میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اس موضوع پراختصار کے ساتھ گفتگو کی تھی ‘ کیونکہ تفصیلات کا احاطہ کالم کی تحدیدات میں ممکن نہیں ہوتا‘ لیکن ہمارے ایک کرم فرما علامہ غلام محمد سیالوی نے کالم کے بارے میں پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمائش کی کہ اس پر مزید لکھا جائے اور انہوں نے بعض امور کی نشاندہی کی‘ میں ان کا شکر گزار ہوں اور ان کی فرمائش کی تعمیل میں چند مزید گزارشات پیش خدمت ہیں:
قرآن کریم کی سورۂ توبہ:24میں اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ یہ معیار بیان فرمایا کہ انسان اپنے متعلقات کے ساتھ درجہ بدرجہ محبت کا تعلق رکھ سکتا ہے اور اس کی نفی نہیں فرمائی‘ لیکن یہ کڑا معیار مقرر فرمادیا کہ ان تمام چیزوں کی محبت مل کر بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ کی ذواتِ عالی صفات اور اللہ کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب نہیں ہونی چاہیے ‘ اس کا فیصلہ اس وقت ہوجاتا ہے جب اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور اس کے تقاضوں کا غیر اللہ کی محبت اور مطالبات سے ٹکرائو ہوجائے‘ تو پھر پتا چلتا ہے کہ عملاًانسان کے نزدیک محبوب ترین کون ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''آپ ایسی قوم نہیں پائیں گے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں(اور) اللہ اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ کے دشمنوں سے محبت بھی کرتے ہوں‘ خواہ وہ (دشمنانِ خدا)اُن کے باپ (دادا)‘ بیٹے‘ بھائی بہن اور رشتے دار کیوں نہ ہوں‘‘۔ پھر فرمایا: ''(جو اس معیارِ محبت پرپورا اتریں تو)یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے اور اپنی طرف کی روح سے اُن کی مدد فرمائی اور انہیں ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے دریا رواں ہیں ‘ وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے‘ اللہ اُن سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے‘ یہی لوگ اللہ کی جماعت ہیں ‘سنو!بے شک اللہ کی جماعت ہی فلاح پانے والی ہے‘(المجادلہ:22)‘‘۔ الغرض قرآنِ کریم نے مثبت اور منفی دونوں معیار متعین فرمادیے ‘ حدیث مبارک میں ہے: ''ملائکہ نبیﷺ کے پاس آئے اور آپ اس وقت سورہے تھے‘ اُن کا آپﷺ کے بارے میں (آپس میں مکالمہ ہوا)‘بعض نے کہا: یہ سورہے ہیں اور بعض نے کہا: بے شک آنکھ سورہی ہے اور دل بیدار ہے ‘ پس بعض نے کہا: ایک مثال ہے ‘سو وہ مثال بیان کرو‘تو (دوسرے فرشتوں نے )کہا:ان کی مثال اس شخص کی سی ہے ‘ جس نے ایک گھر بنایا اور اس میں دعوتِ طعام کا اہتمام کیا اور(اس دعوت کی طرف بلانے کے لیے )ایک داعی بھیجا ‘ سو جس نے اس داعی کے بلاوے پر لبیک کہاوہ گھر میں داخل ہوگیااور طعام کو نوش کیااور جس نے اس کی پکار پر لبیک نہ کہا ‘وہ گھر میں داخل نہ ہوا اور دعوتِ طعام نہ کھا پایا۔ پھر انہوں نے کہا: اس کی تاویل بیان کرو تاکہ سمجھ میں آئے تو بعض نے کہا: بے شک وہ سورہے ہیں اور بعض نے کہا: بے شک آنکھ سورہی ہے اور دل بیدار ہے اوربعض نے کہا: یہ گھر (جو بنایا گیا) جنت ہے اور اس کی طرف دعوت دینے والے (سیدنا) محمد ﷺ ہیں‘ سو جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کی ‘تو اس نے (در حقیقت) اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی ‘تو اس نے (درحقیقت) اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور محمد ﷺ لوگوں(یعنی اہلِ حق واہلِ باطل) کے درمیان فرق کا پیمانہ ہیں‘ (یعنی جو آپ سے محبت واطاعت واتباع کے رشتے میں جڑا رہا وہ جنتی قرار پائے گااور جس نے آپ سے یہ رشتہ قائم نہ کیا وہ جنت سے محروم رہے گا)‘ (مختصر صحیح الامام البخاری:2698)‘‘۔
مگر آج کل ہم نے حقیقت کو چھوڑ کر مظاہر اور ظواہر کو اپنا مطلوب ومدّعا بنا لیا جو زیادہ سہل اور بے عملی کی طرف لے جانے والا ہے‘ آج کل مصنوعی اور جعلی عاشقانِ رسول کی بھرمار ہے‘وہ مختلف انداز سے اپنے آپ کو عاشقِ رسول اور محب رسول ﷺظاہر کرتے رہتے ہیں۔ داڑھی مبارک آپ ﷺ کی محبوب سنت ہے اور نہ رکھنے والے کو آپ ناپسند فرماتے ہیں‘مگر بعض خودلوگ نعلین پاک کا نقشہ تو سینے پر سجا لیتے ہیں ‘مگر سنتِ رسول چہرے پر سجانے کے لیے بہت کم تیار ہوتے ہیں ۔ صحابۂ کرام نے سینوں پر یا پگڑیوں پر نعلین پاک کا نقشہ لگاکر عشق ومحبت رسولؐ کا اظہار نہیں کیا تھا‘ بلکہ آپ کے اسوۂ مبارکہ کو اختیار کر کے اطاعت واتباعِ رسول کے جادۂ مستقیم کو اپنا شعار بنایا تھااوراسی شعار سے انہوں نے اللہ کے دین اور رسول اللہ ﷺ کی شریعت کو اُس وقت کی دنیا پر غالب کیا اور ہم تعداد میں اُن کے مقابلے میں بدرجہا زائد ہیں‘ لیکن بے توقیر ہیں۔اسی طرح آج کل زمینوں اورپلاٹوں پر قبضہ کرنے والا مافیا‘ رشوت خوراور خوردنی اشیا میں ملاوٹ کرنے والے بڑی بڑی محافلِ میلادونعت خوانی کا انعقاد کر کے اپنے آپ کو عاشقِ رسولؐ ظاہر کرتے ہیں اور لوگ ان محافل میں کثرت سے شرکت کرتے ہیں ‘ مگر فرائض اورارکانِ اسلام میں سے نماز ‘حج ‘روزہ اورزکوٰۃ کی ادائیگی کو اہمیت نہیں دیتے جس کے بارے میں بروز قیامت پرسش ہوگی‘جب کہ محافل کے بارے میں توکوئی سوال نہیں ہوگا‘ اگرچہ یہ محافلِ مقدسہ شریعت کی نظرمیں پسندیدہ ہیں اور نبی کریم ﷺ کی محبت کا ایک مَظہر ہیں۔
ابوبکر بن سلیمان بیان کرتے ہیں: حضرت عمر بن خطابؓ نے(ایک پابندِ صلوٰۃ نوجوان یعنی اُن کے والد)سلیمان کو فجر کی نمازِ(باجماعت) میں نہ پایا تو اُن کے گھر ان کی والدہ شفاء اُمِّ سلیمان کے پاس گئے اور ان سے کہا: (کیا بات ہے )آج میں نے فجر کی نماز میں سلیمان کو نہیں دیکھا ‘انہوں نے عرض کیا: وہ رات گئے تک نوافل پڑھتے رہے ‘پھر اُن پر نیند غالب آگئی (اور نمازِ فجر باجماعت ادا نہ کر سکے)‘اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: سلیمان فجر کی جماعت میں حاضر ہوتے تو ساری رات اُن کے نوافل میں قیام کے مقابلے میں میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ بات تھی‘(موطاامام مالک:432)‘‘۔غور کیجیے!حضرت سلیمان تارکِ صلوٰۃ نہیں بلکہ پابندِ صلوٰۃ تھے ‘لیکن رات بھر نوافل میں مشغول رہنے کی وجہ سے اُن سے فجر کی جماعت چلی گئی تو حضرت عمر فاروقؓ نے اسے ناپسند فرمایا اور ہمارے ہاں رات بھر جلسوں میں شرکت کرنے والوں میں سے اکثرتارکِ نماز ہوتے ہیں۔
آج کل ان محافل کی رونق بڑھانے کے لیے عمرے کے ٹکٹوں کا اعلان کیا جاتا ہے ‘بعض کاروباری ادارے بھی اپنی پروڈکٹ کی سیل پروموشن کے لیے عمرے کے ٹکٹوں کا اعلان کرتے ہیں‘ حالانکہ شریعت میں اس کا حکم نہیں ہے ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کسی کو حج یا عمرہ کرانا نیک کام نہیں ہے ‘ضرور ہے ‘ لیکن اگر کوئی کسی نیک آدمی کو عمرہ کرانا بڑی سعادت سمجھتا ہے ‘تو اس کے لیے جلسوں میں نمود اور تشہیر کی کیا ضرورت ہے ‘اس کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ کواور عمرہ کرنے اورکرانے والے کو ہونا چاہیے‘ ریا سے تو اجر باطل ہوجاتا ہے ۔ نیز قیامت کے دن یہ نہیں پوچھا جائے گا:کیا آپ نے لوگوں کو حج یا عمرے کرائے یا نہیں ‘ہاں یہ ضرور پوچھا جائے گا :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن (اپنے بندے سے) فرمائے گا: اے بنی آدم!میں بیمار تھاتونے میری عیادت نہ کی‘(بندہ) عرض کرے گا: اے پَرْوَردْگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا؟‘ تو تو ربُّ العالمین ہے‘ اﷲتعالیٰ فرمائے گا:کیا تو نہیں جانتاکہ میرا فلاں بندہ(تیرے سامنے) بیمار ہوا‘تو تو نے اس کی عیادت نہ کی‘تجھے نہیں معلوم کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا؟‘(اﷲتعالیٰ پھر فرمائے گا:)اے بنی آدم!:میں نے تجھ سے کھانا مانگا ‘توتو نے مجھے نہ کھلایا‘ (بندہ ) عرض کرے گا: اے پَرْوَردْگار!میں تجھے کیسے کھلاتا؟‘تو تو رب العالمین ہے (اور بھوک وپیاس بندوں کی حاجات ہیں) ‘ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا‘ تو تو نے اسے نہ کھلایا‘ اگر تو (میرے اس محتاج) بندے کو کھلاتا‘ توتو اُسے میرے پاس ہی پاتا(یعنی مجھے اپنے قریب ہی پاتا)‘ (اللہ تعالیٰ پھر فرمائے گا:) اے بنی آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا‘ تو تو نے مجھے نہ پلایا‘ بندہ عرض کرے گا :اے پَرْوَردْگار! میں تجھے کیسے پانی پلاتا ؟‘ توتو ربُّ العالمین ہے ‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تجھ سے میرے فلاں پیاسے بندے نے پانی مانگا‘ توتو نے اسے نہ پلایا ‘ اگر تو نے اسے پانی پلایا ہوتا‘ تو اسے میرے پاس ہی پاتا‘ (مسلم: 2569)‘‘۔
محدّثینِ کرام نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا: اس حدیثِ قدسی کا منشایہ ہے کہ بیمار کی عیادت‘ بھوکے محتاج کو کھلانا اور پیاسے کوپانی پلانا‘ یہ بالواسطہ اﷲتعالیٰ کی عبادت اور اس کے حبیبِ مکرم ﷺ کی سُنَّتِ جلیلہ ہے۔ حدیث پاک کی ترتیب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیمار کی عیادت اور تیمار داری کا ثواب بھوکے کو کھانا کھلانے اور پیاسے کو پانی پلانے سے بھی زیادہ ہے۔ اﷲتعالیٰ کا یہ ارشاد : ''اے بنی آدم! اگر تو بیمارکی عیادت کرتا ‘ بھوکے کو کھانا کھلاتا اور پیاسے کو پانی پلاتا تو‘ مجھے اس کے قریب ہی پاتا‘‘۔ یعنی ان کاموں سے اﷲتعالیٰ کی رِضا اور اس کا قُرب حاصل ہوتاہے‘ بندہ اللہ کے قریب ہوجاتاہے اور اللہ کی رحمت بندے پر سایہ فگن ہوجاتی ہے ‘ اللہ تعالیٰ اپنے دکھی بندوں کے دکھوں کا مداوا کرنے والوں کو اپنا قُرب عطا کرتاہے ۔حدیثِ قدسی ہے‘ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے:''میں اپنے ان بندوں کے قریب ہوتاہوں ‘ جوخَشیتِ الٰہی سے لرز اٹھتے ہیں اور بے بسی وبے کسی کے عالم میں شکستہ دل ہوکر مجھے پکارتے ہیں‘ (مرقاۃ‘ ج:3ص:1123)‘‘
حضور ﷺ بھی صحابہ سے محافل اور عمرے وغیرہ کروانے کے بارے نہیں پوچھتے تھے‘ بلکہ پوچھتے تھے:''آج تم میں سے کون روزے سے ہے‘ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: میں‘فرمایا: تم میں سے آج جنازے میں کون شریک ہوا‘ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: میں‘ فرمایا: تم میں سے کس نے آج مسکین کو کھانا کھلایا ہے‘حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: میں نے‘ پھر فرمایا: تم میں سے آج کس نے مریض کی عیادت کی‘ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: میں نے‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص میں یہ ساری خصلتیں جمع ہوجائیں‘ وہ جنت میں داخل ہوگا‘(صحیح مسلم:1028)‘‘۔اب تو مغربی ممالک سے بھی شکایات آرہی ہیں کہ پیروں ‘نعت خوانوں اور واعظوں کی تصاویر سے مساجدکے درودیوار اٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔