"MMC" (space) message & send to 7575

فالو اپ

خود کشی کی شرعی حیثیت اوراس کے دینی ،سماجی ومعاشی محرکات پر گزشتہ دو کالموں میں گفتگو کرچکا ہوں۔ کالم کی گنجائش کے اندر رہتے ہوئے میں نے کوشش کی ہے کہ حتی الامکان اسے جامع بنایا جائے۔غالب کے الفاظ میں اس کامجموعی ردِّعمل کچھ ایسا ہے :
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی مرے دل میں ہے
تاہم کچھ تجاویز بھی سامنے آئی ہیں، علامہ غلام محمد سیالوی نے کہا :'' آپ نے اولاد کی تربیت میں والدین کی غفلت کاذکر کیا ہے، لیکن علمائے کرام کی ذمے داریوں پر گفتگو نہیں کی‘‘۔ میں نے انہیں بتایا کہ کالم کی گنجائش محدود ہوتی ہے، اس لیے تشنگی تومحسوس ہوگی، جو اس شعر کا مصداق ہے:
در میانِ قعرِ دریا، تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
ترجمہ: ''آپ نے دریا کی موجوں کے وسط میں مجھے اس تاکید کے ساتھ تختے پر بٹھا دیا ہے کہ خبردار! دامن پر کوئی چھینٹا نہ پڑے‘‘۔ بعض اوقات توجہ کی کمی کے باعث بھی اہم نکات رہ جاتے ہیں ۔ ایک ناخوش گوارحقیقت یہ ہے کہ مذہبی مسالک ومکاتب فکر موجود ہیں، یہ آئیڈیل صورتِ حال نہیں ہے، مگر ایک ناگزیر حقیقت ہے جس کاانکار ممکن نہیں،وطنِ عزیز کے معروضی حالات یہی ہیں۔ جو بھی تنظیمیں مجرد اسلام کے داعی بن کر نمودار ہوئیں ،وہ جلد ہی خودبھی ایک مسلک کی صورت میں ڈھل گئیں حتی کہ علامہ جاوید احمد غامدی لبرل اسلام کا عنوان بن گئے۔ الغرض مافوق المسلک ہونے کا انحصار بندے کے اپنے دعوے پر نہیں بلکہ اس کے عمل پر ہوتا ہے۔ جب آپ سب سے منفرد نظریات کے علمبردار بن جائیں تومذہبی میدان میں اپنے لیے مستقل جگہ بنانے کی خاطر آپ کو اپنی ہر تحریر وتقریر میںشعوری یا لاشعوری طور پراپنے نظریاتی امتیازات پر زور دینا اور بالواسطہ دوسروں کی نفی کرنا ہوتاہے۔ بعض خطیب جب کسی موضوع پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں تو اپنے ناظرین وسامعین کو مطمئن کرنے کے لیے کہیں نہ کہیں حضرت علی اور امام جعفر صادق رضی اللہ عنہما کا حوالہ ضرور دیتے ہیں۔
خطابات کا ترجیحی موضوع مسلکی امتیازات ہوتے ہیں، میں جب کبھی اندرونِ ملک یا بیرون ملک ''عقیدۂ توحید‘‘ پر گفتگو کرتا ہوں تو دوسرے مکاتبِ فکر کے لوگ بعد میں منتظمین سے حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ لوگ بھی اس موضوع پر بات کرتے ہیں۔ ہمارے ایک بڑے خطیب وعالم نے ''عقیدۂ توحید‘‘ سیمیناروں کا سلسلہ شروع کیا ، معلوم ہوا کہ ان کا مرکزی نکتہ توسُّل ہوتا ہے۔ حالانکہ توحید کوعنوان قرار دینے کے بعد اُسی کے تقاضوں پر بات ہونی چاہیے ،توسُّل واستمدادکے عنوان پر الگ سے بات کی جاسکتی ہے۔اسی طرح اہلسنت کے ہاں پسندیدہ موضوع فضائل ہیں ،روایتی سامعین کا ایک طبقہ بھی اسی کا دلدادہ ہے، سو یہ معاش کا بھی مسئلہ ہے۔اس سے سامعین کو ذہنی سرور بھی مل جاتا ہے،وہ چار نعرے لگاکر بزعمِ خویش سچے عاشق رسول بھی بن جاتے ہیں ۔ دوسری طرف بعض مناظر قسم کے خطباء کا من پسند موضوع ''شرک وبدعت‘‘ ہوتا ہے۔ 
اس تناظر میں سماجی اور اصلاحی موضوعات پر گفتگو کی گنجائش کم رہتی ہے۔ جب آپ معاشرتی خرابیوں پر بات کریں گے تو سامعین میں سے کسی نہ کسی کو یہ چوٹ اپنے اوپر محسوس ہوگی، کیونکہ یہ اشرافیہ ہمارے درمیان بیٹھے ہوتے ہیں اوربعض صورتوں میں اسی طبقے کے لوگ ان پیشہ ور خطباء کے اصل اسپانسر ہوتے ہیں ، اگرانہیں ناراض کردیا جائے تو گلشن کا کاروبار کیسے چلے گا۔مذہبی سیاسی جماعتوں کے نزدیک سب سے قابلِ قدر دینی خدمت وقت کے حکمرانوں پر چڑھائی کرنا ہے ،یہ سیاست کا سکّۂ رائج الوقت ہے،آپ جناب سراج الحق سے پوچھ سکتے ہیں ۔ہم کہتے ہیں :یہ کام بڑے شوق سے کریں ، اللہ آپ کو ہمت دے تو اس سے دس گنا زیادہ شدّومدّ سے کریں ،لیکن تھوڑا سا وقت نکال کر ہمیں اپنے گریبانوں میں بھی جھانکنا چاہیے کہ معاشرے کی اصلاح میں ہمارا حصہ کتنا ہے ۔ میں ایک جلسے میں پنجاب گیا ،وہاں شرکاء کے لیے قرعہ اندازی کے ذریعے عمرے کے بارہ ٹکٹوں کی پیش کش تھی۔ٹکٹوں کی پیشکش کرنے والے چوہدری اور سیٹھ صاحبان صفِ اوّل میں بیٹھے تھے ، میں نے اُن سے کہا: اگر آپ کو اللہ کی رضا کے لیے کسی کو عمرے پر بھیجنا ہے ، توکسی نیک آدمی کا انتخاب کیجیے،صرف اُسے پتا ہواورآپ کو، اللہ تعالیٰ تو سب ظاہر باطن کا جاننے والاہے ،اس نمود کی کیا ضرورت ، شہرت پسندی کو حدیثِ مبارک میں شرکِ اصغر کہا گیا ہے ۔ مزید یہ کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو عمرہ کرانا دینی ضرورت نہیں ہے ، اس کے برعکس قوم کے ہر بچے کو اچھا مسلمان اور اچھا پاکستانی بنانا حسبِ توفیق اور حسبِ مراتب ہم سب کی ذمے داری ہے ،یہ پیسہ آپ تعلیم وتربیت کے فروغ پر خرچ کریں تو آپ کے لیے صدقۂ جاریہ ہوگا،بعد میں مجھے بتایا گیا کہ جلسے کے منتظم نے اعلان کیا کہ آئندہ ہم صرف تربیتی پروگرام کریں گے،اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے۔آج کل بعض باوسائل پیر صاحبان بھی اپنی مجالس کی رونق دوبالا کرنے کے لیے عمرے کے ٹکٹوں کا سہارا لیتے ہیں ،عموماًیہ مجلسیں روایتی اور تعلیم وتربیت سے عاری ہوتی ہیں۔ 
سو میں تسلیم کرتا ہوں کہ علمائے کرام کا اصلاحِ معاشرہ میں کردارمحدود ہے اور منبر ومحراب کی فیض رسانی کا دائرہ سمٹ گیا ہے۔ نیز مسلکی موضوعات ان کے لیے سجے ہوئے دسترخوان کی طرح ہوتے ہیں، آڈیو وڈیو مواد موجود ہے ، اب واعظین اور نعت خوانوںکو حافظے پر بھی زور دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔موبائل سامنے رکھ کر سحرِخطابت اورحُسنِ صوت کاسیلِ رواں جاری رہتا ہے، پرجوش نعروں اور سبحان اللہ کا وقفہ اسی لیے ضروری ہوتا ہے کہ اسکرین کو اپ ڈیٹ کردیا جائے، پس مدارس وجامعات میں ائمہ وخطباء کی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ میں 1965سے ایک ہی مسجد میں خطابت کررہا ہوں، میرا تجربہ ہے کہ نوجوان بزرگوں کی بہ نسبت بات زیادہ توجہ سے سنتے ہیں ، کبھی سوال بھی کرتے ہیں اور سوال وہی کرے گا جو توجہ سے سنے اور معنی پر غور کرے ، نعرے باز سامعین کو اس کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ اس لیے آج کل جلسوں میںایکو سائونڈلازمی عُنصر ہوگیا ہے ،جو آواز کی بازگشت سے ایک طرح کی نغمگی کا تاثّر پیدا کرتا ہے ،ایسے میں معنی پر غور کون کرے گا، بعض اوقات الفاظ صحیح طور پر سمجھ بھی نہیں آتے۔ گزشتہ سال امریکہ میں ایک اجتماع میں نعت پڑھی جارہی تھی ،سبحان اللہ کی صدائیں بھی آرہی تھیں، نوٹ بھی نچھاور ہورہے تھے ،میں نے بعد میں اپنی گفتگو کے دوران سامعین سے اُن اشعارکا مطلب پوچھا ،تو سب خالی الذہن تھے۔
الحمد للہ علیٰ احسانہٖ! ہمارے سب بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے ذہانت سے نوازا ہے ، میرے برادرِ بزرگوار انجینئر جمیل الرحمن قاضی ہم سب سے زیادہ ذہین ہیں ،وہ میری تحریروں کو پڑھتے بھی ہیں اور مشورے بھی دیتے ہیں ،وہ ہمارے خاندان کے سرپرست ہیں ، اللہ تعالیٰ اُن کا سایا تادیر سلامت رکھے۔ انہوں نے بتایا: حالیہ برسوں میں قتل کے واقعات کا تناسب بہت بڑھ گیا ہے ،ہمارے آبائی ضلع مانسہرہ کے وہ علاقے جہاں برسوں میں کوئی ایک آدھ قتل کا واقعہ ہوتا ،اب وہاں کے مقامی اخبارات روزانہ قتل ،چوری، ڈکیتی اور دیگر جرائم کے واقعات سے بھرے ہوتے ہیں ۔ میں نے بھائی جان سے کہا:جنابِ عمران خان تو بتاتے ہیں کہ پختونخوا کی پولیس مثالی بن گئی ہے ،جرائم کم ہوگئے ہیں ، تھانوں میں ایف آئی آر کا اندراج کمپیوٹرائزڈہے ۔انہوں نے کہا :کمپیوٹرہو یا سادہ کاغذ ،جب ایف آئی آردرج ہی نہیں ہوگی ،تواعداد وشمار پرکشش نظر آئیں گے۔ پولیس اور انتظامیہ عدالت سے باہر جرگہ بٹھا کر معاملات طے کرادیتی ہے ، جرگے میں علاقے کے با اثر لوگ جمع ہوتے ہیں ،وہ اپنے دبائو سے معاملات طے کرادیتے ہیں اور راوی چین لکھتا ہے۔با اثر اور داداگیر لوگوں کے جرگے میں کمزور لوگ حد سے تجاوز نہیں کرسکتے ۔
غیرت کے نام پرماورائے عدالت قتل کے واقعات رپورٹ نہ ہونے کا ایک سبب سابق صدر پرویز مشرف کا''تحفظِ نسواں ایکٹ‘‘ ہے، اس کی رُوسے مغرب کی طرح پسِ پردہ زنا بالرضا کو قانونی تحفظ مل گیا ہے ، پہلے ایسے واقعات حدودقوانین کے تحت رپورٹ ہوجاتے تھے ،پولیس اور عدالت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ،لوگوں کے جذبات ٹھنڈے ہوجاتے اور مصالحت کی کوئی صورت نکل آتی تھی۔ قانونی راستہ بند ہونے کے سبب لوگ ماورائے عدالت خود اِقدام کرتے ہیں ، اب ایسے واقعات بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں، اس کا وبال سابق صدر اور اُن کی پارلیمنٹ پر بھی ہوگا۔ کیونکہ جب اپنے لوگوںکے سماجی پسِ منظراور معروضی حقائق کو نظر انداز کر کے محض لبرل ازم کے شوق میں قوانین بنائے جائیں گے، تو ناکامی اُن کامقدر ہے ۔فیشن کے طور پر پنجاب حکومت نے شوہروں کو الیکٹرانک رنگ پہنانے کا قانون بنایا تھااور بیوی کو اختیار دیا تھا کہ وہ زیادتی کرنے والے شوہر کو گھر میں داخل نہ ہونے دے،کوئی بتائے کہ آج تک کس شوہرکو وہ رنگ پہنایا گیا ہے ۔
یہاں تک لکھ پایا تھا کہ گزشتہ کالم کے حوالے سے علامہ غلام محمد سیالوی نے فون پربتایا : میری نشاندہی پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے قبرستانوں کی حالت پر توجہ دی ہے ، چار دیواری بنانے کے لیے متعلقہ ایم پی ایز کوفنڈز دیے ہیں اور لاہور میںشہرِ خموشاں کے نام سے ایک منظّم قبرستان بنایا ہے ،اس میں غسل سے لے کر کفن دفن تک ساری سہولتیں دستیاب ہیں ،یہ قابلِ تحسین ہے ، دیگر صوبائی اور مقامی حکومتوں کو بھی اس حوالے سے کام کرنا چاہیے ۔ زندہ لوگ تو اپنے حقوق کے لیے کچھ نہ کچھ فریاد کرلیتے ہیں ،مُردوں کی حالتِ زار پربھی توجہ دینی چاہیے ۔قبرستان سے متعلق کالم پر قارئین کی بہت ای میلز آئی ہیں ،یہ واقعی قابلِ توجہ مسئلہ ہے ،برطانیہ سے آئے ہوئے ایک سوال کے جواب میں،میں نے علماء کی تصدیقات کے ساتھ قبرستان کے حوالے سے ایک تفصیلی فتویٰ لکھا ہے جو ہمارے فیس بک پیج پر پڑھا جاسکتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں