دنیا میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے ،جس پر پوری انسانیت کا اجماع ہو ،حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی برتر ذات کا انکار کرنے والے بھی موجود ہیں۔لیکن ایک حقیقت ایسی ہے ،جس پر سب کا اجماع ہے اور کسی کو اختلاف کرنے کی مجال نہیں ہے اور وہ ہے :موت۔ اگرچہ منکرینِ آخرت کے نزدیک موت فنائے ابدی کا نام ہے اور اسلام کی رُو سے عالمِ برزخ ایک ٹرانزشن پیریڈ ہے ،علامہ اقبال نے کہا ہے:
موت کو سمجھا ہے غافل، اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی ، صبحِ دوامِ زندگی
ترقی یافتہ اقوام اپنی دانست میں بہتر غذا، بہتر ماحول ،امراض کی صحیح تشخیص اور بہتر علاج کے ذریعے انسانوں کی اوسط عمر میں اضافے کے دعوے کرتے رہتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میری امت (کی اوسط عمر)ساٹھ سے ستّر سال کے درمیان ہے، (سنن ترمذی:2331)‘‘۔ ہمارے نزدیک تو''اَجَل ‘‘یعنی موت کا وقت مقرر ہے اور یہ ٹل نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(1) ''اور جب کسی شخص (کی موت) کا مقررہ وقت آجائے ،تواللہ اس کوہرگز مؤخر نہیں فرماتا، (المنافقون:11)‘‘۔(2)''اورہر قوم کے لیے ایک میعاد مقرر ہے ،سو جب اَجَل آجائے تو وہ نہ ایک ساعت پیچھے ہوسکیں گے اور نہ ہی ایک ساعت آگے ہوسکتے ہیں، (الاعراف:34)‘‘۔باقی سب اسباب ہیں اور ہمارے نزدیک اسباب اور ان کی تاثیر بھی تقدیر کا حصہ ہے ۔پس جب موت یقینی ہے تو یہ بھی پوری انسانیت کا مسئلہ ہے کہ میت کے ساتھ کیا کیا جائے ،یعنی روح نکلنے کے بعد اس کا ظاہری انجام کس طرح کا ہونا چاہیے ۔
الہامی مذاہب میں میت کی تدفین کا تصور موجود ہے اور اس پر عمل بھی ہورہا ہے ۔اگرچہ مغربی ممالک میں بہت سے مسیحی عملاً لا مذہب ہوچکے ہیں اور وہ اس کے اظہار میں کوئی ہچکچاہٹ بھی محسوس نہیں کرتے، چرچ بھی نہیں جاتے، نکاح کے بندھن سے بھی آزاد ہوچکے ہیں، ہم جنس پرستی کو بھی کئی ممالک میں قانونی تحفظ مل چکا ہے۔ ہمارے خطے میں ہندو ، سکھ اور بدھ میت کو جلاتے ہیں اور اس عمل میں بھی امارت وغربت کے اعتبار سے درجہ بندی موجود ہے ۔مغربی ممالک میں اب مسیحی مذہب والوں میں بھی میتوں کو جلانے کا سلسلہ چل پڑا ہے، اگرچہ اس کے صحیح اعداد وشمار ہمیں دستیاب نہیں ہیں۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ تدفین کے مقابلے میں جلانے کے اخراجات کم ہیں، کبھی مرنے والا خود بھی اپنی میت کو جلانے کی وصیت کرتا ہے، کبھی ورثاء بھی یہ فیصلہ کرلیتے ہیں۔ مرکز تجہیز وتدفین کے باہر اس کے اخراجات بھی لکھے ہوتے ہیں اور میت کی تدفین سے جلانے کے اخراجات نسبتاً کم ہیں۔ ان کا ایک فلسفہ یہ بھی ہوتا ہے کہ میت کے گلنے سڑنے سے کسی نہ کسی درجے میں ماحول کی آلودگی کا امکان ہوتا ہے، جبکہ جلانے سے قصہ تمام ہوجاتا ہے،صرف راکھ کو سمندر یا دریا میں ڈال دیتے ہیں یا کہیں پودا لگا کر اس کی جڑوں میں ڈال دیتے ہیں ۔الغرض میت کو انجام تک پہنچانا ایک مسلّمہ مسئلہ ہے۔
اسلام نے انسانیت کو تکریم عطا کی ہے اور پیدائش سے لے کرموت اور مابعد الموت تک یہ تکریم قائم رہتی ہے۔ سنت یہ ہے کہ بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے تاکہ اس مادّی کائنات میں اس کی سماعت سے سب سے پہلے جو آواز ٹکرائے، وہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی ،توحید ورسالت کی شہادت اور صلاۃ و فلاح کی دعوت پر مشتمل ہو،تاکہ اس کے روح میں ان پاکیزہ کلمات کے روحانی اورصوتی اثرات پیوست ہوجائیں اور اس کی فطرت ان سے آشنا ہوجائے ۔اس کے بعد گھٹّی دینا اور ساتویں دن بالوں کو مونڈ کر ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنااورعقیقہ سنت ہے ،عقیقے کی حکمت اللہ تعالیٰ کی نعمتِ اولاد کا تشکّر اورردِّ بلیّات کے لیے صدقہ ہے ۔
اسی طرح قریب الموت لمحات کے لیے ارشادِ نبوی ہے :''اپنے مردوں کو کلمۂ طیبہ کی تلقین کرو ،(صحیح مسلم:916)‘‘۔علماء نے بتایا: قریب المرگ شخص سے یہ نہ کہو کہ کلمہ پڑھو ،ہوسکتا ہے وہ کرب میں جھنجلا کرانکار کردے ، بلکہ اس کے قریب مناسب آواز میں پڑھتے رہو تاکہ افاقے کے لمحے میں اس کا ذہن متوجہ ہوتو اس کی زبان پر کلمہ جاری ہوجائے ، یہ اس کے لیے نیک فال ہوگا، حدیثِ پاک میں ہے: (1)''جس کا آخری کلام لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ ہو ،وہ جنت میں داخل ہوگا، (سنن ابودائود:3116)‘‘۔اس سے پورا کلمۂ طیبہ مراد ہے۔(2) بے شک بندہ لوگوں کی نظروں میں اہلِ جنت کے سے
عمل کر رہا ہوتا ہے ، حالانکہ (علمِ الٰہی میں )وہ اہلِ جہنم سے ہوتا ہے اور ایک شخص لوگوں کی نظروں میں جہنمیوں والے کام کر رہا ہوتا ہے ،حالانکہ (علمِ الٰہی میں )وہ اہلِ جنت میں سے ہوتا ہے اور بے شک اعمال میں انجام کا اعتبار ہے،(صحیح البخاری:6493)‘‘۔چنانچہ بعض لوگوں کی موت حالتِ اِحرام میں ، بعض کی حالتِ سجدہ میں ، بعض درجۂ شہادت پاتے ہیں ، ایسی موت پر اہلِ ایمان رشک کرتے ہیں ،کیونکہ بظاہر اُن کا انجام خیر پر ہوااور یہ نیک فال ہے۔ایک شخص عرفات میں حالتِ احرام میںاپنی سواری سے گر گیا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی (اور وہ فوت ہوگیا)، نبی ﷺ نے فرمایا:اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو ، دو کپڑوں میں کفن دو، نہ اسے خوشبو لگائو اور نہ سر کو ڈھانپو، کیونکہ یہ قیامت کے دن (اپنی قبر سے) تَلبِیہ پڑھتا ہوا اٹھے گا،(صحیح البخاری:1265)‘‘۔مجاہد فی سبیل اللہ کو بشارت دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں محمد(ﷺ) کی جان ہے ،اللہ کی راہ میں (مجاہدکو)جو زخم لگے گا ،وہ قیامت کے دن اسی زخمی حالت میں اٹھے گا،اس کا رنگ خون کی طرح اور اس کی خوشبو مشک کی طرح ہوگی،(صحیح مسلم:1876)‘‘۔
اسلام انسان کے سفرِ آخرت کو بھی باعزت صورت عطا فرماتا ہے ،میت کو غسل دیا جاتا ہے ،نئے یا پاک صاف اَن سلے کپڑے کا کفن پہنایا جاتا ہے ،خوشبو لگائی جاتی ہے اور پھر دعائے مغفرت کے لیے نمازِ جنازہ پڑھی جاتی ہے ۔اسلام نے نمازِ جنازہ کو ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے حقوقِ عامّہ میں شامل فرمایا اور جنازے کو فرضِ کفایہ قرار دیا۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''جب تم جنازہ دیکھو تو احتراماً کھڑے ہوجائو، پس جو جنازے کے ساتھ جائے ،وہ جنازہ رکھنے سے پہلے نہ بیٹھے ،(صحیح البخاری: 1310)‘‘۔ اسی طرح جو شخص ایمان کے ساتھ حصولِ اجر کے لیے تدفین تک جنازے کے ساتھ رہے،تو نبی کریم ﷺ نے اس کے لیے بڑے اجر کی بشارت دی ہے ،(صحیح البخاری:1325)۔
یہ تمہیدمیں نے اس لیے باندھی ہے کہ ہمارے بڑے شہروں سے لے کر دیہات تک قبرستانوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں ، کراچی جیسے دو کروڑ آبادی کے شہر میں ضرورت کے مطابق قبرستان نہیں ہیں اور سارے پرانے قبرستان پُر ہیں ، کئی قبرستانوں کی زمین پر تجاوزات ہیں ،قبریں کسی منظّم ترتیب کے مطابق نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی ایسا نقشہ دستیاب ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی عزیز کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جائے تو اس کو قبر آسانی سے مل جائے ۔ جن قبور پر ان کے عزیز وقتاً فوقتاً نہیں آتے ،گورکن اُن میتوں کے اعضاء کو کسی گڑھے میں دفن کر کے اس کی جگہ دوسری میت کو دفن کردیتے ہیں ۔ قبرستانوں میں صفائی اور روشنی کا بھی مناسب انتظام نہیں ہوتا، نہ ہی حشرات الارض اور دوسرے جانوروں سے قبروں کے بچائو کا کوئی انتظام ہے،مناسب جگہ پر قبر کے حصول کے لیے بھاری رقم یا رسوخ چاہیے ۔بلدیاتی اداروں کو چاہیے کہ قبرستانوں کی تیاری ،صفائی اورحفاظت ونگہداشت کے لیے قائم ادارے کو بااختیار اور فعال بنائیںاوراس میں کرپشن کا خاتمہ کریں۔قبرستانوں کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی نئی ہاوسنگ سوسائٹی کو قبرستان کے لیے جگہ مختص کیے بغیراجازت نہ مل سکے،کیا قبرستانوں کے بارے میں بھی چیف جسٹس آف پاکستان از خود نوٹس لیں گے تو کوئی صورت پیدا ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ مغربی ممالک کی طرح جدید انداز کے قبرستان بنائیں،قبرستان میں باقاعدہ دفتر ہواور نقشہ آویزاں ہو ، قبروں کے درمیان راستے اور قبروں کے نمبرلکھے ہوںتاکہ لوگ آسانی سے اپنے عزیز کی قبر تک پہنچ سکیں ۔کراچی میں سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل ایک بڑے اور منظّم قبرستان کی ضرورت ہے ، دیگر بڑے شہروں کا حال بھی یقینا اس سے مختلف نہیں ہوگا ۔مجھے ایبٹ آباد مانسہرہ جانے کا اتفاق ہوا ،وہاں لوگوں کی زمینیں رقبے کے اعتبار سے ویسے بھی کم ہیں ،بہت کم لوگ ہیں جن کی ملکیتی زمینیں ہیں ،لہٰذا ایسے علاقوں میں بھی قبرستان کے بڑے مسائل ہیں ۔مجھے بتایا گیا کہ کوئی وزیرِ اعظم یا وزیرِ اعلیٰ آئے ،تو اہلِ شہر کے مطالبات میں سرِ فہرست قبرستان ہوتا ہے ،دو سال قبل میں نے ٹیلی ویژن پرسابق وزیرِ اعظم نواز شریف صاحب کو مانسہرہ میں خطاب کے دوران قبرستان کے لیے نو کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان کرتے ہوئے سنا ، لیکن اس پر عمل درآمد کی کوئی علامات نظر نہیں آئیںاور نہ ہی وہاں نجی قطعاتِ اراضی بآسانی دستیاب ہیں کہ شہر کے قریب ضرورت کے مطابق آئندہ پچاس یا سو سال کی ضرورت کے مطابق قبرستان بنایا جاسکے، اسلام قبور کے احترام کا حکم دیتا ہے ۔ ملک کے دوردراز دیہی علاقوں میں بھی پرانے قبرستان بھر چکے ہیں ، جن لوگوں کی اپنی ملکیتی زمین ہے ، وہ اپنی میتوں کو وہاں دفن کرتے ہیں اور جن کی اپنی زمین نہیں ہے ،ان کو مشکلات درپیش ہیں۔ پاکستان کے ہر علاقے میں قبرستان کے لیے وسیع قطعاتِ ارضی دستیاب نہیں ہیں ۔
کراچی میں بعض مالدار طبقات مثلاً میمن برادری ،پنجابی سوداگران اور اسی طرح کی دیگر برادریوں کے اپنے اپنے قبرستان ہیں ،لیکن ان میں دوسرے لوگوں کی میتوں کو دفن کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔کراچی کنٹونمنٹ سے متصل میمن برادری کاایک قبرستان ہے ،میں نے اپنے ایک میمن دوست سے کہا: مجھے قیمت کے عوض چار قبروں کی جگہ دے دیں، بتایا گیا کہ ایک قبر کی جگہ پچاس ہزار روپے میں ملتی ہے ،پہلے انہوں نے امید دلائی مگر بعد میں بتایا کہ برادری سے باہر والوں کو جگہ نہیں دی جاسکتی ۔