افلاطون نے کہاتھا : حکمران فلسفی ہونے چاہئیں یا حکومت فلسفیوں کے سپردکردینی چاہیے ‘اسے بعض لوگوں نے اشرافیہ کی حکومت سے بھی تعبیر کیاہے۔ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ انسانی تاریخ کے کسی دور میں افلاطون کے خواب کو تعبیر ملی یا نہیں ‘لیکن ماشاء اللہ ہم جس دورِ ہمایوں میں جی رہے ہیں ‘اُس میں مسندِ اقتدار پر فائز اور رونق افروز فلسفیوں کاایک جمّ غفیر ہے ‘اُن عالی مرتبت حضرات کے نام لکھیں توناراض ہوجائیں گے ۔ پس :''عاقل را اشارہ کافی است‘‘۔اُن کا احسان ہے کہ اپنی تقاریر ‘خطابات اور بیانات کی صورت میں قوم کے لیے روحانی غذا کااہتمام فرماتے رہتے ہیں ۔بزعمِ خویش اپنے پیشرو حکمرانوں کی خامیوں ‘ نالائقیوں اور خرابیوں پر جینا ان کا سرمایۂ افتخار ہے ‘کیا خبر رات کو سوتے میں بھی یہی بڑبڑاتے رہتے ہوں ‘کیونکہ اب یہ ان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے‘وہ اِس سے فرصت پائیں توعوام کو راحت پہنچانے کے بارے میں کچھ سوچیں ‘ اگراسی آموختہ کو شب وروز دہراناہے ‘تو کام کی نوبت کہاں‘ بقول تسلیم فاضلی: ؎
خداکرے کہ محبت میں یہ مقام آئے
کسی کا نام لوں‘ لب پہ تمہارا نام آئے
لیکن جناب وزیر اعظم کے معتوبین ومغضوبین خوش نصیب ہیں کہ اُن کا نام ازخود ہی جناب کے مبارک لبوں پرآجاتاہے اورکسی روز بھی اس وِرد کا ناغہ نہیں ہوتا کہ مَبادا اُن کے عُشّاق وجاں نثاریہ آموختہ سبق بھول جائیں ۔
دونظام : نواز شریف صاحب اور آصف علی زرداری صاحب کے قیدی ہونے کے باوجود ہسپتال میں زیر علاج ہونے اور اب نواز شریف صاحب کو علاج کی غرض سے بیرونِ ملک سفر کی اجازت ملنے پرجنابِ وزیر اعظم‘ اُن کے مُصاحبین اور وزرائے کرام شب وروز دہائی دے رہے ہیں کہ ملک میں دو نظام ہیں ‘ ایک امیروں کے لیے اور دوسرا غریبوں کے لیے ۔پاکستان کی جیلوں میں اوربھی سینکڑوں قیدی ہیں ‘جو مُہلک بیماریوں میں مبتلا ہیں ‘لیکن ان کو مناسب علاج کی سہولت دستیاب نہیں ہے ۔کوئی پوچھے: حضور والا! دُہرے نظام کایہ طَعن آپ کس پر کررہے ہیں ‘آیایہ خود کلامی اور حدیثِ نفس ہے‘کیا آپ کی مخاطَب کوئی بیرونی طاقت ہے یا محض شوقِ بیان کی تسکین ہے ‘ کیونکہ روز بیان جاری کرنا بجائے خود ایک ایسا نشہ ہے ‘ جس کے بارے میںداناؤں نے کہاہے '' یہ وہ نشہ نہیں‘ جسے تُرشی اتار دے ‘‘۔ حاکم ِ وقت اور مسند نشینِ اقتدار تو آپ خود ہیں ‘ دیر کیوں لگاتے ہیں ‘جلدی کریں‘آگے بڑھیں ‘مسائل پر گریہ وزاری نہ کریں ‘بلکہ اُن کو حل کرکے دکھائیں ‘ درد کا مداوا اور دُکھ کا دَرماںکریں ‘مرض کی نشاندہی نہ کریں ‘ اُس کا علاج کریں ‘ زخم کی نمائش نہ کریں ‘ اُس پر مرہم رکھیں ‘ حکومت تو غریب عوام کیلئے ''مائی باپ ‘‘ ہوتی ہے ‘آپ فریادی تو تب بنتے کہ کسی قانون یا کسی عدالت نے آپ کا راستہ روک رکھاہوتا ‘ ایساہرگز نہیں ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف صاحب کو علاج کی غرض سے آٹھ ہفتے کیلئے ضمانت پر رہاکرتے وقت عدالتی حکم نامے میں لکھاہے '' انتہائی بیمار قیدیوں کو علاج کی سہولت فراہم کرنا یا ضمانت پر رہاکرنا انتظامیہ کا اختیار ہے ؛ چنانچہ عدالت نے '' اصلاحِ جیل خانہ جات ‘‘ کے قوانین مجریہ1978ء کی متعلقہ دفعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے : اس میں عدالتوں سے رجوع کرنے کی کیاضرورت ہے ‘یہ اختیار تو قانون کی رُو سے خود حکومت کو حاصل ہے ۔نواز شریف صاحب کے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے : اگر آٹھ ہفتے گزر جائیں اور علاج مکمل نہ ہو تو حکومت ضمانت پر رہائی کی مدت میں خود توسیع کرسکتی ہے ‘نیز اگر حکومت نفیاً یا اثباتاً کوئی فیصلہ نہ کرے تو اسے توسیع کے مُترادف سمجھاجائے گا ‘ اگر مریض کی حالت بدستور تشویش ناک ہے اور حکومت زیادتی کرتے ہوئے اُسے جیل میں ڈال دیتی ہے ‘ تووہ حکومت کی بدنیتی کے ازالے اور دادرسی کے لیے پھر عدالتِ عالیہ سے رجوع کرسکتا ہے‘‘۔ پس‘ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پھر شور وغوغا کیسا ؟ حکومت کا دوسرا تضاد یہ ہے کہ وہ یہ تاثر دیتی ہے کہ ہم نے نواز شریف کو خالص انسانی بنیادوں پر بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی ہے ‘تو پھر ظفرؔ اقبال کے اس مشورے پر عمل کرنا ہی آپ کے لیے مفیدہوگا: ؎
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو‘ اُس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
سو‘ اگر خواستہ و ناخواستہ یا طوعاً و کَرہاًآپ نے انسانی اَقدار کی پاسداری کا بیڑا اُٹھاہی لیاہے ‘تو صبر کیجیے اوراگرکسی غیبی طاقت نے یہ تاج آپ کے سرپر سجا دیا ہے ‘ تواس کا علم آپ کو ہوگا ‘ ہم عالمِ شُہود کے ادنیٰ طالبِ علم ہیں ‘عالمِ غیب تک ہماری رسائی نہیں ہے ‘ کیونکہ یہ رِجالِ غیب کی ممنوعہ حدود ہیں‘لیکن پھر احساسِ جرم اور ندامت وپچھتاوا کیسا‘دھڑلے سے اس کا کریڈٹ لیجیے کہ ہم انسانی اَقدار کے پاسبان ہیں ‘ انسانیت اعلیٰ قدریں ہم سے خیرات میں لیتی ہے ‘ یہی مشورہ جنابِ چوہدری شجاعت حسین نے بَربنائے اخلاص دیا تھا کہ دودھ دیا ہے‘ تو اُس میں مینگنیاں نہ ڈالیں‘ یہ گناہِ بے لذّت ہے ‘ مگر عقل نہ اُدھار ملتی ہے اورنہ خیرات میں ‘سو آپ نے رعایت بھی دی اورپھر اُس میں مینگنیاں ڈالنے کا عمل جاری رکھاہواہے ؛ چنانچہ متاثرہ فریق نے ایک بار پھر مینگنیاں نکالنے کے لیے عدالتِ عالیہ لاہور سے رجوع کیا ‘ڈپٹی اٹارنی جنرل نے پہلے پٹیشن سے اختلاف کیا ‘ پھرحکومت کے بعض ذمے داران نے عدالت کے فیصلے کو قبول کرنے اور اُس کا احترام کرنے کا دعویٰ کیا‘بلکہ اٹارنی جنرل جناب انور منصور اورمعاون احتساب مرزا شہزاد اکبر نے عدالتی فیصلے کو اپنی فتح سے تعبیر کیااور کہا: یہ تو ''انڈیمنٹی بانڈ‘‘ سے بھی آگے کی چیز ہے‘ جو بن مانگے ہمیں مل گئی‘لیکن آخرمیںپھر وہی اندازِ بیان ‘ احتجاج اور فریاد ‘ جنابِ آغا شورش کاشمیری ایسی ہی دلفریب اداؤں کو ''کہہ مُکرنیاں ‘‘ کوسنے اورنجانے کن کن ناموں سے تعبیر کیاکرتے تھے ۔
پس‘ حوصلہ کرکے آگے بڑھیں! اور انسانی اَقدار کاپرچم بلند کرتے ہوئے انتہائی خطرناک بیماریوں میں مبتلا تمام قیدیوں کیلئے ایک میڈیکل بورڈ قائم کریں ‘جیلوں کا سروے کرائیں ‘ مُہلک بیماریوں میں مبتلا تمام ضرورت مند مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں داخل کراکے تمام ٹیسٹ مفت کرائیں اورپھر اُن کے خاطر خواہ علاج کا بندوبست کرکے اُن کی دعائیں لیں ۔وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان بُزدار اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیان دے چکے ہیں کہ صوبۂ پنجاب کی جیلوں میں انتہائی خطرناک بیماریوں میں مبتلا مریض قیدیوں کی تعداد چار سو ہے ۔حکومت نے ویسے بھی ''صحت انصاف کارڈ‘‘ کی سکیم شروع کررکھی ہے ‘مُہلک بیماریوں میں مبتلا نادار قیدیوں سے بڑھ کر اورکون اس کا مستحق ہوگا ‘اُنہیں یہ کارڈ جاری کیجیے ‘اللہ تعالیٰ نے مسکین ‘ یتیم اورقیدیوں کو کھلانے کا مدح کے طورپر ذکر فرمایاہے : ''اور اللہ کی محبت میں مسکین ‘ یتیم اورقیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اورکہتے ہیں : ہم تو بس اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلاتے ہیں ‘ ہمیں تم سے کوئی صلہ وستائش نہیں چاہیے‘‘(الدھر:8-9)۔اسی طرح جو لوگ جرمانے یا تاوان اداکرنے کی سکت نہ رکھنے کے سبب طویل قید کی سزا بھگت رہے ہیں ‘ اُن کے جرمانے ادا کرکے رہا کیجیے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے '' پھر وہ دشوار گزار گھاٹی میں کیوں نہ کود پڑا اور تو کیا جانے کہ وہ گھاٹی کیاہے (مالی بوجھ میں پھنسی ہوئی) گردن کو چھڑانا‘‘(البلد:11-12)۔
نواز شریف صاحب کواپنے خرچ پر بیرونِ ملک علاج کرانے کی سہولت دی گئی ہے ‘اگرکوئی اورسزایافتہ یا زیرِ تفتیش قیدی اسی طرح شدید بیمار ہے اور بیرونِ ملک اپنے خرچ پر اپنا علاج کراسکتاہے ‘تو اسے بھی یہ سہولت دیجیے ‘تاکہ نظام امیر وغریب ‘ باوسیلہ و بے وسیلہ سب کے لیے یکساں ہوجائے اورتمام مجبور وبیکس لوگ آپ کی درازی ِعمر بالخیر اور درازی ِاقتدار کی دعائیں کریں ۔بیانات دینا تواُن کا حق بنتاہے ‘ جو حکومت میں نہیں ہیں اور بے اختیار ہیں ‘بااختیار اور برسرِ اقتدار لوگوں کا کام مرثیہ خوانی نہیں ہوتا ‘ چارہ گری ہوتاہے‘ مرض کی نشاندہی نہیں ‘ اُس کا مداوا ہوتاہے ‘زخم کی نمائش نہیں ‘اس پر مرہم رکھناہوتا ہے ‘مگریہاں توساری تگ ودواور کَدو کاوش کا مقصد میڈیا کی رونقیں بڑھانا ہوتاہے۔ نامور تجزیہ کار اورکالم نگار ایاز امیر نے لکھا '' یہ دنیا کی منفرد ممتاز حکومت ہے کہ جس میں کابینہ اورپارٹی اجلاس کی طرح پارٹی اورحکومتی ترجمانوں کے باقاعدہ اجلاس ہوتے ہیں ‘ان اجلاسوں میں یقیناانہیں مخالفین کے لتّے لینے ‘اُن کے بخیے اُدھیڑنے اورانہیں زِچ کرنے کے گُرسکھائے جاتے ہوں گے اوراسی بنیاد پر ان کی ریٹنگ ‘ رینکنگ اور ترقیِ درجات کی منزلیں طے ہوتی ہوں گی۔ سو‘جب مخالفین کی توہین وتضحیک وفا کا پیمانہ قرار پائے تو کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی ‘بلکہ طلاقتِ لسانی ‘ حاضر جوابی اور بڑھ چڑھ کر حریف پر الفاظ کی چاند ماری کا ملکہ ہونا چاہیے ‘زبان سے شعلہ باری کرتے جاؤ اور ترقی کی منزلیں طے کرتے جاؤ‘ کتنا آسان نسخہ ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :'' بیشک ہم نے انسان کو مَشقّت میں رہنے والا پیداکیا ‘‘(البلد :5)۔
وزیر اعظم عمران خان آئیڈیل ازم کی باتیں کرتے ہیں ‘لیکن ہمارے زمینی حقائق کسی انقلاب یا آئیڈیل ازم کے لیے سازگار نہیں ہیں اور حکومت کی ہیئتِ ترکیبی بھی مُتضاد عناصر کا مجموعہ ہے ‘ سب کا ماضی ‘ سَمتِ قبلہ اور ترجیحات جداجدا ہیں ‘ایسے سیٹ اَپ سے صرف وقت گزاری کاکام لیا جاسکتا ہے ‘کوئی جوہری تبدیلی لانا ممکن نہیں ۔ حکومت اپنے لیے مسائل پیداکرنے میں خود کفیل ہے ‘میڈیا میں اُن کے ہمدرد اور غالی مُحِبّین بھی حیران و سرگرداں ہیں۔ہمارا قومی مزاج ایساہے کہ جو ابتلا سے گزر رہاہو ‘لوگوں کو اس سے ہمدردی ہوجاتی ہے ‘ پھر جناب وزیر اعظم کے خطابات سے یہ تاثر ملتاہے کہ اداروں کانظام ان کے انگوٹھے کے نیچے ہے ‘کسی کو اندر باہر کرنا‘پکڑ دھکڑ اور نشانِ عبرت بنانا سب براہِ راست اُن کے قبضہ واختیار میں ہے ‘ ادارے محض تعمیل ِ ارشادکررہے ہیں ۔آئینی اور قانونی نظام اور مضبوط روایات کے حامل ممالک میں ایسا نہیں ہوتا ‘اسی سبب بااختیار ادارے جتنا اب ہدفِ ملامت بن رہے ہیں ‘ ماضی میں کبھی نہ تھے ‘ ماضی میں صرف بااختیار افراد ہدفِ طعن بنتے تھے ‘پورے کے پورے ادارے نہیں ‘اب تو حکومت کی ناکامیاں بھی اہل بندوبست کی طرف منسوب ہوتی ہیں ‘ یہ اچھی اور خوشگوار علامت نہیں ہے۔