معاشرتی خرابیوں کی ذمے داری بحیثیتِ مجموعی پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے ۔سب سے زیادہ ذمے داری نظامِ حکومت پر اور اس کے بعددرجہ بدرجہ با اثر طبقات پرعائد ہوتی ہے ،ان میں حزبِ اقتدار واختلاف پر مشتمل حکمران اشرافیہ بھی شامل ہے اور وہ بھی جو نہایت بے چینی سے اپنی باری کے منتظر ہیں۔ یہی سبب ہے کہ بے لاگ انصاف کرنے والے عادل حکمران کو اسلام نے بڑا درجہ عطا کیا ہے ،احادیثِ مبارکہ میں ہے:(1) '' رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سات طبقات ایسے ہیں ،جن پر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا خصوصی سایافرمائے گا، اُن میں سے سب سے پہلا طبقہ عادل حکمران کا ہے ،(صحیح البخاری:660)‘‘۔ (2):''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عادل حکمران کاایک دن (جو حقیقی عدل کی فراہمی میں گزرا ہو)ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے۔زمین پر حق کے ساتھ قائم کی جانے والی ایک حدزمین کو چالیس سال کی بارش سے بھی زیادہ پاک کردیتی ہے، (المعجم الکبیر للطبرانی: 11932)‘‘۔عدلیہ کا ادارہ اورہر سطح کی عدالتیں نظامِ حکومت کا حصہ ہیں ،ہمارے ہاں نظامِ عدل فرسودہ ہوچکا ہے ، فیض رساں نہیں رہا،جب کسی ادارے پر ذمے داری براہِ راست عائد ہو تو عند اللہ اس کی مسئولیت بھی اسی درجے کی ہوگی۔
علماء بھی چونکہ معاشرے کا حصہ ہیں ،وہ کوئی الگ مخلوق نہیں ہیں ، نہ ہی وہ کسی اور سیارے یا خطے سے پیرا شوٹ کے ذریعے اتر آئے ہوں،ان کا خمیر اسی مٹی سے اٹھا ہے اوراس کے اثرات سے اُن کا کلّی طور پر پاک ہونا خارقِ عادت تو ہوسکتا ہے، لیکن معمول کا حصہ نہیں۔لہٰذا انہیں بھی اس ذمے داری سے بری قرار نہیں دیا جاسکتا ، چونکہ وہ خود اپنے آپ کو دین کے نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور دین کے داعی ہیں ،اس لیے ان پر نسبتاً زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے ،دیگر لوگ اپنی کمزوریوں کے باوجود ان سے خیر کی زیادہ توقع رکھتے ہیں اور یہ توقع بجا ہے،چنانچہ حدیث پاک میں ہے :''ایک شخص نے نبی ﷺ سے برائی کے بارے میں پوچھا، آپ ﷺ نے تین بار فرمایا: مجھ سے برائی کے بارے میں نہ پوچھو، مجھ سے اچھائی کے بارے میں پوچھو، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: سنو! سب سے بڑی برائی برے علماء ہیں اور سب سے بڑی اچھائی اچھے علماء ہیں، (سنن دارمی:382)‘‘۔
یہ تمہید میں نے اس لیے باندھی کہ معاصر اخبار کے کالم نویس نے ضلع بدین میں قتل کے ایک ہولناک واقعے کاذکر کیا ہے ، جس میں ایک شخص اپنی بیوی اور آٹھ بچیوں (جن میں سے دو معذور ہیں )کی ماں کو بدکاری کے شبہے میں کلہاڑیوں سے ضربیں لگارہا تھا،وہ مدد کے لیے پکار رہی تھی ، لوگ تماشا دیکھ رہے تھے ،لیکن کوئی اس کو بچانے کے لیے آگے نہ بڑھا اور وہ قتل کردی گئی ۔اس کی بچیوں کے حصے میں بطورِ وراثت یتیمی اور رُلنے کے علاوہ بدکاری کی تہمت بھی آئی ،جو زندگی بھر ان کا تعاقب کرتی رہے گی اور یہ خود ان کے باپ کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔انہوں نے بجا طور پر معاشرے کی بے حسی کا رونا بھی رویا اور بطورِ خاص علماء کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف تو اجتماعی فتویٰ دیدیا ،لیکن غیرت کے نام قتل پر علماء کا اجتماعی تو کیا انفرادی فتویٰ بھی دیکھنے میں نہیں آیا ، مزید لکھتے ہیں:''روایتی مذہبی جماعتیں ''فیوڈل ازم‘‘ کے لیے نرم گوشہ رکھتی آئی ہیں، جماعت اسلامی ان روایتی جماعتوں سے بالکل مختلف سوچ رکھتی تھی، مولانا مودودی کا لٹریچر اس کا گواہ ہے۔ لیکن ماضی میں معاشرتی برائیوں کے خلاف مہمات چلانے والی جماعت اسلامی کاروکاری اور عزت کے نام پر قتل کے بارے میں نہ جانے کیوں خاموش ہے،شاید غضِّ بصر سے کام لے رہی ہے۔ ہر طرف سے یہ خاموشی ایک قسم کا فتویٰ ہے کہ عورت پیر کی جوتی ہے یعنی ایسی شے جسے استعمال کے بعد جب چاہے ''ڈمپ‘‘ کیا جاسکتا ہے، یعنی ڈسپوزایبل آئٹم ہے‘‘۔
کالم نگار کی خدمت میں گزارش ہے :میں نے ساٹھ کے عشرے کے نصفِ آخر سے شعوری زندگی گزاری ہے ، اُس دور کے بائیں بازو کے دانشور مولانا مودودی کی تصنیف ''مسئلۂ ملکیتِ زمین‘‘ کے سبب انہیں جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور امریکہ کا ایجنٹ قرار دیتے تھے ،یہ الگ بات ہے کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد وہ سب لبرل بن کر ایک ہی جَست میںامریکی کیمپ میں جا بیٹھے اور اس کے محبوبِ نظر بن گئے ۔البتہ مفتی محمود صاحب وقتاً فوقتاً یہ بیان دیتے تھے کہ امام اعظم کے نزدیک مزارعت ناجائز ہے ،اسی سبب انہوں نے 1970میں سوشلزم کے خلاف فتوے پر دستخط نہیں کیا تھا، سو وہ بائیں بازو کے دانشوروں کے لیے جزوی طور پر قابلِ قبول تھے۔بحیثیتِ مجموعی سارے کمیونسٹ سوشلسٹ دانشور اور صحافی علماء کو سرمایہ داروں ،جاگیرداروں کا ایجنٹ ہونے کے طعنے دیتے تھے اور سب سے زیادہ یہ طعن مولانا مودودی پر ہوتا تھا۔ اب بھی بہت سے لبرل کرم فرمااوردیگرحضرات علماء کو حسبِ توفیق کوستے رہتے ہیں اور اس سلسلے میں علامہ اقبال اُن کے بہت کام آتے ہیں ،اس کے صلے میں انہیں چاہیے کہ علامہ اقبال کوایصالِ ثواب کرتے رہیں۔
قرآنِ مجید میں قتل کے دو احکام بیان کیے گئے ہیں:ایک قتلِ عمد اور دوسرا قتلِ خطا کا، حرابہ یا فساد فی الارض کا حکم الگ سے بیان ہوا ہے ۔میں بار بار لکھتا رہتا ہوں کہ آئے دن مختلف عنوانات سے قانون سازی ،جس میں غیرت کے نام پر قتل بھی شامل ہے، یہ محض نمبر گیم کے لیے ہوتا ہے ،پارلیمنٹ میں موجود بیگمات اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے اس میں پیش پیش ہوتی ہیں ، حالانکہ اُن میں سے کئی کا تعلق استحصالی طبقات سے ہوتا ہے ۔قتلِ عمد خواہ ذاتی عداوت کے نام پر ہو ،زمین اور جائیداد کے جھگڑوں کے سبب ہو، کاروکاری اور غیرت کے نام پر ہو، اس کی سزا ایک ہے اور وہ قرآنِ کریم میں طے شدہ ہے۔ مسئلہ شفاف عدل کی فراہمی اور سزا کانفاذ ہے، جو یہاںمفقود ہے۔ اور تو چھوڑیں!قتل کی بعض ہائی پروفائل وارداتوں پر میڈیا میں بہت شور اٹھتا ہے اور آخر میں وہ بھی کہیں دفن ہوجاتی ہیں ،رسّہ گیر وں،دادا گیروں، دہشت گردوں اور با اثر جاگیرداروں کے خلاف کوئی گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور نہ ہی اُسے تحفظ ملتا ہے ،اس طرح کا تحفظ صرف قانون کی کتابوں میں درج ہوتا ہے ،عملی زندگی میں اس کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان ایک تقریب میں دورانِ خطاب کہہ چکے ہیں :''ڈیڑھ لاکھ وکلاء میری جماعت ہیں ‘‘، سو ہمارے ضابطۂ فوجداری اور ضابطۂ دیوانی کے قوانین پیچیدہ ہیں اور نامی گرامی وکلاء انہی قوانین کو انتہائی مہارت کے ساتھ اپنے موکّلین کو بچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
آپ کا کہنا بجا ہے :خطباء اپنے اپنے علاقوں میں براہِ راست با اثر طبقات کو نشانہ نہیں بناپاتے ،کیونکہ ان کو بھی تحفظ حاصل نہیں ہے ،سیاسی تنقید کی تو کسی حد تک آزادی ہوتی ہے ،لیکن شخصی تنقید کی آزادی نہیں ہے ۔بہت دور کی بات نہیں ہے، طاقتور الیکٹرانک میڈیا اور اُن کے صحافتی سورما جو ہر روز سرِ شام حاکمِ وقت کے پرخچے اڑاتے رہتے ہیں،جنابِ الطاف حسین کے آگے سب سرِ تسلیم خم کیے رہتے، اپنے معمول کے تمام پروگراموں حتیٰ کہ خبرنامے کو بھی بالائے طاق رکھ کر ان کے فرمودات کو مِن وعَن نشر کرتے تھے،اس پر آزادیٔ اظہار اورآزادیٔ صحافت کی تقدیس بھی مجروح نہیں ہوتی تھی ،کیونکہ یہاں انہیں سرخ لکیر عبور کرنے کا انجام معلوم تھا۔
البقرہ:178-179،النسائ:92-93اورپورے پسِ منظر کے ساتھ المائدہ :27تا 34اور45میں قتل کے احکام تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں ، ان کی مزید تاکید اورتفسیر وتشریح احادیث اور فقہ کی کتب میں موجود ہے۔علماء ہرگز یہ نہیں سمجھتے کہ یہ احکام بنی اسرائیل تک محدود تھے ،بلکہ بنی اسرائیل کا حوالہ تو ان احکام کی حکمت کو سمجھانے کے لیے آیا ہے ،قرآن کی اصل مخاطب امتِ مسلمہ ہے۔ہم اپنی بساط کے مطابق ان موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے ہیں ،میڈیا پر بھی بارہا ان موضوعات پر بات ہوئی ہے ،آج کل میں الیکٹرانک میڈیا پر بات کرنے سے گریز کرتا ہوں، کیونکہ ہمارے چند جملے لے کر اس پر وہ اپنی عمارت تعمیر کرتے ہیں ،حتمی رائے دینے کے لیے این جی اوز کی بیگمات اور کارپرداز بیٹھے ہوتے ہیں یا کوئی من پسند شخصیت بلا لی جاتی ہے اوران کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام بھی نہیں ہوتا ۔ایک کیس چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار نے اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت ہاتھ میں لیا ہے اور پوری قوم منتظر ہے کہ اس کاانجام کیا ہوتا ہے ۔اس فیصلے پر بہت کچھ منحصر ہے کہ آئندہ بھی ہر ایک کے دامانِ عزت کو تار تار کرنے کا فری لائسنس ان لوگوں کے پاس رہے گا یا نہیں ،کیونکہ بعض لوگوں نے بزعمِ خویش اپنی عزت پامال ہونے پرعدالتوں میں اربوں روپے ہرجانے کے دعوے دائر کیے ،لیکن ہم نے ایسے کسی مقدمے کو فیصل ہوتے یا انجام تک پہنچتے نہیں دیکھا، کیا اب ایسا ہوجائے گا۔
قتلِ ناحق یا خود کش حملوں یا پاکستان کی سرحدوں کے اندر دہشت گردی کے واقعات پر علماء کے اجتماعی فتوے کی ضرور ت اس لیے محسوس کی گئی کہ داعش ،القاعدہ ،تحریک طالبانِ پاکستان اور اس قماش کی دیگر تنظیمیں اپنے اقدامات کے لیے شریعت کا سہارا لیتی ہیں، وہ قرآن وسنت سے اس کا جواز پیش کرتے ہیں ،پس اس حوالے سے اسلام کا درست موقف پیش کرنا ضروری تھا ۔جبکہ ہمارے علم میں نہیں ہے کہ غیرت کے نام پر قتل یا کاروکاری یا ونی وغیرہ جاہلانہ قبائلی رسوم کاکسی نے شرعی جواز پیش کیا ہو۔اگر خدانخواستہ کسی کے علم میں کوئی ایسی مثال ہے تو ہم برملا اس کا رد کرتے ہیں ، اُسے خلافِ اسلام قرار دیتے ہیں اوراپنی طرف سے خود ساختہ شریعت وضع کرنے سے تعبیر کرتے ہیں،انہیں قانون کے مطابق عبرت ناک سزائیں دی جائیں،اگر ضرورت محسوس ہوئی تو اجتماعی فتویٰ بھی آسکتا ہے۔