"MMC" (space) message & send to 7575

باتیں فلک کی

بیسویں صدی میں جب ریڈیو پاکستان کی آواز گھر گھر اور گلی گلی سنائی دیتی تھی ‘بسوں ‘دکانوںاور چائے خانوں پر نہ چاہتے ہوئے بھی یہ مصرع سماعتوں سے ٹکراتا تھا: ''باتیں فلک کی‘ قصے زمیں کے ‘ جھوٹے کہیں کے‘‘۔شاید یہ ہماری اپنی داستان تھی ۔ہم تضادات کا مجموعہ ہیں ‘خود فریبی کا شکار ہیں ‘بلند بانگ دعوے کرنا ہمارا شعار ہے ‘ دیواروں پر نعرے لکھے ہوتے ہیں: ''کشمیر کی آزادی تک ‘ امریکہ کی بربادی تک ‘ جنگ رہے گی جنگ رہے گی‘‘ اور ہم اپنی بربادی کا سامان کرتے رہتے ہیں‘قرضوں کے بار کی وجہ سے ہماری معیشت کادم گھٹ رہا ہے ۔ ہم نہ جنابِ وزیر اعظم کے عاشق زار ہیں‘ نہ بدخواہ‘ اسے عربی میں ''شماتت‘‘کہتے ہیں ‘ یعنی اپنے مخالف کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہونا۔ ہماری وفاداری اسلام اور پاکستان کے ساتھ ہے ‘ ہماراکام'' اَلنَّصِیْحَہ‘‘ یعنی خیرخواہی ہے ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا: ''جہاں تک ہوسکے ‘ میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں ‘ یہ توفیق مجھے اللہ سے عطاہوئی ‘ میں نے اُسی پر بھروسا کیا اور میں اُسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ‘(ہود:88)‘‘۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''دین خیرخواہی کا نام ہے ‘ صحابہ نے عرض کیا: کس کی خیر خواہی؟‘ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ‘ اُس کی کتاب‘ اُس کے رسول‘ مسلم حکمرانوں اور عام مسلمانوں کی خیرخواہی ‘ (صحیح مسلم:55)‘‘۔ ناصحِ مُشفِق کا کام ہر صحیح بات کی تحسین کرنا اور ہر غلط بات پر ٹوکنا اور متنبہ کرنا ہے۔
ہم موجودہ حکومت کی کامیابی کے خواہاں ہیں ‘کیونکہ ملک وملت کا مفاد اسی میں ہے ۔ لوگوں نے حکومت سے جو امیدیں وابستہ کی ہیں‘ خدانخواستہ ناکامی کی صورت میں وہ سارے آبگینے چکنا چور ہوجائیں گے اور قوم قنوطیت کا شکار ہوجائے گی ۔ بدھ کے اخبارات سے معلوم ہوا کہ وزیر اعظم سعودی عرب سے اچھی خبر لے کر آئے ہیںکہ وہ ہمارے زرِ مبادلہ کو سہارا دینے کے لیے تین ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرائے گا اور تین سال کے لیے سالانہ ایک ارب ڈالر کا پٹرول ادھار دے گا‘ اگر اتنی ہی رقم آئی ایم ایف سے اُن کی شرائط پر قرض لی جاتی تو عوام کو کمر توڑ مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس کے ''بینَ السُّطور‘‘ اور'' مافیِ الصُّدور‘‘ کیا ہے‘ واللہ اعلم بالصواب۔ بعض صحافی اور تجزیہ کارکھود کرید میں لگے ہوئے ہیں ‘ دیکھیے! اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا۔ ہماری پستی کا عالَم یہ ہے کہ آذربائیجان نے بھی ہمیں دس کروڑ ڈالر کے قرض کی پیش کش کی ہے ۔ 
یہ امر ملحوظ رہے کہ ڈالر کی واپسی ڈالر میں ہوگی ‘ پاکستانی کرنسی میں نہیں ہوگی اورجب تک ڈالر کمانے کی تدبیر نہ سوجھے ‘ زرِ مبادلہ کا بحران نہیں ٹلے گا‘ جنابِ عمران خان بجا طور پرسابق حکومت پر طعن کرتے تھے کہ انہوں نے پانچ سالوں میں قرضوں کا حُجم پندرہ ہزار ارب سے اٹھائیس ہزار ارب تک پہنچادیا ہے‘مگر لگتا ہے کہ موجودہ حکومت پہلے ہی سال میں پچھلی حکومت کا ریکارڈ توڑ دے گی اور پھر قرضوں کی اقساط کی مع سود ادائیگی ہمارے سالانہ بجٹ کو جونک کی طرح چاٹتی رہے گی اور یہی ورثہ حسبِ روایت آنے والی حکومت کو منتقل ہوگا‘اِلّا یہ کہ قدرت کو ہمارے حال پر رحم آجائے اور کوئی معجزہ رونما ہوجائے‘ بظاہر اس کے اسباب معدوم ہیں۔ 
کوئی بدنصیب ہی ہوگا جو یہ چاہتا ہوکہ ایک کروڑ پاکستانیوں کو روزگار نہ ملے اور پچاس لاکھ گھرنہ بن پائیں ‘ لیکن درخواست فارم کے علاوہ ''نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم‘‘کی کوئی عملی صورت نیٹ پر دستیاب نہیں ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں اخباری کالموںاورٹیلی ویژن چینلوں پر تجزیوں اورمباحثوںکامن پسند موضوع سیاستِ دوراں ہوتا ہے‘ کیونکہ قارئین اور ناظرین کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنا ان کی مجبوری ہے ‘ آج کل تفریحی ڈراموں کے مقابلے میں یہ ناٹک زیادہ پاپولر ہے ‘پس پاپولزم اُن کی مجبوری ہے‘ نہ بین الاقوامی سیاست اور نہ معیشت پر کوئی عالمانہ اور ماہرانہ تجزیے پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔
بظاہر یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے لیے بینک اوربیرونی سرمایہ کار قرضے فراہم کریں گے ‘ایسی صورت میں بینکوں کا کنسورشیم یا سنڈیکیٹ بنتا ہے اور ہر بینک اپنے سائز کے مطابق اس میں حصہ لیتا ہے ۔ تھوڑی دیر کے لیے ہم فرض کرلیتے ہیں کہ منصوبہ سازوں کی سوچ کے مطابق اس منصوبے پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے ‘دس لاکھ روپے فی مکان کے حساب سے تخمینہ پانچ کھرب اور پندرہ لاکھ کے حساب سے ساڑھے سات کھرب بنتا ہے ‘ روپے کی قدر میں گراوٹ اورمہنگائی کی شرح میں اضافے کے پیشِ نظر اختتام تک اس کی مقدارمیں کافی اضافہ ہوسکتا ہے۔ بینکوںکے پاس پیسہ عوام کا ہوتا ہے اور وہ اس کے امین ہوتے ہیں ‘ اندھے کنویں میں مال پھینکنے کا کوئی روادار نہیں ہوتا‘ اس کے لیے ٹھوس ضمانت اور پائیدار اثاثے درکار ہوتے ہیں ‘جن سے بعد میں ممکنہ نقصانات کی تلافی ہوسکے ۔ سٹیٹ بینک سے معلوم کرلیا جائے کہ زراعت کے تقاوی قرضوں ‘ ماضی میں یلو کیب منصوبے اور نوجوانوں کوروزگار کے لیے قرضوںکی واپسی کا ریکارڈ کیا ہے ۔یہاں تو بعض نامی گرامی سیاست دان کروڑہا روپے کے قرض معاف کراکے آج شریکِ اقتدار ہیں ‘کسی نے ان سے ماضی کا حساب نہیں لیا ‘کیونکہ آج حریف کو پچھاڑنے کے لیے ان کی مدد درکار ہے ۔ہمارے بینکوں کی خسارے برداشت کرنے کی صلاحیت بھی بظاہر بہت زیادہ نہیں ہے ‘تو کیا آخر کار حکومت ہی یہ سرمایہ مع منافع ادا کرے گی ‘اگر حکومت میں اتنی سکت ہے تو وہ خود اپنے وسائل سے یہ کام شروع کردے ‘ جبکہ گشتی قرضوں کے علاوہ اور بھی کئی ہاتھی پہلے سے حکومت نے پال رکھے ہیں۔ ہر حکومت اپنے سے ماقبل حکومت کو کوستی ہے ‘لیکن اس جال سے نکلنے کی کوئی تدبیر آج تک سامنے نہیں آئی ‘کیونکہ ہر دور کی اپوزیشن ان معاملات میں حکومت کے مخالف آکھڑی ہوتی ہے ۔اس کا واحد حل یہ ہے کہ حکومت پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے اور برسوں سے الجھے ہوئے پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے سب اتفاق رائے سے منصوبہ بنائیں‘ تاکہ محض حکومتِ وقت پر چاند ماری کرنے کی بجائے سب اس کے سٹیک ہولڈر بنیں اور ذمے داری قبول کریں‘ کیونکہ یہ منصوبہ وقتی طور پر یقینا مقبول ہوگا‘مگر اس کے عواقب توقعات کے برعکس بھی ہوسکتے ہیں ۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاںسیاسی عداوت کا گراف ہمیشہ اتنا بلند رہتا ہے کہ حریف سیاستدانوں کاباہم مل بیٹھنا دشوار ہوجاتا ہے ‘کیونکہ وہ ایک دوسرے کے وجود کو ایک پل کے لیے بھی گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ماضی میں 1965ء کی جنگ ‘پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد شملہ مذاکرات اور نیشنل ایکشن پلان مرتب کرنے کے مواقع کی چند مثالیں بہرحال موجود ہیں۔ 
ہمارا دوسرا تضاد یہ ہے کہ ہم دعویٰ ریاستِ مدینہ کا کرتے ہیں اور حوالے برطانیہ اور یورپ کے دیتے ہیں ‘ وہی بات : ''باتیں فلک کی‘ قصے زمیں کے ‘جھوٹے کہیں کے‘‘۔قوم کے نام پہلے خطاب میں جنابِ وزیر اعظم نے ریاستِ مدینہ کے مثالیے کو پاکستان میں نافذ کرنے کا دعویٰ کیا‘تومختلف ماہرین اور مہربانوں نے ریاست مدینہ کے خدوخال پر کالم لکھنے ‘سیمینار اور کانفرنسیںمنعقد کرنے کا ایک تسلسل شروع کر رکھا ہے ‘اس سارے مواد کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوجائے ‘ کیونکہ ہر طبقے کواپنے وجود کا احساس دلانا ہوتا ہے ۔ ہمارے ماہرین ایک تخیلاتی دنیا ‘یعنی یوٹوپیا تشکیل دیتے ہیں اور پھر اس کے فضائل ومناقب بیان کرنا شروع کردیتے ہیں ‘ وہ اس کی طرف آتے ہی نہیں کہ معروضی حالات میں ان کی پیش کردہ سفارشات کو کیسے نافذ کیا جائے گا‘ کون نافذ کرے گا‘ کس پر کرے گا‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاقول :''زانی پر پہلا پتھر کون پھینکے گا‘‘ یاد آتا ہے۔ سوہم معروضی حقائق سے صَرفِ نظر کرکے خلامیں بیٹھ کرزمین کے لیے منصوبے بنارہے ہوتے ہیں ۔ 
بہتر ہے کہ یہ سارے یوٹوپین یا تخیلاتی دنیا کے سیلانی زمین پر اتر کر عملی منصوبہ بنائیں ‘ پچاس لاکھ کے بجائے پہلے ایک لاکھ سے شروع کریں اور پھر برسر زمین ان کے نتائج ‘وصولی کی شرح ‘معیار اور افادیت کا تجزیہ کریں ؛اگر سکیم میں کوئی خامی یا کمزوری نظر آئے‘ تو اس کی اصلاح کر کے آگے کے لیے عملیت پسندی پر مبنی حکمت عملی بنائیں۔ مشہور محاورہ ہے: ''بہتر انجام کی امید رکھو‘مگر بدتر کے لیے تیار رہو‘‘تاکہ آگے چل کر مایوسی کا شکار نہ ہونا پڑے؛ اگر کوئی اچھا مشورہ دے‘ تو اس پر غور فرمالیں ‘ناپسندیدہ لگے تو ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیں‘ لیکن اس سوچ کو ذہن سے کھرچ لیں کہ آپ سے اختلاف کرنے والا ہر شخص آپ کا بدخواہ ہی ہوگا‘وہ آپ کا بِہی خواہ بھی ہوسکتا ہے ۔ 
ہم یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہماری معیشت کن اصولوں پر قائم ہے‘ ہمارے اہداف کیاہیں ‘ کیا پاکستان ہمیشہ ایک سیکورٹی سٹیٹ رہے گا یا فلاحی ریاست کا روپ دھارے گا‘ ہم ابھی تک اپنی معیشت کا کوئی ماڈل بھی نہیں بناسکے‘ جس کی پہچان پاکستان ہو ‘ جو پاکستانی ذہنوں کی ساختہ ہو‘ اللہ تعالیٰ کا وعدہ اوروعید ہے : ''بے شک تکلیف کے بعد آسانی ہے ‘ بے شک تکلیف کے بعد آسانی ہے‘‘ (الشرح: 5-6) (2): ''سو جس نے انفاق کیا ‘ تقویٰ اختیار کیا اورنیک باتوں کی تصدیق کی تو ہم اسے جنت تک رسائی دیں گے اور جس نے بخل کیا ‘ بے پروا رہا اور نیک باتوں کو جھٹلایا‘ تو ہم برے انجام تک اس کی رسائی آسان بنادیں گے‘‘(الیل: 5-10)۔ آپ ﷺ نے طویل حدیث میں فرمایا: ''تم (نیک )کام کیے جائو ‘کیونکہ ہر ایک کو جس انجام کے لیے پیدا کیا گیا ہے ‘اس کے لیے اُسے آسان بنا دیا جائے گا‘سو جو کوئی اہلِ سعادت میں سے ہے ‘اس کے لیے جنت کا عمل اور جو کوئی اہلِ شقاوت میں سے ہے‘ اس کے لیے جہنم کاعمل آسان کردیا جائے گا‘ ‘(صحیح البخاری:4949)۔
بدھ کی شام قوم سے خطاب میں جنابِ وزیر اعظم نے قوم کو امید دلائی کہ ہم دبائو سے نکل رہے ہیں ‘قدرت نے بھی یاوری فرمائی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کوعالمی دبائو سے نکلنے کے لیے دوستوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ہوسکتا ہے کہ چین اور ملائیشیا کے دورے کے بعد مزید اچھی خبریں ملیں ‘لیکن واضح رہے کہ قرض اور امداد میں فرق ہے ‘قرض کی واپسی بہر صورت لازم ہے‘سو قرض لینے سے پہلے واپسی کی امکانی استعداد پر ضرور غور کرنا چاہیے‘ ورنہ حقیقت پسندانہ حل اپنے وسائل کے اندر رہ کر جینا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں