ایک زرد رنگ کے دھاگے کی طرح بیل ‘جو ناگن کی طرح درختوں سے چمٹ جاتی ہے اوربغیر جڑ کے اُس درخت سے اپنی خوراک حاصل کرتی ہے‘ آسان الفاظ میں اُس کی رگوں سے خون کشید کرتی ہے‘اسے ''امَر بیل ‘‘اور''عشقِ پیچاں‘‘ بھی کہتے ہیں‘ سائنسی اصطلاح میں ایسے شخص کو طُفیلی اورانگریزی میں ''Parasite‘‘بھی کہتے ہیں۔سو‘فنا نشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) بھی ایک ایسی ہی آکاس بیل ہے‘ جس نے ناگن کی طرح ہمیں جکڑ رکھا ہے ‘ہم ہزار جتن کرکے اپنے آپ کو ان کے معیار پر پورا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ لیکن ہر بار وہ تھپکی دے کر ایک نئی فہرست اورنئی ڈیڈ لائن(خطِ مرگ) ہمیں تھما دیتے ہیں اور یوں یہ مشقِ ستم ایک عرصے سے جاری ہے۔ ہم ہر ڈائیلاگ کے اختتام پر گرے لسٹ سے نکلنے کی آرزو قائم کرتے ہیں‘ لیکن ''اے بساآرزو کہ خاک شدہ!‘‘آخر میں مایوس لوٹنا پڑتا ہے‘ یہ کرب کی وہ کیفیت ہوتی ہے کہ ''نہ مرنے دیں اور نہ جینے دیں‘‘ یعنی نہ بلیک لسٹ کریں اور نہ وائٹ لسٹ میں جانے دیں‘بلکہ مستقل مشتبہ اور زیرنگرانی رکھیں۔ ہمارا تمام مالیاتی نظام آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور ایشیا بینک‘ یعنی امریکااور اس کے اتحادیوں اوراُن کے ذیلی اداروں کی براہِ راست نگرانی میں آچکا۔ محض کسی ادارے کا ایک اکائونٹ کھولنے کیلئے متعلقہ بینک کا مطمئن ہونا کافی نہیں‘ بلکہ سٹیٹ بینک ‘ ایس ای سی پی اور نہ جانے کہاں کہاں سے کلیئرنس لینی پڑتی ہے ؟ سو‘ بالائی سطح پر معیشت کی ڈاکومنٹیشن‘ ٹرانسپیرنسی اور براہِ راست نگرانی کا میکنزم وجود میں آچکا ۔ اس وقت ہم جس شکنجے میں کسے جاچکے ''ڈان لیکس‘‘ اس کے مقابلے میں بہت معمولی چیز تھی اور یہ اس سے بہت آگے کی چیز ہے ‘ لیکن اُس وقت کے اہلِ اقتدار معتوب تھے‘ جبکہ آج کے تخت نشین محبوب ہیں‘ اللہ کرے باہمی محبت کا یہ رشتہ قائم ودائم رہے ۔ہم تاثر یہ دیتے ہیں کہ اب ہم اُن اداروں کی نظر میں صاف شفاف ہیں‘ کلین ہیں ‘ ہمارے دامن پر کوئی دھبّا نہیں ہے‘لیکن اگر ایسا ہی ہے توہمیں کلین چِٹ اور کلیئرنس کیوں نہیں مل پارہی؟سو ‘کچھ تو ہے‘ جس کی پردہ داری ہے۔
اب‘ جبکہ ناگزیر طور پر ہم عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا جزوِ لا ینفک (Integral part)ہیں‘ہم کارپوریٹ کلچر کا حصہ ہیں تو اس کے مطابق ہمیں اپنی معیشت کی اٹھان اور استحکام کے بارے میں سوچنا چاہیے اور ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں‘ لیکن ایسا ہونہیں رہا۔ ہم آئی ایم ایف معاہدے کے تحت اشیائے صَرف (Utilities)کی قیمتیں بڑھانے کے پابند ہیں ‘تاکہ ہم اپنے عوام کی جیبوں سے اتنے پیسے نکال سکیں کہ اُن کی قسطیں ادا کرنے کے قابل ہوجائیں‘ ہمارے طے شدہ اہداف بھی پورے ہوتے نظر نہیں آرہے‘ بلکہ ہدف میں تقریباً تین سو ارب کی کمی کے بعد بھی اس کا پورا ہونا مشکل نظر آتا ہے‘ ایسے میں ہم اپنے عوام کو حقیقی ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کااحساس کفالت پروگرام‘ انصاف صحت کارڈ ‘پناہ گاہیں ‘ یوٹیلٹی سٹورز پراشیائے صَرف کی قیمتوں میں نسبتاً رعایت اور لنگر خانے وغیرہ یہ سب اَشک شوئی کے حیلے ہیں۔ ان کا کارپوریٹ کلچر سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ایسے اقدامات کا فیض معاشرے کے تمام درمیانی اورزیریں طبقات تک پہنچانا آسان کام نہیں ہے‘ اس لیے بے چینی بڑھ رہی ہے ۔
کارپوریٹ کلچر بنیادی طور پرسرمایہ دار قوتوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا کلچر ہے ‘اس میں غریب ونادار سے ہمدردی کا کوئی خانہ نہیں ہے‘ اس کلچر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ معیشت کا پہیا گھومے گا تومعیشت ترقی کرے گی ‘روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے‘ اشیائے صَرف کی مارکیٹ میں رونقیں آئیں گی اور عوام کے چہرے پر خوش حالی چھلکنے لگے گی ‘اس کلچر کے دعوے داروں کا مطالبہ کبھی بھی لنگر خانے کھولنا نہیں ہوتا‘نہ عوام کو مفت خوربنانا ہوتاہے‘بلکہ انہیں محنت کا عادی بنانا ہوتا ہے‘کیونکہ غریب کی محنت سے ہی سرمایہ دار وں کے خزانوں کے ذخیروں میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کا کچھ نہ کچھ تلچھٹ ''قُوت لَا یَموْت‘‘ یعنی بقائے حیات کی حد تک غریبوں کو بھی ملتا رہتا ہے‘ وہ نہ نادار طبقے کو ابھرنے دیتے ہیں اور نہ مرنے دیتے ہیں‘ وہ انہیں اپنی اقتصادی مشین کے فعال پرزے کے طور پر رکھنا چاہتے ہیں۔ بھینسیں‘ کٹّے‘ بکریاں‘ مرغیاں اور انڈے وغیرہ ‘ فوٹو سیشن کے لیے توٹھیک رہتے ہیں‘ لیکن قوموں اور ملکوں کی معیشت کی اٹھان اِن نمائشی اقدامات سے نہیں ہوسکتی ہے۔
آج کل ہم خوش ہیں کہ انڈیا کی نسبت امریکا کا جھکائو ہماری طرف ہے ‘اس خوشی کی کوئی حقیقی وجہ ہماری سمجھ میں نہیں آپائی‘ ہوسکتا ہے یہ ہماری فہم کا نقص ہو۔ انڈیا ‘امریکا کاطویل المدتی (Long Term)پارٹنر ہے‘ وہ ایک بڑی اقتصادی مارکیٹ بھی ہے‘ خود امریکی صدر ٹرمپ نے کہا: '' بھارت اورامریکا کے مابین تجارت کا جھکائو بھارت کی طرف ہے اورخسارے کا حجم تقریباًتیس ارب ڈالر ہے‘ یہ غیر معقول ہے‘ اسے توازن میں لایا جائے ‘‘لیکن پارٹنر بہرحال وہی ہے‘ نیز چین پر چیک رکھنے کے لیے بھارت کا ایک بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت ہونا امریکا اور مغرب کی ضرورت ہے ‘ کیونکہ چین کی اقتصادی اور فنی اٹھان اگر اسی رفتار سے جاری رہی تو وہ آئندہ پندرہ سے پچیس سال میں امریکا کے مقابل کھڑا ہوگا اور اُس کی برتری کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔ اصل حقیقت تو یہ کہ امریکا اس برے وقت سے بچنے کیلئے ساری تدبیریں کر رہا ہے‘ اس میں انڈیا کی نازبرداری بھی شامل ہے۔
ہم خوش ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ نے انڈیا میں ہمارا دوست کی حیثیت سے ذکر کیا‘ مگر ہماری تہتر سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ ہم امریکا کے مستقل سٹریٹجک پارٹنر نہیں ہیں‘ ہمارے ساتھ اس کی دوستی Case to Case مرحلہ بمرحلہ اور Issue to Issueہوتی ہے‘ایسی دوستیاں کبھی پائیدار نہیں ہوتیں‘ جب کسی کو دیا ہوا ٹاسک مکمل ہوجاتا ہے تو اس کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے‘ آئندہ جب ضرورت پیش آئے گی تو معاملہ کرلیا جائے گا۔ الغرض سیٹو اور سینٹو ہوں‘ چین سے امریکا کے سفارتی تعلقات قائم کرانے ہوں‘ جہادِ افغانستان ہو‘ پوسٹ نائن الیون ہو‘دہشت گردی کے خلاف امریکا کے زیر قیادت عالمی جنگ ہویا اب امریکی فوجوں کا افغانستان سے انخلااور افغانستان کاداخلی امن ہو‘ یہ سب وقتی اہداف ہیں‘ اس میں آپ دھوکا دیں گے یا ڈھیل دکھائیں گے ‘تو آپ کی مُشکیں کسی جائیں گی اور اگر آل آئوٹ جائیں گے تو ماضی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اپنی ہی ستّر ہزار جانیںقربان کرنے کے باوجود بے اعتبار قرار پاتے ہیں‘ جبکہ کسی کی فرمائش پوری کرنے کے لیے آج کے جگری دوست کو کل کا جانی دشمن بنانا پڑتا ہے‘ ہماری تاریخ یہی ہے۔ امریکا تو وہ ہے کہ طے شدہ معاہدوں سے‘ حتیٰ کہ پیشگی قیمت ادا کرنے کے باوجود ایف سولہ کے سودے کو منسوخ کردیتا ہے اور ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے‘ ہمیں اسی تنخواہ پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔اس وقت سی پیک پر بھی امریکا کی نظر ہے اور امریکی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز اسلام آباد آکر دو ٹوک الفاظ میں پیغام دے چکی ہیں۔ سو‘ ہمیں ہمیشہ دو کشتیوں پر سوار ہونے کا شوق رہتا ہے اور اسی بنا پر ہمیشہ ڈانواں ڈول رہتے ہیں اور کوئی فریق بھی ہم پر مکمل اعتماد نہیں کرتا۔
کچھ عرصہ پہلے تک تو ہم مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی محصوریت اور حقوقِ انسان کی پامالی اور حقِ وطن سے محرومی کو رو رہے تھے۔ اب‘ ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمان بھارتی ہندوفرقہ پرستوں کی زد میں ہیں‘نہ کاروبار محفوظ ہیں‘ نہ گھر بار محفوظ ہیں‘ نہ مساجد اور مزارات محفوظ ہیں اور نہ کوئی جائے امان ہے‘ کیونکہ پولیس وردی میں اورآر ایس ایس کے غنڈے سول ڈریس میں مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں اور دنیا نے ان کے کھلے مظالم سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں‘ دنیا کی آنکھوں پر مفادات کی پٹی چڑھی ہوئی ہے‘ انسانیت کے دکھ کا درماں کسی کی ترجیحات میں نہیں‘ اگر مسلمانوں کو آخر کار بند گلی میں لے جاکر کھڑا کردیا گیا‘ تو ''مرتا کیا نہ کرتا‘‘کے مصداق انہیں جان پر کھیل کر فیصلہ کُن اقدام کرنا پڑے گا‘ کیونکہ آخر کار ان کے پاس یہی آپشن رہ جائے گا کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے اور یہی وہ مراحل ہوتے ہیں کہ جب پانسے پلٹ جایا کرتے ہیں‘ قدرت کا تازیانۂ عبرت حرکت میں آتا ہے اور فطری عدل روبہ عمل آجاتا ہے۔
اس وقت ہم کاروباری حضرات سے پوچھتے ہیں تو وہ شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہیں ‘معیشت میں جمود ہے‘ کاروبار میں ٹھیرائو ہے‘ بعض کاروبار آفیشل اکانومی کا حصہ نہیں تھے‘ لیکن کچھ لوگوں کا روزگار ان سے وابستہ تھا‘کچھ صنعتیں ان کے ذریعے چل رہی تھیں‘ ان سب کا پہیہ جام ہوچکا ہے اور بے روزگاری کا عفریت منہ پھلائے کھڑا ہے‘ ہوسکتا ہے اقتدار کی راہداریوں میں موجود کچھ لوگ نعمتوں سے مستفید ہورہے ہوں اور ایسا یقینا ممکن ہے‘ لیکن عام معاشرہ بے حال ہے‘ لوگ مایوس ہیں اور انہیں کوئی امید کی کرن نظر نہیں آرہی۔ اس حوالے سے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ کرے ہمارے یہ خدشات غلط ثابت ہوں اورمعیشت کے استحکام کے حوالے سے حکومت کے دعوے سچے ثابت ہوں‘ کیونکہ پاکستان کا مفاد اسی میں ہے‘ لیکن جو کچھ دیوار پر لکھا ہے‘اُسے پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں ۔
جنابِ ظفر اقبال کا شکریہ:ہم نے 8فروری کے کالم میں علامہ اقبال کے فارسی کلام سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں اشعار نقل کیے تھے‘ ان پر جنابِ ظفر اقبال نے تنقیدی نظر ڈالی ‘ اُن کی ایک گرفت درست ہے کہ ''سِرِّ‘‘ کی را پر کسرے کا تلفظ سُن کر ہمارے کمپوزر نے یائے مطوّلہ( ے) لکھ دی جو کہ غلط ہے ‘ نیز آخری مصرعہ یوں ہے: ''چارہ فرما ‘ پئے آزارِ ما‘‘۔ اس میں لفظِ ''پئے‘‘ رہ گیا ہے‘ اسی بنا پر جنابِ ظفر اقبال نے اسے ساقط الوزن قرار دیا‘ جو کہ درست ہے؛البتہ کتاب میں ''چارہ فرما‘‘ کی ہائے مدوّرہ پر ہمزہ ہے‘ جو ہماری نظر میں وزن گرادیتا ہے‘ اسی لیے ہم نے نہیں لکھا‘ وہ اس پر بھی رہنمائی فرماسکتے ہیں‘ بہر حال اُن کا بے حد شکریہ ۔اس معاملے میں وہ ''بَقِیَّۃُ السَّلَف‘‘ ہیں کہ اشعار کی اصلاح کرتے رہتے ہیں ‘ آج کل یہ جوہر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔