"MMC" (space) message & send to 7575

امتِ مسلمہ کی زبوں حالی

1979ء کی تدفین کے عنوان سے کالم میں مَیں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے انٹرویو کا اقتباس نقل کیا، جو دلوں کو دہلا دینے کے لیے کافی تھا۔ شہزادے نے کہا''ہم نے مغرب کے اشارے پر کمیونزم کا راستہ روکنے کے لیے دنیا بھر میں عظیم الشان مسجدیں بنائیں اور سخت گیر نظریات کو پھیلایا‘‘۔ جب مسجدوں کا بنانا امریکہ کے اشارے پر ہو تو مسلمانوں کے لیے اس سے بڑی ابتلا کوئی نہیں ہو سکتی، خاص طور پر اس صورت میں کہ حرمین طیبین سے یہ ثقہ شہادت آ رہی ہے۔ آج امتِ مسلمہ کا المیہ یہی ہے، جب ہم کسی کی فرمائش پرکوئی خدمت انجام دیں گے تو اس کا یہ حق بنتا ہے کہ ضرورت پوری ہونے پر وہ کہے ''بس آپ کا کام ختم‘‘۔ ماضی میں جہادِ افغانستان ہمارا افتخار تھا لیکن پھر یہ ریاستی کنٹرول سے ماورا ہو گیا اور کسی فکری اور علمی سرپرستی کے بغیر خود رو گھاس کی طرح ہر سُو پھیلتا چلا گیا۔ اب اس کاحال بھی یہی ہے کہ اہلِ مغرب کہتے ہیں: جب جہاد ہماری مدد سے، ہمارے ایما پر اور ہمارے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے شروع ہوا تھا تو پھراب ہمارے اشارے پر اسے روک دو۔ چنانچہ جب امریکہ اور یورپ میں صوفی ازم کی تحسین شروع ہوئی تو میں نے اپنے دوستوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ کون سا تصوف ہے جس کی پذیرائی اہلِ مغرب کر رہے ہیں اور چوہدری شجاعت حسین صاحب صوفی کونسل کے چیئرمین ہیں، بعد میں اُس وقت کی امریکی سفیر این پیٹرسن نے مسجد وزیر خان لاہور اور کوٹ مٹھن میں بابا فرید کی درگاہ کی تزئین وآرائش کے لیے جب فنڈز دیئے تو میں نے کہا تھا: یہ خطرے کی علامت ہے۔
2017ء تک ہم جہادِ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست و ریخت کو اپنا کارنامہ قرار دے رہے تھے اور اس ''فتحِ مبین‘‘ کا سہرا اپنے سر باندھ رہے تھے تاکہ دنیا ہم سے لرزاں و ترساں رہے، ہمیں چھیڑنے سے پہلے سو بار سوچے، لیکن جب امریکہ نے رخ بدلا تو بھارت نے اس کی شہ پاتے ہی ہمیں سفارتی طور پر تنہا کرنے کی مہم شروع کر دی، اس کے بائیکاٹ کے سبب ہمارے ہاں سارک سربراہ کانفرنس اور بعض دوسرے عالمی ایونٹ نہ ہو سکے، آخر میں عالمی سطح پر سپورٹس کے شعبے سے بھی ہمیں خارج کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ہمارے لیے یہ صورتِ حال کیا کم تعجب خیز ہے کہ ہم کئی سالوں سے دوسری ٹیموں کے ساتھ اپنی ''ہوم سیریز‘‘ امارات میں کھیل رہے ہیں، حتیٰ کہ اپنی قائم کردہ پاکستان سپر لیگ بھی انہی میدانوں میں منعقد کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی منّت سماجت کر کے بمشکل گزشتہ سال کا فائنل لاہور لا سکے اور اس سال آخری چند میچ لاہور میں اور فائنل کراچی میں منعقد کرا سکے۔ صرف کراچی کے فائنل اور ویسٹ انڈیز کے ساتھ ٹی ٹونٹی سیریز پر ہمارے مالی اور انسانی وسائل کا تخمینہ اربوں روپے بنتا ہے، ہمیں شہر کو کئی دن مفلوج رکھنا پڑا، کئی علاقوں میں کاروبار متاثر ہوا، کئی سڑکیں بند کرنا پڑیں۔ انٹرنیشنل کھلاڑیوں کے قدِ آدم پورٹریٹ سڑکوں پر آویزاں کرنا پڑے کہ گویا یہ ہمارے ہیروز ہیں، ہمارے دلوں میں بستے ہیںاور میڈیا نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا۔
کہا جا سکتا ہے کہ قوموں اور ملکوں کو اپنے قومی مفاد میں دشمن کے پروپیگنڈے کو زائل کرنے کے لیے ایسی قربانیاں دینا پڑتی ہیں، اس سے ہمیں سو فیصد اتفاق ہے۔ ہم دل و جان سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اب ہم اچھے بچے بن چکے ہیں، امن کے دلدادہ ہیں، دہشت گردی سے نفرت کرتے ہیں اور اُسے کافی حد تک کچل چکے ہیں لیکن اس کے باوجود دنیا ہم پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ انتظامات روایتی نہیں ہیں بلکہ غیر معمولی حساسیت پر مبنی ہیں، اس قدر احتیاط کے باوجود ایونٹ کے اختتام تک دھڑکا سا لگا رہتا ہے، ہم دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ یہ میلہ خیریت کے ساتھ اختتام کو پہنچے۔ دہشت گردی کے اِکّا دُکّا واقعات تو امریکہ اور مغربی ممالک میں ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہاں تمام شعبوں میں معمولاتِ زندگی رواں دواں رہتے ہیں اور کوئی ان ممالک کو ''پُرخطر‘‘ قرار نہیں دیتا، علامہ اقبال نے کہا ہے:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
گزشتہ دنوںجرمنی میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی، اس میں ہمارے چیف آف آرمی سٹاف نے اپنے خطاب کے دوران کہا ''ہماری ریاست نے چالیس برس پہلے جو بیج بویا اَب اُسی کو کاٹنا پڑ رہا ہے، ہم اس دوران کافی تجربات سے گزرکر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان آئندہ اس قسم کی کسی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہے، اگر کسی ریاست میں ماضی سے سبق سیکھنے کا جذبہ موجود ہو تو وہ مستقبل کی راہیں متعین کرنے میں مزید کوتاہیوں سے گریز کرتی ہے‘‘ (26فروری)، اسی کو ''رجعتِ قہقریٰ ‘‘ کہتے ہیں۔
خونِ مسلم کی ارزانی:
لگ بھگ گزشتہ چالیس سال سے خونِ مسلم کی ارزانی دیکھنے میں آ رہی ہے، بے قصور مسلمانوں کا خون مسلسل بہہ رہا ہے، لیکن زمین کی پیاس بجھنے میں نہیں آرہی۔ 1980ء میں عراق ایران جنگ شروع ہوئی اور آٹھ سال تک جاری رہی، دونوں طرف مارنے والے اور مرنے والے مسلمان تھے۔ اس زمانے میں اسرائیل بظاہر ایران کا مخالف تھا، لیکن وہ بلیک مارکیٹ کے ذریعے ایران کو اپنا اسلحہ بھی فروخت کر رہا تھا تاکہ دونوں مسلم ممالک باہم قتال کر کے کمزور سے کمزور تر ہوں، دونوں طرف کے مقتولین، مجروحین اور گم شدہ افراد کی تعداد تقریباً نو لاکھ ہے۔ اس جنگ میں عالم عرب صدام حسین کا پشتی بان تھا، اس کی پراکسی وار ہمارے ملک میں بھی لڑی گئی اور یوں ہمارا وطنِ عزیز بھی اس جنگ کے اثرات سے محفوظ نہ رہا۔ ہمارے ملک میں مکاتبِ فکر شروع سے چلے آ رہے ہیں، لیکن مسلکی اختلافات درسگاہوں، مذہبی جلسوں اور لٹریچر تک محدود تھے، اُس وقت تک دلیل و استدلال سے بات کرنے کا چلن تھا، پھر مسلکی آویزش کے نتیجے میں مسلّح گروہ وجود میں آئے، بعض حضرات اس کے تذکرے سے ناخوش ہوتے ہیں مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
اسی دوران کویت پر صدام حسین کی یلغار کے نتیجے میں عرب ملکوں، کویت اور مصر وغیرہ کی اشیرباد سے اُس وقت کے امریکی صدر بش سینئر نے عراق پر حملہ کیا اور صدام حسین کی فوجی قوت اور تعمیر و ترقی کے ڈھانچے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، صدام حسین کو ذلت آمیز شرائط کے ساتھ شکست قبول کرنا پڑی۔ یہ جنگ دراصل عالمِ عرب اور بحیثیتِ مجموعی اسلامی دنیا پر جابرانہ امریکی تسلّط کی ابتدا تھی، ستم بالائے ستم یہ کہ مسلم ملک کو تباہ کرنے کی قیمت بھی مسلم ممالک سے وصول کی گئی، بعد میں 2003ء میں صدام حسین کی حکومت کو معزول کر دیا گیا، پھر صدام حسین کو سزائے موت دے دی گئی اور عراق میں امریکہ کے تابع حکومت قائم ہو گئی۔ اس میں امریکہ کو بیک وقت سعودی عرب اور ایران کی حمایت حاصل تھی۔ اس سے قبل نائن الیون ہوا اور اس کی پاداش میں امریکہ نے 2001ء میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پریلغار کر دی جو تا حال جاری ہے۔ دریں اثنا 2011ء میں لیبیا میں پہلے خانہ جنگی برپا کی گئی اور پھر مغربی ممالک نے حملہ کر دیا اور تباہی و بربادی کے ساتھ ساتھ صدر قذافی کو بھی قتل کر دیا، لیکن لیبیا میں انتشار اب بھی جاری و ساری ہے۔ پھر عرب ممالک کی سرپرستی میں شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف تحریک برپا ہوئی، اس میں عالمی قوتیں امریکہ اور روس بھی شامل ہوئے۔ جس طرح جہادِ افغانستان کی بائی پروڈکٹ کے طور پر پاکستان کو افغان مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا ورثہ اور ان سے جڑے دیگر مسائل ملے، اب ترکی اسی تجربے سے گزر رہا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ یمن میں خانہ جنگی شروع ہوئی، اس میں بھی مسلم ممالک کی آویزش عیاں ہے۔ افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور یمن کے جانی اور مالی نقصانات کا کوئی صحیح تخمینہ دستیاب نہیں ہے۔ اسی عرصے میں عرب بہار آئی، جمہوریت کے نعرے لگے، مصر میں اخوان کی جمہوری حکومت قائم ہوئی، جسے عرب ممالک اور امریکہ کے اشتراک سے ختم کر دیا گیا اور ملک دوبارہ فوجی حکمران جنرل السیسی کے حوالے ہو گیا۔ پاکستان کا جانی نقصان ساٹھ اور ستر ہزار کے درمیان بتایا جاتا ہے اور مالی نقصان سو ارب ڈالر سے زیادہ بتایا جاتا ہے، جو پاکستان کے سالانہ جی ڈی پی کے دو گنا سے بھی زائد ہے۔
گزشتہ کئی دنوں سے مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، پرامن مظاہرین کا قتلِ عام کیا جا رہا ہے، کشمیر میں چھرے دار بندوق استعمال کر کے لوگوں کو بینائی اور چہرے کے جمال سے محروم کیا جا رہا ہے، افغانستان کے شہر قندوز میں ایک دینی مدرسے میں تعلیم پانے والے سوسے زائد بے قصور بچوں کو امریکہ نے فضا سے بمباری کر کے شہید کر دیا، دنیا کا کوئی قانون اس قتلِ عام اور نسل کُشی کی اجازت نہیں دیتا، مسلمان ممالک کوئی مؤثر آواز بلند کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو کم از کم یہ مطالبہ تو کرنا چاہیے کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت پر عالمی عدالت میں جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے اور حقوقِ انسانی کے عالمی اداروں میں ان مظالم کے خلاف آواز بلند کی جائے لیکن ایسا کون کر پائے گا، اس وقت عالم یہ ہے کہ دنیا کی پچیس بڑی معیشتوں کے مجموعی دفاعی بجٹ سے بھی امریکہ کا دفاعی بجٹ زیادہ ہے اور ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ بدمست ہاتھی کی طرح ہے۔ اسی کے رویے نے مودی اور نیتن یاہو کو شہ دی ہے کہ ظلم برپا کرنے کی ہر حد کو عبور کریں، چونکہ اقوامِ متحدہ اور اس کے تمام ذیلی ادارے امریکہ کے اشارۂ ابرو کے محتاج ہیں اور اب تو سعودی ولی عہد بھی ٹرمپ کے ہمنوائوں کی صف میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ شام کو کھنڈرات میں تبدیل کیے جانے اور لاکھوں جانوں کے نقصان کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی عرب اس کی پشتیبانی سے دستبردار ہوگیا ہے اور بشار الاسد کی حکمرانی روس، ترکی اور ایران کے اشتراک سے بحال ہو رہی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں