گزشتہ کالم میں ہم نے اخلاص کے معانی ومفاہیم بیان کیے تھے ‘ اب ہم احادیثِ مبارکہ سے چند مثالیں بیان کر رہے ہیں‘ جن سے یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں نیک اعمال پر اجر وثواب کی مقدار کا تعیُّن اُن اعمال کے پیچھے کارفرما نیت اور اخلاص پر ہوتا ہے ‘جس درجے کا اخلاص ہوگا ‘اُسی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اُسے اجر عطا کیا جائے گا۔ صحابۂ کرام چونکہ رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے تھے اور نگاہِ نبوت نے اُن کے دلوں کو مجلّیٰ ‘مُصَفّٰی اور پاکیزہ کردیا تھا‘ اس لیے اُن میں اخلاص کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور اسی بنا پر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے پایاں اجر کے حق دار قرار پائے‘ حدیثِ پاک میں ہے:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کو برا مت کہو ‘ کیونکہ اگر تم میں سے کوئی شخص (اللہ کی راہ میں)اُحد پہاڑ کے برابر سونا(بھی) خرچ کردے تو وہ میرے صحابہ کے خرچ کیے ہوئے ایک مُد یا نصف مُد( یعنی ایک کلو کھجوریا جَو کے صدقے کے اجر) کو بھی نہیں پاسکتا ‘‘ (صحیح البخاری:3673)۔اب آپ غور فرمائیں کہ دنیاوی مالیت کے اعتبار سے ایک کلو جَو یاکھجور کی قیمت کا اُحد پہاڑ کے برابر سونے سے تقابل کا سوچا بھی نہیں جاسکتا‘ لیکن اللہ تعالیٰ صحابی رسول کے ایک کلو جَو یا کھجور کے صدقے کا اجراپنے فضل وکرم سے اُحد پہاڑ کے برابر سونے سے بھی زیادہ گراں قدر بنادیتاہے۔یہ تو اصحابِ رسول کی بات تھی‘ ایک عام شخص بھی اگر اِخلاص کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوجائے ‘تو اُس کا اجر بھی قابلِ رشک بن جاتا ہے ‘حدیثِ پاک میں ہے:
''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (پچھلی امتوں میں )ایک شخص راستے پر پیدل جارہا تھا‘ اس کو شدید پیاس لگی ‘اس نے ایک کنواں دیکھا ‘ وہ اس میں اترا اور پانی پی کر باہرنکل آیا۔پھر اس نے ایک کتا دیکھا جو پیاس کی شدت سے ہلکان ہورہا تھا اور کیچڑ کوچوس رہا تھا۔ اس شخص نے (دل میں)سوچا: اس کتے کو بھی اتنی ہی شدیدپیاس لگی ہے جتنی (کچھ دیر پہلے) مجھے لگی ہوئی تھی‘ وہ پھر کنویں میں اترا‘ سو اس نے اپنے موزے میں پانی بھرا‘ پھر اس موزے کو اپنے منہ سے پکڑا(اورکنویں سے باہر آکر) اس کتے کو پانی پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے اس فعل کی قدر افزائی فرمائی اور اس کو بخش دیا‘ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا ہمارے لیے ان جانوروں میں بھی اجر ہے‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! ہر تر جگر والے(یعنی ذی حیات کو راحت پہنچانے ) میں اجر ہے‘ ‘(بخاری:6009)۔عام حالات میں بھی‘ خواہ انسان ہویا جانور‘پیاسے کو پانی پلانا ایک نیکی ہے ‘ لیکن اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ پیاسے کتے کو پانی پلانے والے ہر شخص کی محض اس نیکی پر مغفرت ہوجائے گی ‘ ایک خاص وقت میں ایک خاص کیفیت اُس کے دل میں پیدا ہوئی ‘اُس نے اپنی پیاس کی شدت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اُس کتے کی پیاس کا کرب اپنے دل میں محسوس کیا ‘ اس سے اُس کے دل میں اخلاص کا جذبہ پیدا ہوااور اس نے مشقت کر کے اس پیاسے کتے کو پانی پلایا۔اب ظاہر ہے کہ اس کا محرِّک نہ دکھاوا تھا ‘ نہ ریاکاری تھی ‘بس ایک جاندار کی جان بچانے کے لیے خوفِ خدا کا جذبہ اُس کے دل میں پیدا ہوا ‘ اللہ تعالیٰ کے حضور اُس کے اس اخلاص نے قبولیت کے درجے کو پالیا اور اس کی مغفرت ہوگئی۔ ایک اور حدیث مبارک میں اخلاص کا مفہوم اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے :
''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم ایک غزوے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے‘ ایک شخص جو ایمان کا دعوے دار تھا‘آپ ﷺ نے فرمایا: یہ جہنمی ہے‘ جب قتال کا وقت آیا تو اُس شخص نے سخت جنگ لڑی اور زخمی ہوگیا‘ عرض کیا گیا :یارسول اللہ! جس شخص کے بارے میں آپ نے فرمایا تھاکہ وہ جہنمی ہے‘ آج تو اس نے غضب کی جنگ لڑی ہے اور اُس نے جان دے دی ‘ نبی ﷺ نے فرمایا: وہ جہنمی ہے ‘اس پر بعض لوگ شکوک میں مبتلا ہوئے‘اچانک معلوم ہوا کہ وہ زخمی تو ہے ‘لیکن ابھی زندہ ہے ‘ سو جب رات آئی تو وہ اپنے زخم کی تکلیف کو برداشت نہ کر پایا اور اپنے آپ کو قتل کردیا ‘ پھر نبیﷺ کو اس کی خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا: اللہ اکبر!میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں‘ پھر بلال کو حکم دیا کہ اعلان کرو:جنت میں صرف مسلمان جائے گا‘ہاں (بعض اوقات ) اللہ تعالیٰ کسی فاجر شخص سے اس دین کا کام لے لیتا ہے‘‘ (صحیح البخاری: 3062)۔اس سے ثابت ہوا کہ نبی کریم ﷺ کو وحی کے ذریعے معلوم ہوگیا تھاکہ دادِ شجاعت دینے والا وہ شخص منافق تھا ۔لیکن اگر کوئی مسلمان بھی ہے مگر اُس کے فعل کا مُحرِّک رضائے الٰہی اور لِلّٰہیت‘ یعنی اخلاص نہیں ہے ‘ تو اس کا فعل بظاہر نیک نظر آنے کے باوجود عبث ہے۔
علمِ دین حاصل کرنے سے بڑھ کر نیکی اور کیا ہوسکتی ہے اور تبلیغِ دین سے بڑھ کر اور سعادت کیا ہوسکتی ہے ‘لیکن اگر یہی مقدس کام اپنی دنیا آراستہ کرنے اور دنیاوی مفاد حاصل کرنے کے لیے کیے جائیں تو اکارت چلے جاتے ہیں اور لوگ آخرت کے اجر سے محروم ہوجاتے ہیں‘ چند احادیث ملاحظہ ہوں:
(1)حضرت مالک بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے علم اس لیے حاصل کیا کہ علماء پر اپنی برتری ظاہر کرے یا بے وقوف لوگوں سے بے مقصد بحث کرے یا لوگوں کا رُخِ عقیدت اپنی جانب پھیر دے (تو یہ علم)اُسے جہنم میں داخل کردے گا‘‘ (ترمذی: 2654)۔(2)حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ علم جو صرف اللہ کی رضا کے لیے حاصل کرنا چاہیے‘ کوئی شخص اُسے کسی دنیاوی مقصد کے حصول کے لیے حاصل کرتا ہے ‘تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا‘‘ (ابن ماجہ:252)۔ (3)حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں:میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: قیامت کے دن سب سے پہلے جس شخص کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا‘ وہ شہید ہوگا‘اُس کو بلایا جائے گا اور اُسے اُس کی نعمتیں دکھائی جائیں گی ‘ جب وہ اُن نعمتوں کو پہچان لے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں سے کیا کام لیا‘ وہ کہے گا: میں نے تیری راہ میں جہاد کیا حتیٰ کہ شہید ہوگیا ‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بولتا ہے ‘ بلکہ تو نے اس لیے قتال کیا تھا تاکہ تو بہادر کہلائے ‘سو تجھے بہادر کہا گیا ‘پھر اُسے منہ کے بل لاکر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ایک شخص نے علم حاصل کیا اور لوگوں کو تعلیم دی اورقرآن مجیدپڑھا ‘ پس اُسے لایا جائے گا اور اس کو اس کی نعمتیں دکھائی جائیں گی‘ جب وہ اُن نعمتوں کو پہچان لے گاتو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تونے اِن نعمتوں سے کیا کیا‘ وہ کہے گا: میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور میں نے تیری خاطر قرآن کی تلاوت کی ‘اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا ‘ بلکہ تم نے علم اس لیے حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لیے پڑھا کہ تو قاری کہلائے ‘ سو تجھے (دنیا میں) عالم اور قاری کہا گیا ‘ پھر اُسے منہ کے بل لاکر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے وسعت عطا کی اور ہر قسم کے مال سے نوازا‘سو اُسے قیامت کے دن لایا جائے گااور اُس کی نعمتیں اسے دکھائی جائیں گی اور وہ انہیں پہچان لے گا‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے اِن نعمتوں سے کیا کام لیا‘ وہ کہے گا: اے اللہ! ہر وہ راستہ جو تجھے پسند ہے‘ میں نے اُس میں اس مال میں سے خرچ کیا ‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تونے جھوٹ بولا‘ تو نے تو یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ تجھے سخی کہاجائے‘ سو (دنیا میں)تجھے سخی کہا گیا‘ پھر حکم ہوگا اور اُسے اوندھے منہ آگ میں ڈال دیا جائے گا‘‘ (صحیح مسلم: 1905)۔اس حدیث پاک میں جن تین اعمال کا ذکر ہے ‘ وہ سب اعلیٰ درجے کی نیکیاں ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے لیے بے پایاں اجر مقدر ہے ‘ لیکن یہ اجر اُن کے لیے ہے جو یہ کام دنیا میں نام ونمود کے لیے نہیں ‘بلکہ صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے کریں‘ چونکہ ان تینوں افراد نے یہ کام دنیا میں شہرت پانے کے لیے کیے‘ دنیا میں تو وہ شہرت اُن کو مل گئی ‘ لیکن آخرت کے اجر سے اس لیے محروم ہوئے کہ اُن کے دل اخلاص سے خالی تھے‘ اس حدیث میں بہت بڑی وعید ہے اور اس کے معیار پر اترنا آسان نہیں ہے‘ اللہ تعالیٰ ایسے انجام سے ہم سب کو محفوظ فرمائے۔ معراج النبی ﷺ میں جوعالَم برزخ کے مشاہدات آپ کو کرائے گئے‘ اُن میں سے ایک یہ تھا:
''حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک ایسی جماعت پر ہوا جن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جارہا تھا‘ میں نے پوچھا:یہ کون لوگ ہیں‘جبریلِ امین نے کہا: یہ دنیا دار خطباء ہیں جو لوگوں کو تو نیکیوں کا حکم دیتے تھے اور اپنے آپ کو بھول جاتے تھے حالانکہ وہ کتاب کی تلاوت کرتے تھے‘ کیا وہ سمجھتے نہیں ہیں‘‘ (مسند احمد:12856)۔اس حدیث میں بے عمل اور بدعمل خطباء کے لیے بہت بڑی وعید ہے اور اس میں سورۂ بقرہ :44میں بیان کردہ مضمون کی طرف اشارہ ہے اور الفاظ بھی تقریباً وہی ہیں۔
اخلاص ولِلّٰہیت کی ایک نمایاں مثال حضرت ماعز بن مالک کی توبہ ہے‘اُن کے خلاف رسول اللہ ﷺ کی عدالت میں نہ کوئی مقدمہ دائر ہوا تھا ‘نہ کوئی پکڑ کر لایا تھا ‘ بلکہ اُن کا ضمیر انہیں قرار نہیں پانے دے رہا تھا اور انہوں نے خود بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوکر عرض کیا: ''اے اللہ کے رسول!مجھے پاک فرمادیجیے‘‘۔اُن کی توبہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور اخلاص سے معمور تھی توایسی توبہ کی بابت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر پوری امت کے گناہگاروں میں تقسیم کردی جائے تو اُن سب کے لیے کافی ہوجائے‘‘ (صحیح مسلم:1695 ملخصاً)۔