"MMC" (space) message & send to 7575

جنابِ وزیرِ اعظم سے چند گزارشات

چندگزارشات وزیرِ اعظم جناب عمران خان کے پیشِ خدمت ہیں: ہم مان لیتے ہیں کہ آپ نے حسنِ نیت سے اورنیک عزم کے ساتھ ریاستِ مدینہ قائم کرنے کادعویٰ کیا اور وقتاً فوقتاً آپ اسے دُہراتے رہتے ہیں‘لہٰذا آپ کی نیت پر بدگمانی کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ لیکن ہم نے پہلے بھی کہاتھا ‘ یہ بہت بڑا دعویٰ ہے ‘ اس پر پورا اترنا آسان نہیں ہے اور موجودہ حالات میں عقلاً تو محال نہیں ہے ‘ مگر عملاً دشوار ترین ہے ۔ ریاستِ مدینہ سے ایک مسلمان کا ذہن اُس چالیس سالہ دور کی طرف جاتاہے جو سیدالمرسلین ﷺ کی ہجرت سے لے کر رسول اللہ ﷺ کے چوتھے خلیفۂ راشد امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ وکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی عظیم شہادت پر ختم ہوتا ہے ‘ یعنی عہدِ رسالت مآب ﷺ اور عہدِ خلافتِ راشدہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا مبارک دور ‘ جس کی عظمت کے نقوش ہرمسلمان کے دل ودماغ پر ثبت ہیں۔ پس آپ کے لیے بہتریہ ہے کہ آپ اپنے خطابات میں یہ کہیں ''ہم اپنی بساط کے مطابق اسلامی فلاحی ریاست قائم کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں ‘ ہماری نیت نیک ہے ‘عزائم پُختہ ہیں ‘ اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں سُرخرو فرمائے اور کامیابی نصیب فرمائے ‘‘۔
دوسری اہم گزارش یہ ہے کہ آپ اپنے خطابات میں جو اسلامی حوالے دیں ‘ اُن کے بارے میں کسی مُستندصاحبِ علم یا کم از کم اپنے وزیر ِ مذہبی امور سے مشاورت کرلیاکریں ‘ دینی مُقدّسات ایک حساس معاملہ ہے اور اس کے لیے الفاظ کا چُناؤ کرنے میں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے ‘میر انیس اور میر تقی میرنے کہاتھا:
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہردم 
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو 
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام 
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا 
دینی مُقدّسات سے رشتۂ عقیدت کے آبگینے تو حد درجہ نازک ہیں‘ یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ مسلمانوں کے لیے عقائد اور مُقدّساتِ دین کے معاملات جماعتی وفاداریوں سے بالاتر ہوتے ہیں ۔ہماری زندگی اس شعبے میں گزری ہے ‘ لیکن ہم بھی ممکنہ حد تک حساس موضوعات پر بولنے یا لکھنے سے پہلے اصل مآخِذ کی طرف رجوع ضرور کرتے ہیں ۔ ایک ہی مفہوم کے اظہار کے لیے الفاظ کے انتخاب کا بہت فرق ہوتاہے ‘ اردو زبان میں ایک اندازِ بیان یہ ہے کہ کوئی کہے ''تمہاری ماں کا خصم ‘‘ اور دوسرا یہ کہ ''آپ کے والدِ بزرگوار ‘‘‘ ان دونوں میں معنوی فرق کوئی نہیں ہے ‘ لیکن تاثیر کے اعتبار سے زمین وآسمان کا فرق ہے ‘ پہلے کلمات سن کر انسان کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں ‘ جبکہ دوسرے کلمات سن کر انسان کے دل میں قائل کے لیے احترام کے جذبات پیداہوتے ہیں ‘ عربی شاعر نے کہا ہے ''نیزوں کے زخم تو وقت گزرنے کے ساتھ بھر جاتے ہیں ‘ لیکن زبان کے لگائے ہوئے زخم کبھی مُندمِل نہیں ہوتے ‘‘۔
امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ایک یہودی کے مابین مُقدمے کے حوالے سے آپ نے جو بات کہی ‘ وہ معنوی اعتبار سے درست ہے ‘ کیونکہ عدالت سے جس فریق کے خلاف فیصلہ آجائے ‘ ہمارے عرف میں کہاجاسکتا ہے :وہ ہار گیا۔ لیکن اس کو اس انداز سے بیان کرنا چاہیے : امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسلمین اور قاضی القضاۃ ہوتے ہوئے بھی ایک یہودی کے مقابل عدالت میں مُدعی کے طورپر پیش ہوئے اور حق پر ہونے کے باوجودچونکہ آپ کے پاس عدالت میں پیش کرنے کے لیے غیر جانبدار گواہ نہیں تھے ‘ اس لیے قاضی نے آپ کے خلاف فیصلہ دیا۔ آپ نے بطور گواہ اپنے صاحبزادے حضرت حسن ؓاور اپنے غلام قنبر کو پیش کیا ‘ قاضی نے کہا : بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی آقا کے حق میں معتبر نہیں ہے اور آپ نے اس فیصلے کوخوش دلی سے قبول فرمایا ۔ اس بے مثال عدل کا فریقِ مخالف یہودی پر گہرا اثر مرتب ہوا: وہ پلٹ کر آیا ‘ عدالت میں اقرارجرم کیااور کہا : یہ عدلِ نبوت کے مشابہ ہے کہ امیرالمومنین مجھے برابر کا درجہ دے کر قاضی کے سامنے پیش ہوئے ‘ قاضی نے اُن کے خلاف فیصلہ دیااور انہوں نے اسے قبول کیا؛چنانچہ اس نے اسلام قبول کرلیا ‘ حضرت علیؓ نے وہ زرہ اور ایک گھوڑا اُسے ہبہ کیا اور پھر وہی نومسلم آپ کے ہمراہ خوارج کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہوا ۔سید المرسلین ﷺ نے ایک موقع پر آپ سے فرمایا تھا '' اے علی! اگر ایک شخص بھی تمہارے ہاتھ پر اسلام قبول کرلے ‘ تویہ نعمت تمہارے لیے سُرخ اونٹوں کے ریوڑ سے بہتر ہے ‘ یہ واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ کُتُبِ سیرت وتاریخ میں مرقوم ہے ۔
غزوۂ بدر میں بھی جہاد سے کوئی پیچھے نہیں ہٹا ‘ غزوۂ بدر کو اللہ تعالیٰ نے الفرقان یعنی ایمان کی کسوٹی قرار دیاہے‘ رسول اللہ ﷺ نے اہلِ بدرکی بابت اللہ کی یہ بشارت دی تھی '' تم جو چاہو کرو ‘ میں نے تمہیں بخش دیا ہے ‘‘اور آپ ﷺ نے دعا کرتے ہوئے فرمایاتھا '' اے اللہ ! اگر آج تو انہیں ہلاک کردے گا ‘ تو پھر زمین پر تیری عبادت کبھی نہ ہو گی ‘‘‘ اس ارشادِ نبویؐ کا معنیٰ یہ ہے کہ قیامت تک ایمان کی نعمت سے سرشار ہونے والا ہر شخص بدری صحابہؓ کے زیرِ بارِ احسان ہے ۔ 
غزوۂ اُحد میں حضرت عبداللہ بن جُبیر ؓکی قیادت میںجبلِ عینین پر مورچہ بند صحابۂ کرام سے یقیناً اجتہادی خطا ہوئی اور وہ سرورِ عالم ﷺ کی ہدایت کو نظر انداز کرکے مالِ غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے ‘ لیکن اُن کا یہ اقدام مال کے لالچ یا نافرمانی کے ارادے سے نہیں تھا بلکہ انہوں نے نیک نیتی سے یہ سمجھا کہ اب مسلمانوں کو یقینی فتح حاصل ہوگئی ہے اور اب یہاں مورچہ زن رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے اُن کے بارے میں بھی محتاط کلمات استعمال کرنے چاہئیں اور صرف یہ کہنا چاہیے '' غزوۂ اُحد کا سبق یہ ہے کہ فرمانِ رسول ﷺ پر غیر مشروط طورپر عمل پیرا ہونا چاہیے اور اپنے اجتہاد یاحسنِ نیت سے بھی فرمانِ رسولؐ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ‘ اللہ کی عطاکردہ نعمتِ عقل کو منشائِ نبوت کو نظر انداز کرنے کے لیے نہیں بلکہ اسے حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے ۔مالِ غنیمت جمع کرنا اس دور میں شِعار تھا ‘ کوئی معیوب بات نہیں تھی ۔ رسول اللہ ﷺ خود مجاہدین کے درمیان مالِ غنیمت کو تقسیم فرماتے تھے ‘البتہ کسی نامی گرامی کافر کے بارے میں کبھی آپ یہ اعلان فرماتے ''جو اسے قتل کرے گا ‘ اس کا مال اسے ملے گا ‘‘ ۔
اسی طرح آپ بڑے شوق سے احتساب کریں ‘ بے لاگ احتساب کریں ‘ لیکن اُس کے لیے ریاست کے آئینی اور قانونی ادارے موجود ہیں ‘ اُنہیں آزادانہ ماحول میں اپنے فرائض انجام دینے دیں ‘ اپنے فرائض کی انجام دہی میں اگر ان اداروں کو حکومتِ وقت کی مالی یا انتظامی مدد درکار ہو ‘ تووہ بھی فراہم کریں ‘ لیکن یہ تاثر نہ دیں کہ احتساب کی ڈرائیونگ سیٹ پر آپ بیٹھے ہوئے ہیں اور مُتعلقہ ادارہ آپ کی آشیر باد یا اشارۂ ابرو پر ہاتھ باندھے عمل پیراہے ۔عربی کا مقولہ ہے '' جس نے دوسروں کی عزت کی ‘ درحقیقت اس نے اپنے لیے عزت کمائی‘‘۔ آپ ملک کے وزیرِ اعظم ہیں ‘ اس وقت آپ پاکستان کا حوالہ ہیں ‘ آپ اندازِ کلام اور تَخاطُب کا ایسا لب ولہجہ اختیار نہ کریں کہ کوئی ردعمل میں آپ کے بارے میں نازیبا کلمات کہے‘ اپنی رہنمائی کے لیے اس حدیثِ مبارک کومَشعلِ راہ بنائیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ پر لعنت کرے ‘ صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ ! کوئی شخص اپنے ماں باپ پر کیوں لعنت بھیجے گا (یعنی ایسابدنصیب کون ہوگا)‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک شخص دوسرے کے باپ یا ماں کو گالی دیتاہے تو وہ جواب میں اس کے ماں باپ کو گالی دیتاہے ‘(بخاری:5973)‘‘۔ صحیح مسلم کی حدیث میں لعنت کی جگہ گالی کا کلمہ آیاہے ۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ کسی کے قول وفعل پر جو ناپسندیدہ ردِ عمل آتا ہے ‘ اُس کا ذمہ داروہ خودہے ‘ کیونکہ اس نے خوداس کا جواز فراہم کیا ہے ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسرے کے لیے کسی کو گالی دینا یا اہانت کرنا جائز ہو جائے گا ‘ لیکن اپنی عزت کا تحفظ ہر شخص کی اپنی ذمے داری ہے۔ ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے ''مومن کو روانہیں کہ اپنے آپ کو ذلت سے دوچار کرے‘ (ترمذی: 2254) ‘‘ یعنی ایسی ذلت جس کا سبب وہ خود بناہے۔ کاش کہ ہم اللہ کے پیارے رسول ﷺ کی ان پاکیزہ تعلیمات سے سبق حاصل کریں۔ پاکستان کے تمام سیاسی رہنماؤں سے ہماری درخواست ہے کہ ایک دوسرے کی پالیسیوں ‘ اقدامات اور اُن کے منفی نتائج پر ضرور تبصرہ کریں ‘ عوام میں آگہی پیداکریں‘ لیکن قوم کے اہلِ نظر کی آرزو یہی ہے کہ ہمارے رہنماؤں کو ذہنی اور سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا چاہیے ‘ دنیا کے سامنے ہمارا کوئی مُثبت پہلو بھی آنا چاہیے ۔ آج کل زبان یا قلم سے نکلاہوا ہر لفظ تاریخ کے ریکارڈ پر ثبت ہوجاتاہے ‘نہ اُسے واپس لینا ممکن ہوتا ہے ‘نہ دور اَزکار تاویلات کسی کام آتی ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں