ہمارا شعار یہ ہے کہ کوئی کامیابی ملے تو اُس کا کریڈٹ خود لیتے ہیں اور ناکامی سے دوچار ہونا پڑے تو اُس کا ملبہ کسی اور پر ڈالتے ہیں، مثلاً: ہمارے حکمران کہتے ہیں:ہماری حکمتِ عملی سے کورونا کنٹرول ہوا،مگر اقتصادی میدان میں ناکامیوں کی ذمہ داری اپنے سر لینے کے بجائے اپنے سابقین پر ڈال کر عہدہ برآ ہوجاتے ہیں، جبکہ قرآنی تعلیمات یہ ہیں:
(۱)''تم کو جو اچھائی پہنچتی ہے، سو وہ اللہ کی جانب سے ہے اور تم کو جو برائی پہنچتی ہے، وہ تمہاری ذات کی وجہ سے ہے‘‘ (النسآئ:79)، (۲)''اور تم کو جو مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی (یعنی کرتوتوں) کا نتیجہ ہے اور بہت سی باتوں کو تو وہ معاف فرمادیتا ہے‘‘ (الشوریٰ:30)، یعنی قرآن تعلیم فرماتا ہے کہ کامیابی کو اللہ کا فضل سمجھو، محض اپنی تدبیر پر نہ اترائو اور ناکامی کی ذمہ داری قبول کرو، کیونکہ جب تک ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے کا رویہ ہمارے اندر پیدا نہیں ہوگا، ہم کبھی بھی اپنی کمزوریوں کی اصلاح نہیں کرپائیں گے۔ کفار کا شعار یہ بھی تھا کہ ناکامیوں کو انبیائے کرام کی طرف منسوب کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''اور اگر ان (یہودیوں)کو کچھ اچھائی پہنچے تو کہتے ہیں: ''یہ اللہ کی جانب سے ہے ‘‘اور (اے رسولِ مکرم!)اگر اُن کو کچھ برائی پہنچے توکہتے ہیں:''یہ آپ کی طرف سے ہے‘‘، آپ کہیے: ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے‘‘ (النسآئ:78)۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''(اے رسولِ مکرم!)اگر آپ کو(آسمانی مدد یا مالِ غنیمت کی صورت میں) کوئی بھلائی پہنچے تو اُن کو برا لگتا ہے اور اگر آپ کو کوئی مصیبت پہنچے تو کہتے ہیں: ''ہم نے تو پہلے ہی احتیاط کرلی تھی (کہ جہاد میں نہیں گئے) اور یہ خوشیاں مناتے ہوئے لوٹتے ہیں، آپ کہیے: ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچتی ماسوا اُس کے جو اللہ نے ہمارے لیے مقدر کردی ہے، وہی ہمارا مددگار ہے اور ایمان والوں کو اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے‘‘ (التوبہ:50تا51)۔ نیز فرمایا: ''اور جب ہم انسان کو کوئی انعام دیتے ہیں تو وہ (ناشکری کرتے ہوئے)منہ پھیر لیتا ہے اور پہلوتہی اختیار کرتا ہے اور جب اُسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو مایوس ہوجاتا ہے‘‘ (بنی اسرائیل: 83)۔ اور فرمایا:پس جب انسان کو اس کا رب عزت اور نعمت دے کر آزمائے تو وہ کہتا ہے:''میرے رب نے مجھے عزت دی ‘‘ اور جب اس کا رب اس کو (مصیبت میں مبتلا کر کے)آزمائے اور اس پر اس کا رزق تنگ کردے تو وہ کہتا ہے: ''میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا‘‘ (الفجر:15تا16)۔
ہمارے ہاں جب انتخابات ہوتے ہیں تو اس میں حصہ لینے والی ہر جماعت اس دعوے کے ساتھ اقتدار میں آتی ہے کہ ملک جن مشکلات میں گرفتار ہے، ہم اُسے اِن سے نکالیں گے، ملک وقوم کو تنزُّل کی گھاٹی سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کریں گے، پھر جب ایک جماعت کو انتخابات کے نتیجے میں حکومت مل جاتی ہے، تو اُس کا کام یہ نہیں ہے کہ ماضی کے حکمرانوں کی ناکامیوں کا مرثیہ پڑھتی رہے، کیونکہ آپ کو اقتدار اسی لیے عطا کیا گیا ہے کہ آپ ملک وقوم کو پستی سے نکالیں اور بلندیوں کی طرف لے جائیں، لیکن اگر ڈھائی سالہ حکمرانی کے بعد بھی حاکمِ وقت ماضی کے حکمرانوں کی ناکامیوں اور خرابیوں کی مارکیٹنگ کر کے اپنا جواز ثابت کریں تو یہ اچھا شعار نہیں ہے۔ آج کے حکمرانوں پر لازم ہے کہ اپنی کامیابیاں گنوائیں اور اپنے عوام پر اعتماد کریں کہ اُن میں اچھائی اور برائی، نیکی اور بدی، تنزُّل اور ترقی میں تمیز کی صلاحیت موجود ہے، لوگ تقابل کر کے خود ہی فیصلہ کرلیں گے اور اگر آپ سابقین کے مقابلے میں بہتر ثابت ہوئے ہیں تو دوبارہ آپ کو بخوشی اقتدار پر فائز کریں گے، جمہوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے‘ ورنہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی نظر میں امریکہ کے تمام صدور سے افضل واعلیٰ تھے، انہوں نے سفید فام نسلی عصبیت کو بھی انتہا پر پہنچادیا اورامریکہ میںفاشزم کے خلاف نعرے لگنے لگے۔ ٹرمپ نے 2016ء کے انتخابات کے مقابلے میں زیادہ ووٹ لیے لیکن امریکی عوام نے ووٹ کی شرح کوامریکی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچا کر ٹرمپ کو ناکامی سے دوچار کردیا، جوزف بائیڈن نے الیکٹورل ووٹ بھی نمایاں برتری کے ساتھ حاصل کیے اور پاپولر ووٹ بھی بڑے مارجن کے ساتھ انہیں ملا اورٹرمپ کے لیے صورتِ حال یہ بنی :
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریٔ دل نے، آخر کام تمام کیا
ابتدا میں ٹرمپ نے دھاندلی کے الزامات لگاکر 2020کے انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، اپنے فریقِ مخالف جوزف بائیڈن کی کامیابی کو تسلیم (Concede)نہ کرنے اعلان کیا، ہر طرف ہاتھ پائوں مارے، ریپبلکن پارٹی کو اپنی حمایت میں میدان میں لانے کے لیے بڑے جتن کیے، لیکن چونکہ امریکی ادارے، اُن کی روایات اور نظام مضبوط ہے، اس لیے بالآخر وہ ڈھیر ہوگئے اور جوبائیڈن کوبادلِ نخواستہ اقتدار کی منتقلی پر آمادہ ہوگئے۔ اب امریکی میڈیا بتارہا ہے کہ وہ اپنی ذات، اپنی بیٹی، داماداوردیگر مقرّبینِ خاص کی بے اعتدالیوں پر اپنی مدت کے اختتام سے پہلے خصوصی صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے معافی دینے کی سوچ رہے ہیں، اسی کو ہماری سیاسی اصطلاحی میں این آر او کہتے ہیں، یعنی ٹرمپ کو اندیشہ ہے کہ وائٹ ہائوس سے باہر آتے ہی قانون اُن کا تعاقب کرے گا۔ اگرچہ انہوں نے اپنی ضدی اور انتہا پسندانہ طبیعت کی وجہ سے اپنے بعض فیصلوں کو نافذ بھی کیا، ان میں بعض ہماری نظر میں پسندیدہ ہیں، جیسے افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی، طالبانِ افغانستان کے ساتھ امن معاہدہ کہ امریکی افواج کا انخلا اُس کا جزوِ لازم قرار پایا، نیز اشرف غنی حکومت کو طالبان کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور کیا۔ بعض فیصلے جو ہماری نظر میں نامناسب ہیں، ان میں ایران کے گرد حصار کاانتہائی حد تک تنگ کیا جانا، جس کے نتیجے میں ایرانی قوم بے انتہا مشکلات میں ہے، نیز چین کے خلاف اقتصادی جنگ چھیڑنابھی اس میں شامل ہے۔ اب ظاہر ہے کہ نئے صدر جوبائیڈن ان تمام امور کا جائزہ لیں گے، اپنی حکمتِ عملی مرتّب کریں گے اور کانگریس کو اعتماد میں لے کر تبدیلی کی راہ ہموار کریں گے۔ سرِ دست منتخب صدر جوبائیڈن نے اسی کو بہت بڑی کامیابی قرار دیا ہے کہ آئندہ چار سال کے لیے امریکا کو ٹرمپ کے جنونی تسلط سے نجات مل گئی ہے؛ اگرچہ ٹرمپ 2024ء کے انتخابات میں شرکت کا ابھی سے اعلان کر رہے ہیں۔
وطنِ عزیز میں اپوزیشن نے حکومت کے خلاف تحریک شروع کر رکھی ہے اور تاثّر یہ دے رہے ہیں کہ آئندہ ایک دو ماہ میں حکومتِ وقت رخصت کردی جائے گی، لیکن دستیاب منظر نامے میں ہمیں اس دعوے میں کامیابی کے نہ امکانات نظر آرہے ہیں اور نہ کوئی ایسی علامات قومی سیاسی منظر نامے پر موجود ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں حکومتوں کی قبل از وقت تبدیلی یا رخصتی کسی جمہوری یا انقلابی تحریک کا نتیجہ نہیں ہوتی، بلکہ کچھ غیبی قوتیں کرشمے دکھا دیتی ہیں، جبکہ بظاہر سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ نظر آرہے ہیں، واللہ اعلم! حقیقت بھی یہی ہے یا یہ محض فریبِ نظر ہے۔ حقیقت جو کچھ بھی ہو، ہمارا ملک کسی محاذ آرائی اور تصادم کا متحمل نہیں ہوسکتا، معیشت غیر مستحکم ہے، سیاسی پولرائزیشن یعنی انتشار کی کیفیت ہے، اس میں سب سے زیادہ وقت کے صاحبانِ اقتدار کو محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ وہ اقتدار کی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں، اس کے برعکس محرومِ اقتدار حزبِ اختلاف کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، وہ اس موہوم امید پر میدانِ عمل میں مصروف رہتے ہیں کہ یاتو کامیابی مل جائے گی، ورنہ جہاں ہیں، وہیں رہیں گے۔
لمحۂ موجود میں صاحبِ تخت وتاج کو یہ باور کرلینا چاہیے کہ ملک کو انتشار سے بچانے اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کی اصل ذمہ داری اُس پر عائد ہوتی ہے، مستقبل کا مؤرّخ اس عہد کی کامیابیوں اور ناکامیوں کو انہی کی طرف منسوب کرے گا؛ اگرچہ سرِدست دوسروں کو ساری ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دے کرکام چلا یا جارہا ہے۔ ٹرمپ کی عبرتناک مثال ہمارے سامنے ہے کہ سات کروڑ سے زائد پاپولر ووٹ لینے کے باوجود وہ آج نشانِ عبرت بنے ہوئے ہیں اور انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہااورامریکی روایات کے مطابق باعزت انتقالِ اقتدار اُن کے مزاج کا حصہ نہیں ہے، اُن کی نفسیات کے مطابق وہ اور صدارت لازم وملزوم ہیں۔
میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ طالبانِ افغانستان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے لیے ابتدائی معاہدہ ہوگیا ہے، افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد اور پاکستانی وزارتِ خارجہ نے اس کا خیر مقدم کیا ہے اور سب کو نہ صرف خیر مقدم کرنا چاہیے، بلکہ اس کی کامیابی کے لیے دعائیں کرنا چاہئیں؛ تاہم ہم نے اس معاہدے کی تفصیلات جاننے کی کوشش کی تو فقط اتنا معلوم ہوا کہ تفصیلی مکالمے کے لیے طریقۂ کار اور ایجنڈے پر اتفاق ہوا ہے، شاید کسی حکمت کے تحت اس کو شائع نہیں کیا گیاتاکہ مخالف قوتیں اسے وقت سے پہلے سبوتاژ نہ کر دیں، اگر اسے کسی حکمت کے تحت اخفا میں رکھا گیا ہے، تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہے، لیکن بادی النظر میں امریکی افواج کا انخلا کافی تیزی سے ہورہا ہے، کہا جاتا ہے کہ بہت سے اڈے جو امریکی افواج کے قبضے میں تھے‘ خالی کردیے گئے ہیں اور ان کے اختیارات افغان حکومت کی دفاعی افواج کے ہاتھ میں دے دیے گئے ہیں اور اب امریکی موجودگی علامتی رہ جائے گی۔ ہماری نظر میں طالبانِ افغانستان کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور اس مہم کو سر کرنے میں حکومت پاکستان، وزارتِ خارجہ، ہمارے دفاعی اورانٹیلی جنس اداروں کا بہت بڑا کردار ہے اور یقیناہمارے روایتی دشمن بھارت کے علاوہ تمام اقوام اسے سراہیں گی اور اس میں سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے مُمِدّومُعاون ثابت ہوں گی۔ حال ہی میں فن لینڈ میں آئندہ چار سال کے لیے افغان حکومت کو جو بارہ ارب ڈالردینے کے وعدے کیے گئے ہیں، اُس میں بھی امریکہ نے نصف امداد کو بین الافغان مذاکرات کی کامیابی سے مشروط کیا تھا اور یہ ایک طرح سے اشرف غنی حکومت کے لیے واضح پیغام تھا کہ وہ مذاکرات میں سنجیدگی اختیار کرے اور ٹال مٹول کی پالیسی ترک کرے۔