حضرت ابوبکر صدیق‘عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لؤی القرشی التیمی رضی اللہ عنہ‘ رحمۃ للعالمین خاتم النیین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے وصال فرمانے کے بعد ربیع الاول 11ھ کو مہاجرین وانصار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے اتفاقِ رائے سے خلیفہ منتخب ہوئے‘ یہ عہدِ رسالت کے بعد اجماعِ امت کی سب سے نمایاں اور اولین مثال ہے۔
رفاقت دوام:اعلانِ نبوت کے پہلے لمحے سے لے کرآفتاب ِنبوت کے پردہ فرمانے تک تئیس سالہ نبوی زندگی میں ہر آن‘ ہر پل‘ ہر لمحے اور ہر موڑ پر صُحبت ورفاقت‘ تائید وحمایت اور جاں نثاری وجاں سپاری کی جو تابندہ روایت حضرت ابوبکر صدیق نے قائم کی‘ اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ سفر ہو یا حَضَر، بزم ہویارزم، خَلوت ہویاجَلوت‘الغرض وہ کسی بھی لمحے اپنے محبوب ﷺ سے جدا نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ روضۂ رسول میں آج بھی آپ کا سرِنیاز تاجدارِ نبوت ﷺ کے قدموں میں ہے، بقول شاعر :
پائے رسول پاک پہ سر ہورکھا ہؤا
ایسے میں آاَجَل‘ تو کہاں جا کے مرگئی
یعنی وفات اور بعدالوفات کی جس سعادت عظمیٰ کی کوئی صاحبِ ایمان‘سچا محبِ رسول تمنا کر سکتا ہے‘ وہ بفضلہ تعالیٰ انہیں نصیب ہے :
این سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
غارِ ثور کے تین دن اور تین راتیں ایسی بھی گزریں کہ آفتاب نبوت کے جلوے تھے اور لذتِ دیدار سے فیض یاب ہونے والی جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نگاہیں تھیں‘ اس شرف وسعادت میں کواکب ونجوم‘ آفتاب وماہتاب حتیّٰ کہ چشمِ فلک بھی ان کی شریک وسہیم نہیں تھی،کوئی تیسرا فرد تو تھا ہی نہیں۔
منفرد اعزاز: روایات کے مطابق ختم المرسلین ﷺ کے صحابۂ کرام کی تعداد سوالاکھ سے متجاوز تھی لیکن قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ جس ہستی کو ''صاحبِ رسول‘‘ کے لقب سے نوازا‘ وہ صرف اور صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں‘ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:''اگر تم نے اس رسول کی مدد نہ کی تو یقینااللہ نے ان کی مدد فرمائی‘ جب کافروں نے انہیں بے وطن کیا‘ اس حال میں کہ وہ دومیں سے دوسرے تھے‘جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے‘ جب وہ (رسول مکرم ﷺ) اپنے''صاحب‘‘سے فرما رہے تھے:غم نہ کرو بلاشبہ اللہ ہمارے ساتھ ہے‘تو اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرمائی‘ (توبہ: 40)‘‘ ۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مختلف پیرائے میں 6مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق کا ذکر فرمایا۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کاایک منفرد اعزاز یہ بھی ہے کہ ان کی چار پشتیں شرفِ صحابیت سے مشرف ہوئیں۔
خُلقِ رسول کا عکس تمام:جب محبت مرتبۂ کمال کو پہنچ جائے تومُحِبّ اپنے آپ کو ذات محبوب میں فنا کر دیتا ہے‘ طبیعت طبیعت میں اور مزاج مزاج میں ڈھل جاتا ہے‘ یہی''مقامِ فنا‘‘حضرت ابوبکر صدیق کاتھا۔ دیکھنے والوں کی نظر میں صورت ان کی تھی لیکن سیرت مصطفی کی تھی‘ ذہن ان کا تھالیکن فکر مصطفی کی تھی‘ الغرض وہ سراپا جمال ِمصطفوی کاعکسِ تمام تھے۔ جب سیدالانبیاﷺ غارِحرا سے پہلی بار ناموسِ وحی لے کر اضطراب کے عالم میں اپنے گھر تشریف لاتے ہیں‘ منصب نبوت کے بارامانت کے احساس سے آپ متفکر ہیں اور یہ عین تقاضائے فطرت ہے‘ تو ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ جو عُسر ویُسر کی ہر گھڑی میں آپؐ کی مُونِس وغمگسار تھیں‘ آپ کوان نپے تلے الفاظ میں تسلی دیتی ہیں:''قسم بخدا‘ اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی شرمسار نہیں فرمائے گا‘ کیونکہ آپ رشتۂ قرابت کو جوڑتے ہیں‘ کمزوروںکا بوجھ اٹھاتے ہیں‘ ناداروں کے کام آتے ہیں، مہمان نوازی آپ کا شِعار ہے اورآپ حق کی خاطر مصائب میں مبتلا لوگوں کی مدد فرماتے ہیں‘‘۔یہ آپ ﷺ کی شریکِ حیات اور مَحرمِ راز حضرت خدیجہؓ کی زبان سے آپ کی سیرت وکردار کا ایک جامع تعارف تھا۔ اسی طرح ایک مرحلے پر کفارِ مکہ کے مظالم سے تنگ آکر حضرت ابوبکرؓ ترکِ وطن کے ارادے سے نکلتے ہیں کہ اچانک مکہ کے ایک رئیس ابن الدغنہ کا سامنا ہوجاتاہے، وہ آپ کے عزائم سے باخبر ہونے کے بعدآپ کا راستہ روک لیتا ہے اور کہتا ہے ''لاریب، آپ جیسے شخص کو اس بستی سے ہرگز نہیں جانا چاہیے اور نہ ایسے شخص کو بستی سے نکالا جانا چاہیے‘ کیونکہ آپ تو اَخلاقِ کریمہ کا پیکرہیں، آپ ناداروں کے کام آتے ہیں، رشتۂ قرابت کو جوڑتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی آپ کا شیوہ ہے اور آپ راہِ حق میں مصیبت اٹھانے والوں کے مُعین ومددگار ہوتے ہیں‘‘۔
سیرتِ صدیق کی الفاظ میں یہ تصویر کشی کسی نظریاتی دوست اورجاں نثار کی نہیں بلکہ نظریاتی مخالف کی ہے اور وہ شہادت جو فریقِ مخالف کی طرف سے آئے، اپنے اور غیر سب پر حُجت ہوتی ہے،عربی شاعر نے کہا ہے:
والفضلُ ما شہدت بہ الأعداء
ترجمہ:''اور (اُن کی) ایسی خصلتیں ہیں کہ اُن کی فضیلت کی گواہی دشمن نے بھی دی ہے اور حقیقی فضیلت وہی ہے کہ دشمن بھی اس کی گواہی دیں یعنی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجائیں ‘‘۔
یہ حسنِ اتفاق تھایا اَمرواقعی کا بیان کہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے جن کلمات میں رسالت مآب ﷺ کی سیرت کو بیان فرمایاتھا، کم وبیش انہی الفاظ میں مکہ کے ایک رئیس ابن الدغنہ نے سیرتِ صدیق کو بیان کیا‘اس سے معلوم ہوا کہ سیرتِ صدیق سیرتِ مصطفی ﷺ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی ۔ بس یوں سمجھ لیںکہ وہ سراپا آئینۂ خُلقِ مصطفی ﷺ تھے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذاتِ رسالت ِ مآب ﷺ کے ذکرِمبارک کے ساتھ متصلاً ذکرِ صدیق بھی آیا ہے۔
12ربیع الاول 11ھ کو سید المرسلین ﷺ کا وصال ہوا، ہدایت ونور کے اس آفتاب عالم تاب نے رضائے الٰہی سے پر دہ فرمایا، تو صحابۂ کرام میں عجیب وغریب اضطرابی کیفیت تھی‘ وہ اس صدمے کو سننے اور سہنے کے لیے ذہنی طور پر تیا ر نہ تھے ۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی جذبات سے بے قابو ہوگئے ۔ ایسے عالم میں حضرت ابوبکر صدیقؓ تشریف لائے‘کاشانۂ نبوت میں داخل ہوئے‘سیدالمرسلین ﷺ کی جبینِ اقدس کو بوسہ دیا اور باہر مسجد نبوی میں تشریف لائے اور صحابۂ کرام کی تسکین وطَمانیت کے لیے یہ کلمات ارشاد فرمائے :''تم میں سے جو حضرت محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو سنو!وہ وصال فرماگئے ہیںاور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اسے یقینِ کامل رکھنا چاہیے کہ اس کا معبود مطلق اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے صفتِ حیات کے ساتھ قائم ہے اور ہمیشہ رہے گا،اس پر فنا وزوال نہ کبھی آیا ہے‘ نہ آئے گا‘‘اور پھر آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی:ترجمہ:''محمد (خدا نہیں)صرف رسول ہیں، ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں، تو کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا(قضائے الٰہی سے) شہید ہوجائیں، تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟،(آل عمران:144)‘‘۔ ان پُراثر کلمات سے صحابۂ کرام کو قلبی اطمینان نصیب ہوا،حضرت عبداللہؓ فرماتے ہیں: ہمیں ایسا لگا جیسے یہ آیت آج ہی نازل ہوئی ہے۔
حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا خطبۂ خلافت : اس کے بعد مہاجرین وانصار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے متفقہ طور پر حضرت ابوبکر صدیق کو خلیفہ منتخب کیا، آپ مسجد نبوی میں تشریف لائے اور منبرِ رسول ﷺ پر بیٹھ کر ایک انتہائی اثر انگیر، دل نشیںاور جامع خطبہ ارشاد فرمایا۔چند جملوں پر مشتمل یہ خطبہ ''خلافت علی مِنہاج النبوۃ‘‘کی اولین‘مستند تاریخی دستاویز ہے اور جسے بلاشبہ''ایک مثالی اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کا مثالی منشور‘‘قرار دیا جاسکتا ہے۔معجزۂ ''جوامعُ الکَلِم‘‘کے براہِ راست فیض یافتہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کی زبان مبارک سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ نپا تلا ہے،حکمتوں کا خزینہ اور معانی ومطالب کا گنجینہ ہے۔اس خطبۂ خلافت میں نظامِ امارت وخلافت کے قیام کی ضرورت وحکمت‘ اطاعتِ امیر کا دائرۂ کار، مامورین یعنی عوام کی ذمہ داری، انسدادِ فواحش کی اہمیت اور جہاد کی ترغیب وضرورت سب امور کا احاطہ کیا گیا ہے،آپ نے حمد وصلوٰۃ کے بعد فرمایا:
''لوگو!میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں، حالانکہ میں تم لوگوں میں سب سے افضل(ہونے کامدعی) نہیں ہوں، اگر میں ٹھیک ٹھیک کام کروں توتم میری اعانت کرو، اور اگر (بفرضِ محال)میں راہِ راست سے ہٹ جائوں تو تم مجھے سیدھا کردو،سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ۔ تم میں سے جو (بظاہر )کمزور ہے، وہ در حقیقت میرے نزدیک طاقتور ہے تاوقتیکہ میں (ظالم سے) اُس کا حق لے کر اُس کوواپس دلا دوں ان شاء اللہ تعالیٰ اور تم میں جوبظاہر بڑا طاقتور ہے‘وہ میرے نزدیک (سب سے)کمزور ہے تاوقتیکہ میں اُس سے (مظلوم کا) حق واپس لے لوںان شاء اللہ تعالیٰ۔ جو قوم''جہاد فی سبیل اللہ‘‘کوچھوڑ دیتی ہے،اللہ تعالیٰ (اس کے وبال کے طور پر)اُس پر ذلت وخواری مسلّط فرما دیتا ہے اور جس قوم میں بے حیائی وبدکاری کی وبا پھیل جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس پرمصیبتیں نازل فرما دیتا ہے اور (سنو!)جب تک میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے جادۂ مستقیم پر قائم رہوں، تم بھی میری اطاعت کرنا اور اگر (بفرضِ محال) میںاللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرمؐ کی اطاعت کا بندھن توڑ کر نافرمانی کے رستے پر چل پڑوں، تو پھر تم پر میری اطاعت ہرگز لازم نہیں ہوگی، اچھا، اب نماز(باجماعت)کے لیے کھڑے ہوجاؤ، اﷲتعالیٰ تم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے،(تاریخ الخلفا للسیوطی بحوالہ سیرۃ ابن اسحاق ) ‘‘۔ اس عظیم الشان خطبۂ خلافت میںاسلامی نظام امارت وخلافت کی حدود، دائرہ ٔ کاراور فرائض کا واضح طور پر تعین کردیا ہے،ہم سطور ذیل میں ان میں سے چند امور کی ضروری وضاحت درج کر رہے ہیں۔(جاری ہے)