علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کا ایک وڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا ،وہ کہتے ہیں:قادیانیوں اور احمدیوں کی آئینی حیثیت سے متعلق الیکشن ایکٹ 2017میں'' چیف ایگزیکٹو آرڈر2002بابت انعقاد عام انتخابات‘‘ کی دفعہ 7Bاور7Cکو حذف کرکے اس کے ذریعے دستورِ پاکستان میں ارتدادِ قادیانیت کے آرٹیکل کو منسوخ کردیا گیا ہے، مجھے اس بیان پر حیرت ہوئی۔دستوری پوزیشن یہ ہے کہ کوئی بھی عام قانون آئین کے کسی آرٹیکل کو منسوخ نہیں کرسکتا،کیونکہ آئین ملک کے تمام قوانین پر بالادست ہے اور اگر قانون میں کوئی بات خلافِ آئین ہے ،تو سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر کے اسے کالعدم قرار دیاجاسکتا ہے۔ عام قانون کی منظوری کے لیے رائے شماری کے وقت پارلیمنٹ کے حاضر ارکان کی سادہ اکثریت کافی ہے ،جبکہ آئین کے کسی آرٹیکل میں ترمیم یا تنسیخ کے لیے پارلیمنٹ کے کل ارکان کی کم از کم دو تہائی اکثریت یعنی قومی اسمبلی کے 228اور سینیٹ کے 70ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے ،پس یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عام قانون دستور یااُس کے کسی آرٹیکل کو منسوخ کردے۔عام قانون کی صورتِ حال تو یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ کی متنازعہ دفعہ 203میں ترمیم کو سینیٹ نے 37کے مقابلے میں38ارکان کی حمایت سے منظور کیا ہے اور اب وہ ملک کا قانون ہے۔ اس سے پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002میں سیاسی جماعت کی سربراہی کے لیے عائد ایک بندش کو اٹھالیا گیا ہے۔
آئین میں منکرینِ ختمِ نبوت کی حیثیت مستقل طور پر متعیّن ہے،اصل مسئلہ اس کے مکمل نفاذ کا ہے۔پارلیمنٹ کی رکنیت کے اقرارنامے میں ختمِ نبوت کاحلفیہ اقراراس لیے ضروری ہے کہ کوئی قادیانی مسلمان کے بھیس میں پارلیمنٹ کا امیدوار نہ بن سکے،اگرچہ اخلاقی معیارات کے اعتبار سے ہم تنزّل کے دور سے گزر ر ہے ہیںاور حال ہی میں بزعم خویش سب سے زیادہ دیانت وصداقت کے حامل پارٹی سربراہ نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک ہی کیس میں بیان بار بار تبدیل کیے ،جبکہ ہر شخص کو معلوم ہے کہ سپریم کورٹ میں جمع کردہ بیان بھی حلفیہ ہی ہوتا ہے ، پس جھوٹے حلف نامے کے امکان کو یکسر ردّ نہیں کیا جاسکتا۔ ختمِ نبوت کی بابت یہی اقرار نامہ پاسپورٹ، قومی شناختی کارڈ، مسلح افواج میں شمولیت اور دیگر مواقع پر درکار ہوتا ہے۔
لہٰذا ہربات کوپوری دیانت کے ساتھ بیان کرنا چاہیے اوراختلاف کا حق استعمال کرتے ہوئے بھی صداقت ودیانت کاعَلم بلند رکھنا چاہیے ،کیونکہ اصل عدالت آخرت میں لگے گی، جہاں حقائق پر فیصلہ ہوگا، ہماری من پسند تعبیرات وتشریحات کام نہیں آئیں گی۔ ایک غلطی یہ بھی کی جارہی ہے کہ پوری پارلیمنٹ کو جوابدہ بنانے کی بجائے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ہمیں بتایا جائے یہ کام کس نے کیا ہے،ان تمام اصحابِ علم وفضل کی خدمت میں گزارش ہے کہ یہ کام پوری پارلیمنٹ نے کیا ہے ۔ کوئی وزیر،سیکرٹری یا سیکشن آفیسر دستوری طریقہ ٔ کار کے بغیرذاتی حیثیت میں کوئی قانون نہیں بناسکتا،لہٰذا اس غفلتِ مجرمانہ کی ذمے داری پوری پارلیمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔ جب جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق کہیں کہ ہمیں ذمے دار کا نام بتایا جائے اور جنابِ شاہ محمود قریشی اپنی غفلت پر قوم سے معافی مانگنے کی بجائے ہیرو بن کر سامنے آئیں،تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا سیاست دین کے تقاضوں پر غالب آگئی ہے۔کاش کہ ہماری قوم نظامِ آئین وقانون کو سمجھ کر بات کرے ۔ تمام علماء پربالخصوص اُن علماء پر، جو میدانِ سیاست میں مصروفِ عمل ہیں، سب سے زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔
اب ہم نفسِ مسئلہ کی طرف آتے ہیں:
الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017ء پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر تیار اورمنظور کیا ہے ۔اس میں انتخابات سے متعلق مختلف آٹھ قوانین کو یکجا کردیا گیا ہے ۔لیکن یہ کام انجام دیتے وقت سب نے غفلت کا ارتکاب کیا ،اس میں سے ایک فروگزاشت کا ازالہ پارلیمنٹ نے اقرارِ ختمِ نبوت کے شروع میں ''میں صدقِ دل سے حلفیہ اقرار کرتا ہوں ‘‘کے الفاظ کا اضافہ کر کے کردیا ہے ،فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذٰلِک۔انتخابی قوانین کو مربوط کرنے کے لیے بہت سی دفعات کو نئے قانون میں شامل کیاگیا ہے اور غیر ضروری دفعات کو حذف کردیا گیا ہے ،یہ حذفیات (Deletions)نئے قانون کی دفعہ 241میں شامل ہیں ۔اس کی ذیلی دفعہ (f)میں چیف ایگزیکٹیو آرڈر نمبر7بابت انعقادِ عام انتخابات 2002کی دفعہ 7Bو7Cکو مستثنیٰ کرتے ہوئے بقیہ تمام ذیلی دفعات کوحذف کردیا گیا ہے ،الغرض مندرجہ ذیل دو دفعات بدستور نافذ العمل ہیں :
احمدیوں وغیرہ کی حیثیت غیر متبدّل رہے گی :
دفعہ7B:''باوجودِیکہ کوئی چیز الیکٹورل رول ایکٹ 1974،انتخابی فہرست 1974یا کوئی بھی قانون جو تاحال مؤثر ہے، بشمول ان فارمز کے جو مشترکہ انتخابی بنیاد پر یا انتخابی فہرستوں کے لیے مقرر کیے گئے ہیں ''حکم نامہ انعقادِ عام انتخابات 2002کے آرٹیکل 7پر عمل در آمد کرتے ہوئے (چیف ایگزیکٹیو آرڈر نمبر7آف2002)،قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو اپنے آپ کو احمدی یا کسی اور نام سے پکارتے ہیں یا جو شخص سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی حتمی اور قطعی ختمِ نبوت اور اللہ تعالیٰ کا سب سے آخری نبی ہونے پر یقین نہیں رکھتایا کسی بھی تشریح ،تاویل یا توجیہ کے اعتبار سے ،خواہ وہ کیسی بھی ہو،سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کسی ایسے (باطل ) مدّعیِ نبوت کو نبی یا مذہبی مُصلح مانتا ہے ،اُس کی حیثیت وہی رہے گی جو اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے دستور 1973میں طے کی جاچکی ہے ‘‘۔
دفعہ7C:''اگر کسی شخص نے اپنا اندراج ووٹر کی حیثیت سے کر رکھا ہے اور انتخابی فہرستوں کے قانون مجریہ 1974کے تحت نظرِ ثانی کی مُجاز اتھارٹی کے سامنے دس دن کے اندراس کے اہل ووٹر ہونے کے بارے میںعام انتخابات کے انعقاد کے حکم نامے (دوسری ترمیم) مجریہ2002 کے تحت اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ یہ شخص مسلمان نہیں ہے ،تو نظر ثانی کی مُجاز اتھارٹی اس شخص کو ایک نوٹس جاری کرے گی کہ وہ پندرہ دن کے اندر اس کے سامنے پیش ہو اور اس سے مطالبہ کرے گی کہ وہ ایک ایسے اقرار نامے پر دستخط کرے جس سے واضح ہو کہ وہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی حتمی اور قطعی ختمِ نبوت پر یقین رکھتا ہے ،انتخابی قوانین مجریہ 1974میں اس کے لیے فارم ivتجویز کیا گیا ہے ۔ دریں صورت کہ وہ مذکورہ بالا اقرارنامے پر دستخط کرنے سے انکار کردیتا ہے ،اُسے غیر مسلم سمجھا جائے گااور اس کا نام مخلوط فہرست سے حذف کردیا جائے گااورووٹر ز کی ضمنی فہرست میں اسی انتخابی حلقے میں غیر مسلم کی حیثیت سے شامل کردیا جائے گا ۔دریں صورت کہ وہ ووٹر (جس کے مسلم ہونے پر اعتراض کیا گیا ہے )مُجاز اتھارٹی کی جانب سے نوٹس کی تعمیل کے باوجود حاضر نہیں ہوتا ،تو اس کے بارے میں (غیر مسلم ہونے کا ) فیصلہ اس کی عدم موجودگی میں (an ex-parte)یک طرفہ طور پر جاری کردیا جائے گا‘‘۔
آپ نے مطالعہ فرمالیا کہ دفعہ 7B کا مقصد ووٹر کے لیے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی حتمی اور قطعی ختمِ نبوت کا اقرار ، قادیانیوں اور منکرینِ ختمِ نبوت اورخاتم النبیین والمرسلین سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے بعدہر جھوٹے مدعیِ نبوت کو نبی یا مصلح مذہب یا محض مسلمان ماننے والوں کے غیر مسلم ہونے کا اقرار شامل ہے ۔دفعہ7Cکا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم دھوکے سے اپنا نام مسلم ووٹرز کی فہرست میں درج کرادے ،تو دس روز کے اندر مُجاز اتھارٹی کے سامنے ثبوت وشواہد کے ساتھ چیلنج کر کے اس کا نام مسلم ووٹر زکی فہرست سے نکال کراُسی حلقۂ انتخاب میں غیر مسلم ووٹرز کی فہرست میں شامل کیا جاسکے گا۔
فنی اعتبار سے وزارتِ قانون یہ کہہ سکتی ہے کہ ہم نے انتخابی قوانین مجریہ 2002کی ذیلی دفعہ 7Bاور 7Cکو حذف نہیں کیا اوریہ بدستور رائج الوقت قانون ہے،اس حد تک یہ بات درست ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان دفعات کا متن ''الیکشن ایکٹ 2017‘‘میں کہیں بھی درج نہیں ہے ،اس قانون نے سابق انتخابی قوانین کو منسوخ کرکے ان کی جگہ لے لی ہے ،اب آئندہ قانون کی کتاب میں یہی انتخابی قانون درج رہے گا ،جس میں 2002کے انتخابی قانون کی دفعہ 7Bاور 7Cکا متن شامل نہیں ہے ۔اس مسئلے کے حل کی صحیح صورت یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017کی دفعہ 37کے آگے ذیلی دفعہ37Aکا اضافہ کردیا جائے اور اس میں سابق دفعہ7Bکے متن کو مِن وعَن درج کردیا جائے ،اسی طرح اس مقام پر دفعہ 37Bکا اضافہ کر کے اس میں سابق دفعہ 7Cکا متن بعینہٖ شامل کردیا جائے۔ مزید یہ کہ اعتراض اٹھانے کے لیے دس دن کی تحدید ختم کردی جائے، کیونکہ کسی کی جعلسازی آشکار ہونے کے لیے مدت متعین نہیں کی جاسکتی ۔ہماری اس تجویز پر عمل کرنے سے سارے تنازعات ختم ہوجائیں گے ،اس ترمیمی ایکٹ کوقانون سازی کے مسلّمہ طریقۂ کار کے مطابق پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کرانا لازمی ہوگا۔
ہمارے مذہبی طبقات کی دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لیے محض حکومتِ وقت پر چاند ماری کرنے کی بجائے پوری پارلیمنٹ اوراُس میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن ،پاکستان پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوںپر یکساں دبائو ڈالیں ،تاکہ یہ مسئلہ بآسانی حل ہو جائے۔ ان قانونی موشگافیوں کو سمجھنے کے لیے جماعت اسلامی کے جنابِ اسد اللہ بھٹو ایڈوکیٹ نے ریکارڈ فراہم کر کے میری معاونت کی، اس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ میرے اس نتیجۂ فکر سے وہ بھی متفق تھے کہ 1973کے دستور یا اُس کے کسی آرٹیکل کو منسوخ کرنے کا الزام درست نہیں ہے ،البتہ اس کے تقاضوں کو پاکستان کے دستوری اور قانونی نظام میں سمونے کے سلسلے میں بہت سا کام باقی ہے۔