میں ٹیکسٹ بک بورڈ یا جماعت ِ اسلامی کے زیر اہتمام شائع ہونے والی اسلامیات کی کتابوں کوکبھی دیکھتا ہوں ‘تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اُسی کلاس کی نصابی اردو کے مقابلے میں اسلامیات کی اردو زیادہ ثقیل ہوتی ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ ٹیکسٹ بک کی کتاب میں دوچار پی ایچ ڈی حضرات کے نام لکھ دیے جاتے ہیں‘ اُن کے اعزازیے جاری ہوجاتے ہیں ‘شاید اُن کا کوئی شاگرد یہ کتاب مرتب کر کے دے دیتا ہوگااور ٹائٹل پر اُن کے نام سجادیے جاتے ہیں۔ مختلف درجات کے طلبہ کیلئے کتاب وہ لکھے ‘جسے اُن درجات میں پڑھانے کا کوئی تجربہ ہو اور جو طلبا وطالبات اور معلّمین ومعلّمات کی استعداد کو جانتے ہوں‘ آج کل خود معلّمین ومعلّمات کی اردو کی استعداد واجبی سی ہے ۔کراچی میں نصابی کتابیں تیار کرنے والا ایک پرائیوٹ ادارہ ہے‘اس کی کتابیں نسبتاً بہتر ہیں۔ایک تقریر ہمیں گزشتہ دو عشروں سے مسلسل سننی پڑ رہی ہے ‘موضوع اورسامعین ایک ہوتے ہیں ‘ مقررین وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں‘ مدارس کے طلبا کی ہمدردی میں رچے بسے پرکشش الفاظ کچھ اس طرح ہوتے ہیں:''ہم چاہتے ہیں :مدارس کے طلبا فوج میں جائیں‘ میڈیکل میں جائیں‘ انجینئرنگ میں جائیں‘ زندگی کے تمام شعبوں میں جائیں ‘ وغیرہ ‘‘۔کیا یہ تقریر کوئی جاکر کالجوں اور یونیورسٹیوں میںآرٹس اور سوشل سائنسز یا میڈیکل کے طلبا سے کہتا ہے :ہم چاہتے ہیں ‘آپ انجینئر بھی بنیں ‘ ٹیکنالوجسٹ یا چارٹرڈ اکائونٹینٹ بھی بنیں ‘ وغیرہ۔ دینی مدارس میں طلبا وطالبات خود چل کر آتے ہیں ‘ این جی اوز کی طرح کوئی ادارہ انہیں گھروں سے ترغیب دے کر نہیں لاتا‘ان کے والدین خود بھیجتے ہیں اور ان کے والدین کو پتا ہے کہ وہ کیا پڑھنے جارہے ہیں ۔ یہ نہ پتھر کا دور ہے ‘ نہ ظلمت وجہالت کا‘یہ میڈیا کے سیلاب کا دور ہے ‘سوشل میڈیا کو سب استعمال کرتے ہیں ۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ دینی مدارس فضا میں معلق یا پہاڑوں اور غاروں میں بند ایسے ادارے ہیں کہ جن میں پڑھنے والوں کو باہر کی دنیا کی کچھ خبر ہی نہیں ہوتی‘ وہ اس چوزے کی مانند ہیں‘ جو ابھی انڈے سے باہر نہیں نکلا‘کھلی فضا کا انہیں ادراک ہی نہیں ‘اُس نابینا کی مانند ہیں‘ جسے رنگوں کا شعور اور تمیز ہی نہیں ہے۔
وفاق المدارس الشیعہ کے قاضی نیاز حسین نقوی کہتے ہیں: ہم نے کب لوگوں سے کہا ہے کہ ہم آپ کوڈاکٹر ‘ انجینئر یا چارٹرڈاکائونٹینٹ بنائیں گے‘ ہم نے تو کہا ہے کہ ہم دین کا علم سکھائیں گے اور اس میں ماہر بنائیں گے ۔ ایران میں دینی مدارس کے علماء نے تمام شعبے سنبھالے اور چلائے ہیں ‘میں خودپچیس سال جج رہا ہوں۔ کیا کسی اسلامی ملک میں جج کے منصب پر فائز ہونے والے علماء لنکن اِن یا ہارورڈ یونیورسٹی یا آکسفورڈ اور کیمبرج سے پڑھ کر آئے ہیں ۔ ہماری بیوروکریسی اور اسٹبلشمنٹ نے اپنی برتری کا سہارا انگریزی زبان کو بنارکھا ہے ‘اُسے ایک طرف کریں اور پھر علماء کے سامنے بٹھائیں ‘ فرق سامنے آجائے گا؛چنانچہ وزیر اعظم جنابِ عمران خان حیرت زدہ رہ گئے کہ علماء جج بھی بن سکتے ہیں؛‘حالانکہ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ میں علماء شامل رہے ہیں ۔آج‘ اگر اسلامی فقہ وشریعت کو نافذ کردیا جائے تو یہ علماء ہی اس کے اہل ثابت ہوں گے ۔ فیملی کورٹس کیوں ناکام ہیں ‘ان کے فیصلوں کو معاشرے میں قبولیت کیوں نہ مل سکی‘ اس کا سبب یہی ہے کہ مسلمانوں کے عائلی مسائل کا تعلق اسلامی شریعت اور فقہ سے ہوتا ہے اور فیملی کورٹس میں رونق افروز جج صاحبان کودینی مسائل اوراُن کے تقاضوں سے بالکل آگاہی نہیں ہوتی ‘وہ کرائے نامے اور بیع نامے کی طرح محض نام تبدیل کر کے دو صفحوں پرایک لگا بندھا فیصلہ لکھ کر جاری کردیتے ہیں‘ انہیں اس کا کوئی احساس نہیں ہوتا کہ یہ حلال وحرام کا مسئلہ ہے ۔ ''دین میں جبر نہیں ‘‘کے عنوان سے میں اُن مجالس کا حوالہ دیے بغیر نفسِ مسئلہ ایک کالم میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں ‘ اسلام آبادہائی کورٹ کا فیصلہ بھی آچکاکہ دو نوں نومسلم لڑکیاں عاقلہ بالغہ تھیں اور قبولِ اسلام کے حوالے سے اُن پر جبر کا کوئی ثبوت نہیں ملا؛ حالانکہ اس پر ہمارے میڈیا نے بے حد شور مچارکھا تھا‘ شاعر نے سچ کہا ہے:؎
وہ بات‘ سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات‘ اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
اس لیے میں نے تجویز پیش کی کہ وزارتِ مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی میں اس کیلئے ایک خصوصی سیکشن قائم کیا جائے ‘ اس میں تمام مذاہب کے نمائندے موجود ہوں ‘ اس مسئلے کوبھی اسی فورم پر پیش کیا جائے اور ثبوت وشواہد سے پہلے جبر کا واویلا مچانے پر پابندی لگائی جائے ‘جبر کا ثبوت مل جائے تو جبر کرنے والے کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے ۔ہمارے پاس نومسلموں کے اسلام قبول کرنے کے جتنے واقعات آتے ہیں‘ اُن میں سے بیشتر کا تعلق محبت کی شادی سے ہوتا ہے‘ پس محبت اور جبر دو متضاد چیزیں ہیں۔یہی نہیں‘ مغربی ممالک میں بیشترصورتوں میںقبولِ اسلام کامحرک یہی ہوتا ہے‘میں ایک مرتبہ لیسٹر میں پروفیسر خورشید احمد صاحب کی سربراہی میں قائم اسلامک مشن کے ادارے میں گیا ‘ وہاں نومسلموں کی تربیت کا انتظام تھا ‘ مجھے وہاں بھی یہی بتایا گیا کہ اسّی فیصد اسلام قبول کرنے والوں کا سبب شادی کرنا ہوتا ہے ۔بہت کم ہوتے ہیں‘ جو شعوری طور پر دینِ اسلام کا مطالعہ کریں اور اس کو حق اور سچ مان کر دل وجان سے قبول کریں ۔یہ لوگ کم ہوتے ہیں‘ لیکن ان کا وجود نعمت ِ غیر مترقبہ ہے ‘ یہ حقیقی معنی میں مشنری ہوتے ہیں‘ مغرب کے آئینی و قانونی نظام کے اندر رہتے ہوئے‘ انہیں اپنے حقوق کاا دراک ہوتا ہے اوروہ دفاعی پوزیشن اختیار کر کے نہیں‘ بلکہ پورے ایمان وایقان اور استقامت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ‘ برطانیہ میں یوسف اسلام اور کیلی فورنیا امریکہ میں حمزہ یوسف اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔
ایک سوال نصاب پر اٹھایا جاتا ہے اور وہ طبقات اٹھاتے ہیں‘ جنہیں روزِ روشن کی طرح معلوم ہے کہ پاکستان میں ایک نصابِ تعلیم رائج نہیں ۔اکثر اعلیٰ درجے کے انگلش میڈیم سکولوں میں کیمبرج سسٹم ہے‘اے اور اولیول کا نظامِ امتحان ہے ‘ کتب ہانگ کانگ ‘ سنگا پور ‘ برطانیہ وامریکہ وغیرہ سے آتی ہیں یا اُن کا چربہ ہیں۔اُن میں پاکستان کا کوئی حوالہ بھی آپ کو نہیں ملے گا‘ انہی اداروں کے تعلیم یافتہ لوگ ملک میں اعلیٰ مناصب پر فائز ہوتے ہیں ‘ مگراُن کی کسی کو فکر نہیں ۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیار فرو تر ہے‘ سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے بچے بھی پرائیویٹ انگلش میڈیم سکولوں میں تعلیم پاتے ہیں‘ یہی حال بیوروکریسی ‘ سیاست دانوں ‘ حکمرانوں اور اشرافیہ کا ہے۔ہمارے دفاعی اداروں کا نرسری سے لے کر یونیورسٹی تک اپنا معیاری اور یکساںنظامِ تعلیم ہے‘ سو اُن کے بچے ان اداروں میں تعلیم پاتے ہیں ۔ حال ہی میں پختونخوا میں ایک سرکاری سروے میں بتایا گیا ہے کہ گورنمنٹ سکولوں کے اساتذہ کی مُعتَد بہ تعداد نصاب پڑھانے کی اہلیت نہیں رکھتی ‘ اردو تو بے انتہا کمزور ہے؛ حالانکہ اس صوبے میں 2013ء سے تحریک انصاف کی حکومت ہے‘وہاں کے بارے میں قوم کو تسلسل کے ساتھ تعلیم وصحت میں بہتری کی نوید سنائی جارہی تھی۔اس کے باوجود سب کو مدارس کی فکر ہے؛ حالانکہ مدارس میں طلبا وطالبات کا تناسب مجموعی قومی تعداد کابمشکل دو یاتین فیصد ہوگا‘ مگر سب کو مدارس کی فکر بے چین کیے رکھتی ہے ‘ اٹھانوے فیصد کی فکر کسی کو نہیں‘ گزشتہ عشرے میں اساتذہ وطلبا کے قتل ‘ اساتذہ طالبات کی بے حرمتی اور دہشت گردی کے واقعات زیادہ عصری تعلیمی اداروں کے بارے میں رپورٹ ہوئے ہیں‘لیکن ہدفِ ملامت دینی مدارس قرار پاتے ہیں۔ دینی مدارس کی عصری تعلیم کے جن شعبوں سے مناسبت ہوسکتی ہے ‘وہ آرٹس اور سوشل سائنسز کی فیکلٹیز ہیں۔ان میں تعلیم پانیوالا محکمۂ تعلیم ‘سول وملٹری سروس ‘ قانون اوردیگرشعبوںمیں جاسکتا ہے۔ہمارے نظامِ تعلیم میں چند مضامین لازمی ہوتے ہیں‘جو میٹرک سے بی اے کی سطح تک شامل ہوتے ہیں‘ باقی متعلقہ شعبے کے اختیاری مضامین ہوتے ہیں ۔انجینئرنگ ‘ میڈیکل‘ ٹیکنالوجیز‘ سائنسز ‘ کامرس ‘آئی ٹی ‘الغرض سب کا شعبہ جاتی نصاب الگ الگ ہے ۔
اس لیے ہم نے حکومت کو پیشکش کی ہے کہ پورے ملک اور قوم کے لیے لازمی مشترکہ نصاب بنالیں ‘ہم بھی اُسے اپنا لیں گے۔ جہاں تک دینی علوم کا شعبہ ہے ‘اُن میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آسکتی ‘ فنون کی کتابوں میں ردّوبدل ہوتا رہتا ہے ‘ یہ ایک جاری عمل ہے۔ ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ ریاست وحکومت کو دینی مدارس وجامعات سے مسئلہ کیا درپیش ہے ‘تاکہ ہم اُن کے تحفظات کا ازالہ کریں ۔حال ہی میں ایک اجلاس میں مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے پوچھا:ہمیں یہ بتایا جائے کہ حکومت اور اس کے ادارے ہمیں سمجھتے کیا ہیں:ہم حکومت اور اداروں کی نظر میں دہشت گرد ہیں‘ ماہرین تعلیم ہیں‘ معاشرے میں اصلاح کا فریضہ انجام دیتے ہیںیا کچھ اور ہیں‘ ازراہِ کرم ہمیں بتادیا جائے ۔حال ہی میںاتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی پانچ تنظیموں کے تحت پاکستان بھر میں امتحانات منعقد ہوئے ہیں‘ نہایت سکون اور نظم وضبط کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچے۔اسی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مختلف تعلیمی بورڈز کے امتحانات بھی ہورہے تھے اور الیکٹرانک میڈیا پر سمارٹ موبائل‘ کتابوں ‘مائکرو کاپیوں کے ذریعے نقل کرتے ہوئے دکھایا جارہا تھا اور یہ تماشا مختلف شہروں میں جابجا ہورہا تھا۔پرچے آئوٹ ہونا بھی تقریباً معمول ہے؛ حتیٰ کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں پرچہ آئوٹ ہونے کی بنا پر میڈیکل کاانٹری ٹیسٹ ایک بار منسوخ اورایک بار ملتوی کرنا پڑا ‘پاکستان بھر کے سرکاری تعلیمی بورڈز کی داستان یہی ہے۔
الزامی انداز میں بات کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا‘ مجبوراً یہ شِعار اختیار کرنا پڑا ہے ‘ کیونکہ ہم سب ایک قوم کے فرد ہیں ‘اگر کہیں کوئی چیز قابلِ افتخار ہے تو سب کے لیے ہے اور کوئی چیز باعثِ ننگ وعار ہے تو سب کے لیے ہے ‘ہم ایک دوسرے کو ملامت کرکے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ‘سب کو مل کر کمزوریوں پر قابو پانا چاہیے اور ملک کو اصلاح اور ترقی کی شاہراہ پر رواں دواں رکھنا چاہیے۔ آپ ایک ہی طبقے کو طعن وتشنیع کا ہدف بناتے رہیں گے‘ تو ردِّ عمل کا آنا فطری بات ہے۔بائیس کروڑ آبادی کے ملک کو صرف ریاستی طاقت اور جبر سے سدھارا نہیں جاسکتا‘ اس کے لیے اجتماعی اصلاحی اور تجدیدی کاوشوں کی ضرورت ہے۔