سوال:مندرجہ ذیل صورتوں میں عورت کیا کرے اور اس پر کیالازم آتاہے۔1:عورت نے حج یا عمرے کا احرام باندھا اور ایام شروع ہوگئے‘ اگر عمرے کا احرام توڑتی ہے تو اس پر کیا لازم آئے گا‘2:اگر عمرے کے لیے مکہ مکرمہ پہنچی اور ایام شروع ہوگئے تووہ کیا کرے ‘ 3:اگر دورانِ حج منیٰ یا عرفات میں ایام شروع ہوگئے تو وہ کیا کرے‘4:اگر ایامِ حج حالتِ حیض میں گزر گئے اور واپسی کی فلائٹ 13ذوالحجہ کو ہے‘ تو اب وہ کیا کرے‘5:اگر عمرے کا پروگرام پہلے سے طے ہے اور روانگی کے دن ایام شروع ہوگئے‘تو وہ کیاکرے ‘ 6:احرام باندھ کر ائیرپورٹ پہنچاتو پتا چلاکہ چیک اِن یعنی بورڈنگ کا سلسلہ بند ہوگیا ہے یا جہاز کا دروازہ بند ہوگیا ہے یا معلوم ہوا کہ سیٹ کنفرم نہیں تھی‘ اب بظاہر اگلی فلائٹ 3دن بعد دستیاب ہوگی تو کیا کرے‘اگر احرام کھول دیتا ہے تو اس پر کیا لازم آئے گا‘7:ایک خاتون حج کا خطبہ اور نماز ِ ظہروعصر اداکرنے کے بعدحائض ہوگئی ‘ بقیہ ارکان کی ادائیگی کس طرح کرے گی؟‘(شہزادی بیگم ‘کراچی) ۔
نوٹ: اردو میں حَامِلَہ(حمل والی) ‘حَائِضہ (حیض والی) اور مُرْضِعَہ(بچے کو دودھ پلانے والی) استعمال ہوتا ہے‘ یعنی آخر میں تانیث کی علامت کے طور پر ''ہ‘‘ لگائی جاتی ہے ‘ لیکن عربی میں ایسا کرنا ضروری نہیں ہے ‘کیونکہ یہ عورت کی صفات ہیں اورحَامِل ‘حَائِضْ ‘مُرْضِع (دودھ پلانے والی) اورمُطْفِلْ (بچے والی) کے کلمات مذکرکے صیغے کے ساتھ استعمال کرنے سے مرد کی طرف ذہن نہیں جاتا‘ کیونکہ یہ مؤنث کی صفات ہیں‘ اسی طرح ہمارے ہاں اردو میں بیوی کے لیے عام طور پر ''زَوْجَہ‘‘ استعمال ہوتا ہے ‘لیکن عربی میں ''زَوْج‘‘ Common Gender کے طور پر استعمال ہوتا ہے ‘یعنی مرد وزن پر اس کا اطلاق یکساں ہوتا ہے ‘انگریزی میں اسے Coupleکہتے ہیں۔
جواب:(1تا4)حج کااحرام باندھنے کے بعد جب عورت کو حیض آجائے تو وہ حج کے بقیہ تمام افعال اداکرے ‘یعنی منٰی‘ عرفات اور مزدلفہ کے وقوف اورقربانی ‘رمی ِجمرات سمیت تمام ارکان اداکرے‘ بیت اللہ کا طواف نہ کرے ‘ اسی طرح نماز نہ پڑھے ‘تلاوت نہ کرے‘ اَذکار وتسبیحات ودرود جاری رکھے اورایام ختم ہونے پر غسل کرکے پاک ہوجائے اور پھر طواف اداکرے ۔اسی طرح عمرہ کاحکم ہے کہ حیض کی وجہ سے احرام کی پابندی برقرار رہے گی اورپاک ہونے کے بعد عمرہ کے افعال ادا کرے گی ۔ اگرکسی عورت نے عمرہ کا احرام کھول دیا ‘تو دَم دینا ہوگااور یہ دَم حدودِ حرم میں ہی دیا جائے گا اور عمرے کی قضا لازم ہوگی ۔ مِنٰی وعرفات میں نمازوں کی ادائیگی کے علاوہ ذکر اذکار کیے جاتے ہیں ‘حائضہ عورت پر نماز معاف ہے‘ عرفات کے وقوف کے لیے بھی طہارت شرط نہیں ہے ۔
اگر حیض سے پاک ہونے تک مکہ میں ٹھہرناممکن نہ ہو اور ناپاکی کی حالت میں طواف بھی نہیں کیا جاسکتا‘ یعنی واپسی کی فلائٹ کا شیڈول بدلا نہ جاسکتا ہویا فلائٹ یامَحرم یاشوہر کی روانگی کا مسئلہ درپیش ہو تومجبوراً عورت طوافِ زیارت کرلے اور اُس پر ''بَدَنَہ‘‘(جمع: بُدْن) یعنی اونٹ یا گائے کی قربانی حدودِ حرم میں دینی واجب ہوگی ۔ سابق ادوار میں ویزے اور واپس لوٹنے کی تاریخ کا تعین یا تحدید نہیں ہواکرتی تھی اور نہ وطن واپس آکر دوبارہ جانے کی پابندیاں تھیں ‘جس کے سبب اس طرح کے عذر میں مبتلا لوگ وہیں ٹھہر جاتے تھے یا دوبارہ جاکر اداکرلیاکرتے تھے۔ عمرے میں اگر پاک ہونے تک رکنا ممکن نہ ہو تو احرام سے نکل آئے اور حدودِحرم میں ایک دَم دے اور زندگی میں اس عمرہ کی قضابھی کرے‘دَم سے مراد بکری یا دنبے کی قربانی ہے۔
حدیث پاک میں ہے1:''حضرت قاسمؓ بیان کرتے ہیں : میںنے حضرت عائشہؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا:ہم حج کے لیے نکلے ‘جب ''سَرِف‘‘کے مقام پر پہنچے تومجھے ایام شروع ہوگئے ‘نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے ‘میں اس وقت رورہی تھی ‘آپ ﷺ نے فرمایا: کیا ہوا‘ کیا تمہیں حیض آگیا ؟‘میں نے کہا: جی ہاں!‘آپ نے فرمایا: یہ وہ چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر لکھ دیا ہے‘ پس تم وہ افعال کروجو تمام حجاج کرتے ہیں ‘البتہ تم بیت اللہ کا طواف نہ کرنا‘ (صحیح بخاری: 294)‘‘۔ (2)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاایک طویل حدیث میںبیان کرتی ہیں:''رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اورمیں رورہی تھی ‘آپ ﷺ نے فرمایا: تم کیوں رو رہی ہو ‘میں نے عرض کی: میں نے صحابہ کے ساتھ آپ کی گفتگو سنی ‘میں نے عمرہ کی بابت سنا‘آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا مسئلہ کیاہے ‘میں نے عرض کی : میں نماز نہیں پڑھ پاؤں گی ‘ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں اس کا کوئی نقصان نہیں ہے‘ بس اپنا حج جاری رکھو ‘امید ہے اللہ تمہیں عنقریب عمرہ نصیب فرمائے گا ‘تم آدم کی بیٹیوں میں سے ہو ‘اللہ نے دیگر بناتِ آدم کی طرح تم پر بھی یہ (حیض) لکھ دیاہے ‘ (حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں) :پس میں نے اپنا حج جاری رکھا‘ یہاں تک کہ ہم منٰی میں اترے ‘پھر میں پاک ہوگئی ‘پھر ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا ‘پھر ہم وادیِ مُحصَّب میں اترے ‘پھر آپﷺ نے(میرے بھائی) عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کو بلایااورفرمایا: اپنی بہن(عائشہؓ) کے ساتھ حدودِ حرم سے نکلو ‘ عمرے کی تَلْبِیَہْ پڑھو (یعنی احرام باندھو )‘پھر بیت اللہ کا طواف کرو ‘میں تم دونوں کا یہاں انتظار کروں گا ۔حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں:ہم(حدودِحرم سے)نکلے‘ پھر میں نے عمرہ کے لیے تَلْبِیَہْپڑھی (یعنی احرام باندھا)‘پھر میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفاو مروہ کے درمیان سعی کی ‘پھر ہم رسول اللہﷺ کے پاس آئے ‘وہ نصف شب کو اپنی جگہ پر ہی تھے‘ آپﷺ نے فرمایا: تم فارغ ہوگئی ہو ‘میں نے عرض کیا: جی ہاں! پھر آپﷺنے صحابہ کوکُوچ کرنے کاحکم دیا‘پھر آپﷺ وہاں سے نکل کرگئے ‘ نمازفجر سے پہلے بیت اللہ کا طواف کیا‘ پھر (نمازِ فجر پڑھ کر) مدینہ منورہ روانہ ہوگئے ‘ (صحیح مسلم: 1211)‘‘۔نوٹ: عمرے کے نوافل پڑھنے کے بعدعمرے کی نیت اور تَلْبِیَہْپڑھنے سے آدمی مُحْرِم ہوجاتا ہے ۔
5:عمرے پر روانگی سے پہلے ایام شروع ہوگئے ‘تو اس صورت میںاگرروانگی کی تاریخ آگے بڑھائی جاسکتی ہے تو بڑھالے ‘اگر ایساکرناممکن نہ ہو توعمرے کاغسل کرکے احرام باندھے اور مکہ مکرمہ جاکر پاک ہونے کا انتظار کرے ‘پاک ہوکر طواف وسعی کرے اور عمرہ مکمل کرے۔
6:اگر احرام باندھ لیا ‘یعنی نیت کرلی تھی تو اب اُس احرام کو پورا کرنا لازم ہے ‘اس لیے اسے چاہیے کہ گھر واپس آکر جہاز کی سیٹ ملنے تک حالتِ احرام میں رہے اور احرام کی تمام پابندیوں پر عمل کرتارہے ‘ سیٹ کنفرم ہونے پر روانہ ہوجائے۔لیکن اگر احرام کھول دیا تو گنہگار ہوگا اور اُس پر دَم بھی واجب ہوگااور عمرے کی قضا بھی لازم ہوگی۔ عازمین ِحج و عمرہ کے لیے مشورہ یہ ہے کہ وہ گھر سے غسل کرکے لباس احرام پہن کر چلے جائیں‘ مرد احرام کی چادریں ائیر پورٹ پر جاکراور معمول کا لباس اتار کر بھی پہن سکتے ہیں‘ جب سیٹ کنفرم ہوجائے اور بورڈنگ کارڈ مل جائے تو دو رکعت نفل پڑھ لیںاور جب فلائٹ روانہ ہونے لگے یاروانہ ہوجائے تو نیت باندھ لیں اور تلبیہ پڑھ لیں‘ ورنہ بصورت ِدیگر واپس آجائیں اور نارمل لباس پہن لیں‘ چونکہ وہ مُحرم نہیں ہوئے تھے‘ اس لیے ان پر کچھ واجب نہیں ہوگا۔
7:حج کے کل ایام پانچ ہیں :پہلا دن آٹھ ذوالحجہ :احرام میں داخل ہونے اور حج کی نیت کرنے کے بعد تَلْبِیَہْپڑھنا‘ منیٰ کو روانگی ‘ رات منیٰ میں قیام دوسرے دن یعنی نو ذوالحجہ کو:منیٰ میں نمازِ فجر اداکرکے عرفات پہنچنا‘ خطبہ سن کر نمازِ ظہروعصر ملاکر پڑھنا ‘ غروبِ آفتاب کے بعدمزدلفہ روانہ ہونا‘ مزدلفہ میں مغرب و عشا ملاکر اداکرنا۔تیسرے دن دس ذوالحجہ کو: جمرۂ عقبہ پر رمی ‘قربانی ( حج تمتع یا قِران کادَمِ شکر)کے بعدایک پور کے برابر بال کترنا اور بیت اللہ جاکر طوافِ زیارت کرنا ‘ سعی کرنااور رات منیٰ میں گزارنا۔چوتھے دن یعنی گیارہ ذوالحجہ کو: زوال کے بعد تینوں جمرات کی رمی کرنا ‘بارہ کی رات منیٰ میں رہنا سنت ہے ۔پانچویں دن(یعنی بارہ ذوالحجہ کو):زوال کے بعد تیسرے دن تینوں جمرات کی رمی پرحج مکمل ہوگیا ‘ مکہ سے روانگی کے وقت طوافِ وداع واجب ہے ۔
نو ذوالحجہ کوعرفات کے میدان میں وقوف (ٹھہرنا) حج کا رکنِ اعظم ہے ‘حیض ونفاس والی عورت اور جنبی آدمی کا وقوف صحیح ہے ‘حج اداہوجائے گا ‘ وقوفِ مزدلفہ ‘ وقوفِ منٰی ‘ رمیِ جمرات اورحجِ تمتُّع کی قربانی کے لیے طہارت شرط نہیں ہے‘ لہٰذا یہ واجبات حائض عورت حالتِ حیض میں بھی اداکرسکتی ہے ۔
طوافِ زیارت حج کا دوسرا رکنِ اعظم ہے ‘اسے طوافِ افاضہ اور طوافِ فرض بھی کہتے ہیں‘اس کا وقت ساری زندگی ہے ‘ لیکن دس ذوالحجہ کی طلوعِ فجر سے بارہ ذوالحجہ کے غروبِ آفتاب سے قبل اس کے اکثر چکر کرلینا واجب ہے ۔ چونکہ حیض ونفاس بندے کی اپنی کسی تقصیر کے سبب نہیں ہوتا‘بلکہ یہ اللہ کی جانب سے ہے ‘لہٰذا اللہ کی جانب سے عذرلاحق ہونے کی صورت میں تاخیر پر دَم یا کفارہ نہیں ہے۔ اگر حائض اور اس کے محرم کے لیے واپس روانگی میں تاخیر کی گنجائش ہے‘ تو وہ اپنی ریزرویشن منسوخ کرکے اسے مناسب وقت تک مؤخر کردیں اورحیض ختم ہونے پر غسل کرکے پاک ہوجائیں اور پھر طواف فرض اداکریں ‘اس کے بعد حسبِ سہولت طوافِ وداع کرکے رختِ سفر باندھ سکتے ہیں۔لیکن اگر خدانخواستہ اس کی گنجائش اورسہولت نہ ہو تو حالتِ حیض میں طوافِ زیارت کرلیں اور حدودِ حرم میں کفارے کے طورپربَدَنَہ(یعنی اونٹ یاگائے) کی قربانی دینی ہوگی‘ ویسے عذرمن جانب اللہ کے لیے قانون میں رعایت ہونی چاہیے‘ کیونکہ یہ عبادت حج کا مسئلہ ہے اور مسلم حکومتوں کو اس سلسلے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے ‘غیر مسلم ممالک سے آنے والے تو واپسی کی تقدیم وتاخیر کے معاملے میں خود مختار ہوتے ہیں ‘ زیادہ سے زیادہ سابق ریزرویشن کی منسوخی اورنئی ریزرویشن کے لیے کچھ اضافی رقم دینی ہوتی ہے ‘لیکن مسلم حکومتوں کو اضافی رقم نہیں لینی چاہیے ۔
سعی کے لیے طہارت لازمی نہیں بلکہ مستحب ہے ‘علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ معذور کے حج وعمرہ کی سعی کے بارے میںلکھتے ہیں'' اور اگر حیض ونفاس والی عورت اور جُنبی شخص(یعنی جس پر غسل واجب ہو ) سعی کریں‘ تو (ان کا سعی کرنا)صحیح ہے (یعنی سعی کے لیے طہارت شرط نہیں) ‘(فتاویٰ عالمگیری‘ جلداول‘ص:41 ص:247)‘‘‘علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃتحریر فرماتے ہیں: ''مستحب یہ ہے کہ باوضو سعی کرے‘ (بہارِ شریعت‘ حصہ ششم‘ جلد1 ص:435)‘‘۔