت ِ وقت کوئی بھی ہو، ریاست وحکومت کا نظام تسلسل کا متقاضی ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ چند سال پہلے کراچی میں ہوا تھا۔ شہدائے کربلا کے چہلم کے دن علی الصباح دارالعلوم کراچی میں چھاپہ مار کارروائی ہوئی، اسے ادارے اور مسلک کے ذمے داران نے اہانت پر محمول کرکے پرزور احتجاج کیا۔ گورنر ہائوس میں اس وقت کے ڈی جی رینجرزجنرل رضوان اختر نے کہا :'' ہمیں خفیہ اطلاع ملی تھی کہ یہاں کچھ مشتبہ افراد ہیں جو چہلم کے جلوس پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں‘‘، ہم عجلت میں تھے، پولیس یا دوسرے اداروں سے بھی رابطے کا وقت نہیں تھا،اس لیے فوری ایکشن کرنا پڑا۔ انتظامیہ نے کہا: ''ہمیں اعتماد میں لے لیا ہوتا‘‘، بہر حال انہوں نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا، ادارے میں گئے، ذمہ داران سے معذرت کی، معاملہ نمٹ گیا اور باہمی اعتماد واحترام کا رشتہ بھی قائم رہا۔
میں نے گزشتہ ایک کالم میں لکھا تھا: ''ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قابل احترام عدلیہ اور ذمے دار اداروں کے درمیان ایک غیر مرئی رابطہ قائم ہوگیا ہے ‘‘،چنانچہ ڈی جی صاحب نے جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کی شرکت کے حوالے سے کہا : آرمی سے مدد مانگی گئی تھی اور ہم نے آئین کے مطابق اپنی ذمے داری پوری کی ‘‘۔ ظاہر ہے ایسی معاونت کے لیے سپریم کورٹ تحریری طور پر وزارتِ دفاع کے توسط سے رجوع کرتی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فرمائش بھی براہِ راست یا زبانی کی گئی ہوگی۔ موجودہ ناپسندیدہ حکومت سے قطع نظر یہ رولز آف بزنس کا معاملہ ہے ،جس کا میکنزم آنے والے ادوار کے لیے اتفاق رائے سے طے ہونا مناسب ہے۔
ڈی جی صاحب نے سوفیصد درست اور آئیڈیل بات کہی :'' ملک اداروں سے بالا اور ادارے افراد سے بالا ہیں‘‘، لیکن ملک اور ادارے '' اشخاصِ قانونی‘‘ ہوتے ہیں،ساکت ہوتے ہیں اورمُجاز مناصب پر فائز افراد ہی ان کی زبان ہوتے ہیں۔یہ ایسا ہی ہے کہ ڈی جی صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں جنرل پرویز مشرف کے سیاسی بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ''وہ سیاست دان ہیں، البتہ دفاعی امور پر اپنے تجربے کے مطابق گفتگو کرتے ہیں‘‘،لمحۂ موجود میں جناب جنرل قمر جاوید باجوہ جوبولیں گے ، وہی آرمی کی پالیسی ہوگی ۔ جسٹس افتخار چوہدری نے منصب پر فائز رہتے ہوئے سب کو لرزاں رکھا،لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے فرمودات کی حیثیت ایک عام شہری یا سیاستدان کی سی ہے اور دانش کی بلندی کا عالم یہ ہے کہ وہ ماضی کے ہمہ مقتدر جنرل پرویز مشرف کے ناکام سیاسی تجربے سے بھی سبق حاصل نہ کرسکے اور انہی کی طرح خوش فہمیوں سے مخمور ہوکر سیاست کے بحرظلمات میں چھلانگ لگادی اور اب بھولی بسری کہانی ہیں۔پس جو عزت عہدے کے سبب ملتی ہے ، وہ عہدے کے ساتھ ہی رخصت ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ ایسی عزت مانگنی چاہیے جو عہدوں کی مرہونِ منّت نہ ہو، بلکہ عہدے کے لیے اعزاز وافتخار قرار پائے۔ قومی اسمبلی میں حکمراں جماعت کے بعض ارکان کے واک آئوٹ اور چوہدری نثار علی خان کے اردگردہالہ بننے سے پارٹی میں دراڑ پڑنے کا غیبی اشارہ تو دیدیا گیا ہے ، بات نوشتۂ دیوار سے آگے نکل کرعمل کے دائرے میں داخل ہوگئی ہے، اشارات واضح ہیں۔ مقتدرہ کی جانب سے کنوینشن لیگ ، آئی جے آئی،ق لیگ ، پیٹریاٹ اورحریصانِ اقتدار کے مختلف قسم کے فارورڈ گروپ بنانے کے تجربات تو ہمیشہ ہوتے رہے ،وقتی طور پر کامیاب بھی رہے،جب تک اقتدار قائم رہا ان کا سکہ چلتا رہا۔ لیکن کوئی شخص مجسّم خیر ہو یا مجسّم شر،عوام کے دلوں میں درجۂ قبولیت اللہ کی تقدیر سے نصیب ہوتا ہے اور وہ اپنی حکمتوں کو بہتر جانتا ہے۔لیبارٹری میں تیار کردہ قیادتوں کی لمبی فہرست ہے، جو قصۂ ماضی بن گئے۔ لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھے دانشوروں کو کون سمجھائے کہ تمام تر خرابیوں کے باوجوداب تک الطاف حسین کا فیکٹر موجود ہے، 2018ء سر پر ہے ،لیکن مقتدرہ کی حکمتِ عملی کسی کونہیں معلوم۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''(جنّات نے کہا:)اور ہم نے آسمان کی (خبروں کی) ٹوہ لگائی، تو ہم نے اسے پہریداروں اور آگ کے گولوں سے بھراہوا پایا اور اس سے پہلے ہم(عالَم بالا کی) سُن گُن لینے کے لیے گھات لگا کر بیٹھتے تھے، سو اب جو سننے کی کوشش کرتا ہے ،وہ اپنے (پیچھے) آگ کے گولے تیار پاتا ہے، (الجن:9)‘‘۔ شیاطین اِن مسروقہ خبروں کے ٹوٹے کاہنوں تک پہنچاتے تھے اور وہ اس میں اپنا حصہ ڈال کر غیب فروشی کا کاروبار چلاتے تھے۔ شیخ صاحب 2008ء سے غیبی بشارتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کبھی ٹائمنگ کے بارے میں ان کے تخمینے غلط ہوجاتے ہیں تو لوگ بلاوجہ مذاق اڑاتے ہیں۔آخر بشارت فروشی کے لیے انہیں بھی مرچ مصالحہ لگانے کی گنجائش ملنی چاہیے۔ان کا یہ خداداد فن ہی تو ہے کہ میڈیا میں رونق افروز بہت سے اینکرز کی روزی میں برکت کا وسیلہ بنے ہوئے ہیں۔ بشارات کا ہدف بننے والوں کواب سمجھ آرہاہوگا کہ شیخ صاحب کی معلومات اگر سوفیصد درست نہیں تو بالکل غلط بھی نہیں ہوتیں۔