شاہنواز فاروقی لکھتے ہیں '' حراری نے اپنے مضمون میں ایک اور اہم بات کہی ہے:'' ہمیں یقینا سائنس پر اعتماد کرنا چاہیے‘ مگر انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات اور اپنے اندر کی انسانیت کو زندہ رکھنے کی ذمے داری ہمیں خود ہی اٹھانا پڑے گی‘ کوئی روبوٹ ہمارے لیے یہ کام نہیں کرے گا‘‘۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس انسان کو قواعد وضوابط کا پابند ایک مشینی شخصیت تو بناسکتی ہے ‘ لیکن انسان کو ایک اخلاقی شخصیت نہیں بناسکتی۔ یہ مذہب ہے ‘جو انسان کو ایک اخلاقی وجود عطا کرتا ہے اور اُسے طاقت کے زعم میں فرعون اور نمرود بننے کی بجائے عبدیت اور عبودیت کا پیکرِ مجسّم بناتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''بدقسمتی سے حراری نہ خدا کو مانتاہے‘ نہ مذہب پر اس کا ایمان ہے‘ اس کے باوجود وہ انفرادی اور اجتماعی اخلاقی ذمے داری کی بات کرتاہے‘بظاہر یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اخلاقیات کا ہر تصور اپنی اصل میں ایک مذہبی تصور ہے؛چنانچہ جو لوگ خدا اور مذہب پر ایمان نہیں رکھتے ‘وہ اخلاق کی بات کرتے ہوئے اچھے نہیں لگتے۔ اخلاقیات پر گفتگو انہی کے لیے زیبا ہے‘ جو خدا اور مذہب کے قائل ہیں۔ بدقسمتی سے مغرب کی جدید فکر اخلاقیات کوایک اضافی چیز سمجھتی ہے‘ اخلاقیات ہر صورت میں مطلق یا مقصدیت کی حامل ہوتی ہے۔ اضافی اخلاقیات یہ ہے کہ اخلاقی اقدار اور اخلاقی تصور وقت اور زمانے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ممکن ہے‘ آج جو حلال ہے‘ کل وہ حرام ہوجائے اور آج جو حرام ہے‘ کل وہ حلال قرار پا جائے۔ اس کے برعکس مطلق اخلاقیات کا مطلب یہ ہے کہ اخلاقی تصورات دائمی ہیں۔ مذہب کا حلال‘ ہمیشہ حلال رہے گا اور مذہب کا حرام ہمیشہ حرام رہے گا۔ ساری دنیا ملکر بھی مذہب کے حلال و حرام کو بدلنے کا اختیار نہیں رکھتی‘ کیونکہ حلال و حرام کا تعین انسان نے نہیں‘ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے‘‘۔
مغرب نے اپنے معاشرے اورنظم ِ اجتماعی کومعاذ اللہ ! ''بے خدا ‘‘بنادیا ہے۔ خالق نے تمام مذاہب میں خمر ‘ خنزیر ‘ربااور زنا بالرضا کو حرام قرار دیا ہے ‘ مغرب نے خالق کے حکم کو ردّ کر کے ان امور کو اپنے نظام میں حلال بنادیا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے صریح بغاوت ہے۔شاہنواز فاروقی نے مغربی مفکرین کے اقوال بھی نقل کیے ہیں‘ ان میں سے چند درج ذیل ہیں: ''نٹشے نے کہا: خدا مرگیا(العیاذ باللہ!) ۔ نٹشے نے تصور کی سطح پر خدا کو مارا‘ مغرب نے فکر وعمل کے ہر دائرے میں خدا کا انکار کردیا‘ اس نے بے خدا معاشرہ تخلیق کیا‘ بے خدا سیاست کو جنم دیا ‘ بے خدا معیشت کو ابھارا‘ اس نے لا مذہب تہذیب پیدا کی۔ کمیونزم کے بانی کارلائل مارکس نے کہا : مذہب عوام کی افیون ہے ‘ روسی رہنما لینن نے کہا: خدا تمہاری طرف ہے‘ کیا خداقدامت پسند ہے‘ شیطان میری طرف ہے ‘وہ بہت اچھا کمیونسٹ ہے۔ایک کمیونسٹ اخبار کے مطابق‘ روسی رہنما سٹالن نے کہا: ہم اہل ایمان سے نہیں لڑ رہے ‘ ہم ملّائوں سے نہیں لڑ رہے‘ ہم خدا سے لڑ رہے ہیں ‘تاکہ ہم اس سے اہلِ ایمان کو چھین سکیں۔ اٹلی کے رہنما مسولینی نے (العیاذ باللہ) خدا کو دھمکی دی کہ اگر تو کہیں موجود ہے تو مجھے مار کر دکھا۔ امریکہ کے صدر جان ایف کینیڈی نے خدا کے ساتھ بڑی رعایت کی اورکہا: امریکا خدا کا ایجنٹ ہے اور اس کے پاس خدا جیسی صلاحیتیں ہیں‘ اس فقرے میں کینیڈی بظاہرخدا کے وجود کو تسلیم کر رہا ہے ‘مگر اس نے امریکہ کو خدائی صلاحیتوں کا حامل قرار دے کر خدا اور امریکا کوبرابر حیثیت دے ڈالی۔ سٹیفن ہاکنگ نے کہا: ''یہ کائنات عدم سے فطری قوانین کے تحت وجود میں آئی ہے اور اس کے خالق کی موجودگی کا کوئی امکان نہیں‘‘ ۔
یہ سب کفریہ کلمات ہیں ‘ ہم نے دل پر پتھر رکھ کر یہ کلمات نقل کیے ہیں‘ تاکہ ہمارے نوجوان علما کو یہ معلوم ہو کہ ہمیں کیسی دنیا کا سامنا ہے اور آج ہمیں کس طرح کا علم الکلام چاہیے ‘ ہم نے انسانیت کو خدا کے وجود کا بھی قائل کرنا ہے اور اس کی حاکمیت ِ مطلقہ اور اقتدارِ اعلیٰ کا بھی قائل کرنا ہے اور یہ بھی بتانا ہے کہ معاذ اللہ ! اللہ تعالیٰ انسان کو پیدا کر کے لا تعلق نہیں ہوگیا ‘ بلکہ اس نے انسان کی تخلیق کا مقصد اپنی بندگی اور معرفت بتایا ہے ‘ زمین پر اس کی الٰہی ہدایت کو قبول کرنے اور نافذ کرنے کی ذمے داری انسان پر ڈالی ہے ۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں پر فضیلتِ آدم کا سبب علم کو بتایااور علم کی فضیلت کی بنا پر انہیں مسجودِ ملائک بنایا ۔ کتبِ الٰہی اور صُحُفِ سماوی کا باقاعدہ ایک تسلسل ہے ‘ نبوت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر سیدنا محمد رسول کریم ﷺ پر آکر ختم ہوئی اور کتب ِ الٰہی کا سلسلہ قرآنِ کریم پر آکر ختم ہوا اور اللہ تعالیٰ نے دین کے اِکمال اور نعمت کے اِتمام کا اعلان ان کلمات میں فرمایا: (۱)''آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا اورتم پر اپنی نعمت کو پورا کردیا اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین پسند کرلیا‘ (المائدہ:3)‘‘(۲) ''بے شک اللہ کے نزدیک (پسندیدہ) دین اسلام ہی ہے ‘‘ (آل عمران:19)۔نبوت ورسالت اور کتبِ الٰہی کا مصدر ومنبع ایک ہے ‘ یہ باہم مربوط نظام ہے ‘ مسلسل ہے ‘ دین کے ارتقا کا سلسلہ جاری رہا ‘تا آنکہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر آکر تکمیل کو پہنچا اور اسی طرح قرآنِ کریم پر کتب ِ سماوی کی تکمیل ہوگئی۔
ہمیں اعتراف ہے کہ آج مسلمانوں میں اخلاق وکردار کی بہت سی خامیاں پیدا ہوگئی ہیں ‘یہ افراد میں بھی ہیں اور نظم ِ اجتماعی میں بھی ‘ اس کا اعتراف کرنے میں ہمیں کوئی جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے ‘ کیونکہ انسان اپنی غلطی کا جب اعتراف کرتا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور نادم ہوتا ہے ‘ تو اس کی اصلاح کا امکان باقی رہتا ہے اور اگر انسان اپنی غلطیوں کا جواز تلاش کرنے لگے تو پھر اس کی اصلاح کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں۔ ہمیں مغرب کی اخلاقی بالادستی کا درس دیا جاتا رہا ہے ‘ لیکن امریکا کے حالیہ فسادات سے معلوم ہوا کہ وحی کے سانچے میں ڈھلا ہوا مومن اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے اور قانون کے سانچے میں ڈھلا ہوا اپنے آپ کو صرف قانون کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے اور اگر قانون کی آنکھیں اورکان بند ہوجائیں تو اس کے بندھن بھی کھل جاتے ہیں اور امریکا میں حالیہ لوٹ مار اس کا بیّن ثبوت ہے۔شاہنواز فاروقی لکھتے ہیں ''نوح حراری نے کہا ہے کہ اس وقت ہماری امیدیں پروہتوں‘ پادریوں اور راہبوں سے نہیں ‘ڈاکٹروں اور نرسوں سے وابستہ ہیں۔ یہی ہمارے ہیرو ہیں‘ ہمارے سپر ہیرو‘ ہمارے وہ سائنس دان ہیں‘ جو تجربہ گاہوں میں کورونا کا توڑ ڈھونڈ رہے ہیں‘ لوگوں کو یقین ہے کہ سپرمین یا سپائیڈر مین کی طرح کوئی کردار بالآخر دنیا کو بچالے گا۔ اس وقت سوال یہ نہیں کہ ویکسین کیسے بنے گی ‘بلکہ سوال یہ ہے کہ ویکسین کب بنے گی؟ کورونا کی ویکسین کی کہانی دلچسپ اور اہم ہے۔ کورونا کی وبا سامنے آئی تو کہا گیا ویکسین تین ماہ میں آجائے گی‘ پھر کہا گیا:چھ ماہ میں آجائے گی‘پھرمدت ایک سال تک بڑھا دی گئی ‘ اب عالمی ادارۂ صحت کہہ رہا ہے کہ ممکن ہے کورونا کی ویکسین جلد آجائے یاکبھی نہ آئے‘ کورونا کی ویکسین کے حوالے سے سائنس یا سائنس دانوں نے اتنے بیانات بدلے ہیں کہ ان سیاست دان ہونے کا گمان ہونے لگا ہے‘ اس کے باوجود سائنس اور سائنس دانوں کی توقیر میں کوئی کمی نہیں آئی‘ اگر مذہبی لوگوں نے ایک مسئلے کے بارے میں اتنے بیانات بدلے ہوتے تو کئی لوگوں کو اہل مذہب سے نفرت ہوگئی ہوتی‘ وہ کہتے اہل ِمذہب تو ہوتے ہی جھوٹے ہیں‘‘۔
ہمارے ہاں کے تجدُّد پسند جب مذہب کی تضحیک کرنا چاہتے ہیں تو مذہب کو براہِ راست نشانہ نہیں بناتے‘ کیونکہ اس پر شدید ردِّعمل آسکتا ہے‘ وہ عیاری کے ساتھ حاملینِ مذہب اور شعائرِ دین کا مذاق اڑائیں گے‘ جس سے یہ تاثر دینا ہوتا ہے کہ مذہب عقلیت پسندی‘ علم اور سائنس کی ضد ہے۔ یہ مذہب کی باطل تعبیر ہے اور سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرنے کے ہتھکنڈے ہیں۔حال ہی میں مساجد کو عبادت کے لیے کھلا رکھنے کی خاطر ہم نے ایک مفصل اور مربوط ایس او پی پر اتفاق کیا اور اپنے عمل سے ظاہر کیا کہ ہم احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے قائل ہیں‘ مذہب انسانیت کے لیے مفید کسی علمی بات کی نفی نہیں کرتا‘ مذہب علم اور سائنس کی ضد نہیں ہے ‘ مذہبی عقائد ماورائے عقل تو ہوسکتے ہیں ‘خلافِ عقل نہیں ہوسکتے۔ پس‘ ہمارے متجددین کی طرح حراری نے بھی وہی طنز کیا کہ ''کورونا وائرس کی وبا کے زمانے میں لوگ پادریوں اور راہبوں یا یہودی ربیوں کی طرف نہیں دیکھ رہے‘ بلکہ ڈاکٹروں اور نرسوں کی طرف دیکھ رہے ہیں‘‘تو کس نے کہا کہ تدبیر اور علاج مذہب کی ضد ہے‘ طبِّ نبوی کے عنوان پر کتابیں موجود ہیں ‘جورسول اللہ ﷺ نے اُس عہد کے اعتبار سے اختیار کیں اور صحابۂ کرام کو تعلیم فرمائیں‘ اسی طرح دعا دوا کی ضد نہیں ہے ‘بلکہ ان کی مثال ریلوے ٹریک کی دو متوازی پٹریوں کی طرح ہے‘ جن پر ٹرین چل کر منزل تک پہنچتی ہے۔ دین دار اور مادّہ پرست میں فقط یہ فرق ہے کہ مادہ پرست دوا اور طبیب کو مؤثر بالذات مانتا ہے اور دین دار انہیں اسباب کا درجہ دیتا ہے اور مشیتِ الٰہی کو مؤثر بالذات مانتا ہے‘ اللہ کا حکم ہوتا ہے تو دوا موثر ہوتی ہے ‘ ورنہ آج بھی کورونا وائرس کے بعض مریض ہسپتال سے شفایاب ہوکر نکلتے ہیں اور بعض قضائے الٰہی سے فوت ہوجاتے ہیں۔الغرض تمام تر اسباب کے باوجود اصل حاکم اللہ ہے اور مخبر صادق ﷺ نے فرمایا: ''دعا قضا کو ٹال دیتی ہے‘‘ (ترمذی:2139)۔
عالم اسباب میں ہر شخص جانتا اور مانتا ہے کہ میدان جنگ میں فتح ونصرت مجاہدین کی جرأت وحوصلے اور جذبۂ قربانی سے ملتی ہے‘ لیکن مجاہدین ایک غزوے سے واپس آرہے تھے ‘بشری تقاضے کے تحت وہ فتح کے جذبے سے سرمشار تھے اور یہ گمان کر رہے ہیں کہ ان کی بدولت فتح نصیب ہوئی ہے‘ اس موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا: '' تمہیں رزق اور نصرت کمزوروں کی (دعائوں کے) سبب نصیب ہوتی ہے‘‘ (ترمذی:1702)۔