اچھا یا بُرا خواب دیکھنے کی صورت میں نبی کریمﷺ نے کچھ مسنون اعمال کی تعلیم ارشاد فرمائی ہے: (1) '' نبیﷺ فرمایا: ''جب تم میں سے کوئی شخص ایسا خواب دیکھے جو اُسے پسند ہو تو وہ اللہ کی جانب سے ہے، وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے اور وہ اس خواب کو بیان کرے اور جب وہ کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو وہ شیطان کی طرف سے ہے، وہ اس کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرے اور وہ خواب کسی کے سامنے بیان نہ کرے، پھر وہ خواب اس کو ضرر نہیں دے گا‘‘ (صحیح بخاری:6984)، (2) ''نیک خواب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں اور برے خواب شیطان کی طرف سے ہیں، پس جب کوئی شخص ناپسندیدہ خواب دیکھے تو اپنی بائیں جانب تین مرتبہ تھوک دے اور شیطان سے پناہ طلب کرے، تو پھر وہ خواب اس کو ضرر نہیں دے گا اور شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا‘‘ (صحیح بخاری:6995)، (3) ''جب تم میں سے کوئی شخص کوئی برا اور ناپسندیدہ خواب دیکھے تو وہ تین مرتبہ تھتکار دے اور شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے اور جس کروٹ پر پہلے تھا، اس کروٹ کو بدل دے‘‘ (صحیح مسلم:2262)۔
احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کا اچھا خواب اس کے لیے نہ صرف بشارت ہوتا ہے بلکہ نبوت کا چھیالیسواں حصہ بھی ہوتا ہے۔ حضرت عبادہؓ بن صامت بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ سے قرآنِ مجید میں مذکور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق سوال کیا: اُن کے لیے دنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے (یونس:64)، آپﷺ نے فرمایا: ''یہ خوشخبری نیک خواب ہیں‘ جن کو مومن دیکھتا ہے یا مومن کو دکھائے جاتے ہیں‘‘ (سنن ترمذی:2275)، آپﷺ نے فرمایا: ''صالح آدمی کا اچھا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے‘‘ (صحیح بخاری:6983)۔
نبوت کا سلسلہ نبی کریمﷺ پر ختم ہو چکا ہے، آپﷺ کے بعد ظلّی و بروزی کسی قسم کا کوئی نیا نبی نہیں آ سکتا، البتہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کے بعد صرف مُبَشِّرَات یعنی اچھے خواب باقی رہ گئے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: نبوت میں سے صرف مُبَشِّرَات باقی رہ گئے ہیں، صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! مُبَشِّرَات کیا ہیں؟ فرمایا: مومن کے اچھے خواب‘‘ (صحیح بخاری:6990)۔ آپﷺ نے فرمایا: ''بے شک رسالت ونبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، پس میرے بعد کوئی رسول اور کوئی نبی نہیں ہے، یہ بات صحابہ کرام پر دشوار ہوئی تو اُنہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! مُبَشِّرَات کیا ہیں، آپﷺ نے فرمایا: صالح مسلم کا خواب جوکہ نبوت کے اجزا میں سے ایک جز ہے‘‘ (سنن ترمذی: 2272)۔ احادیث میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ سب سے سچا خواب اس مومن بندے کا ہوتا ہے جو اپنی گفتگو میں سچا ہو۔ آپﷺ نے فرمایا: ''تم میں سب سے زیادہ سچے خواب والا وہ ہے جو تم میں گفتگو کے اعتبار سے سب سے سچا ہو‘‘ (مسند احمد: 7642)۔ بعض احادیث میں ہے: ''صالح مؤمنین کو قربِ قیامت میں سچے خواب نظر آئیں گے، آپﷺ نے فرمایا: ''جب قیامت کا وقت نزدیک ہو گا تو نیک مومن کا خواب جھوٹا نہیں ہو گا‘‘ (صحیح بخاری:7017)۔
احادیث میں نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام کے بعض خوابوں اور ان کی تعبیرات کا ذکر موجود ہے، جن میں چند حسبِ ذیل ہیں:
(1): رسول اللہﷺنے فرمایا: ''جب میں سویا ہوا تھا تو مجھے (خواب میں) دودھ کا پیالہ دیا گیا، میں نے اس سے دودھ پی لیا حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ میرے ناخنوں سے سیرابی نکل رہی ہے، میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمرؓ بن خطاب کو دے دیا، آپﷺ کے گرد بیٹھے ہوئے صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! اس کی تعبیر کیا ہے، آپﷺ نے فرمایا: علم‘‘ (صحیح بخاری: 7007)، (2) آپﷺ نے فرمایا: ''جس وقت میں سویا ہوا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ قمیص پہنے ہوئے میرے سامنے پیش ہو رہے ہیں، بعض کی قمیص سینوں تک تھی، بعض کی اس سے بھی کم تھی، پھر عمرؓ بن خطاب آئے اور ان کی قمیص پیروں کے نیچے گھسٹ رہی تھی۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! اس کی تعبیر کیا ہے؟ فرمایا :دین‘‘ (صحیح بخاری: 7008)، (3) نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''میں نے خواب میں ایک سیاہ فام عورت کو دیکھا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے‘ وہ مدینہ سے باہر نکلی اور جُحْفَہ میں جا کر ٹھہر گئی، میں نے اس کی یہ تعبیر نکالی کہ مدینہ کی وبا جُحْفَہ کی طرف منتقل کر دی جائے گی‘‘ (صحیح بخاری: 7038)۔ (4) نبیﷺ نے فرمایا: ''میں مکہ سے ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جس میں کھجور کے درخت ہیں، مجھے یہ گمان ہوا کہ یہ جگہ یمامہ یا ہَجَر ہے، لیکن وہ مدینہ یثرب تھی اور میں نے اس میں گائے کو دیکھا اور اللہ کی قسم خیر کو دیکھا، گائے سے مراد وہ ہے کہ جنگ اُحد میں جب مسلمانوں نے کفار کے حملے سے بھاگنے کا ارادہ کیا تھا اور خیر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ جنگ بدر میں (فتح) لایا تھا‘‘ (صحیح بخاری:7035)۔ (5) نبیﷺ نے فرمایا: ''میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے تلوار کو لہرایا تو اس کا اگلا حصہ ٹوٹ گیا اور اس کی تعبیر وہ تھی جو جنگ اُحد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی، پھر میں نے دوبارہ تلوار کو لہرایا وہ پہلے سے اچھی حالت میں آگئی اور اس کی تعبیر وہ تھی جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا کی تھی اور مسلمان مجتمع ہوگئے تھے‘‘ (صحیح بخاری: 7041)۔ (6) ''حضرت ام علاء انصاریہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ''میں نے رسول اللہﷺ سے بیعت کی، پھر جب مہاجرین کی رہائش کے لیے انصار نے قرعہ اندازی کی تو رہائش کے لیے حضرت عثمانؓ بن مظعون ہمارے حصہ میں آ گئے، وہ بیمار پڑ گئے، ہم نے ان کی تیمارداری کی، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے اور فوت ہو گئے، ہم نے ان کو کفن میں لپیٹ دیا۔ رسول اللہﷺ تشریف لائے، تو میں نے کہا: اے ابو السائب! تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تمہاری تکریم فرمائے گا۔ آپﷺ نے پوچھا: تمہیں یہ کیسے پتا چلا؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ کی قسم! میں نہیں جانتی۔ آپﷺ نے فرمایا: رہے عثمان بن مظعون! تو ان پر موت آ چکی ہے اور میں اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے خیر کی توقع کرتا ہوں اور اللہ کی قسم! میں ازخود نہیں جانتا، حالانکہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ حضرت ام العلاء نے کہا: پس اللہ کی قسم! اس کے بعد میں نے کسی کی ستائش نہیں کی، انہوں نے کہا: میں نے خواب دیکھا کہ حضرت عثمانؓ کے لیے ایک چشمہ بہہ رہا ہے۔ میں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس خواب کا ذکر کیا، آپﷺنے فرمایا: اس سے مراد اس کا جاری رہنے والا عمل ہے‘‘ (صحیح بخاری:7018)۔
(7) حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں: ''ایک شخص نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: میں نے آج رات یہ خواب دیکھا ہے کہ ایک سائبان سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے، میں نے دیکھا کہ لوگ اس کو ہتھیلیوں میں جمع کر رہے ہیں، بعض لوگ زیادہ جمع کر رہے ہیں اور بعض کم اور میں نے دیکھا کہ آسمان سے زمین تک ایک رسی پہنچ رہی ہے، میں نے دیکھا کہ آپﷺ اس رسی کو پکڑ کر اوپر چڑھنے لگے، پھر ایک شخص نے اس رسی کو پکڑا اور اوپر چڑھ گیا، پھر دوسرا شخص اس رسی کو پکڑ کر اوپر چڑھا، پھر تیسرے شخص نے رسی کو پکڑا اور وہ بھی چڑھ گیا، اس کے بعد چوتھے نے وہ رسی پکڑی تو وہ ٹوٹ گئی، لیکن پھر رسی جڑ گئی۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! آپﷺ پر میرا باپ قربان ہو، قسم بخدا! اس خواب کی تعبیر بتانے کی آپ مجھے اجازت دیں۔ نبیﷺنے فرمایا: تم تعبیر بیان کرو، حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: اس سائبان سے مراد اسلام ہے اور جو شہد اور گھی سائبان سے ٹپک رہا تھا، وہ قرآن مجید اور اس کی حلاوت ہے، پس بعض لوگ زیادہ قرآن مجید حاصل کرتے ہیں اور بعض کم اور وہ رسی جو آسمان سے زمین تک پہنچ رہی ہے، اس سے مراد وہ حق ہے جس پر آپﷺ قائم ہیں، آپﷺ اس پر حق کے ساتھ عمل کرتے رہیں گے، پھر اللہ آپﷺ کو اپنے پاس بلا لے گا، پھر آپﷺ کے بعد ایک اور شخص اس پر عمل کرے گا اور مرتے دم تک اس پر قائم رہے گا، اس کے بعد دوسرا شخص آئے گا، وہ بھی مرتے دم تک اس پر قائم رہے گا، پھر تیسرا شخص آئے گا، اس کا بھی یہی حال ہو گا، پھر چوتھا شخص آئے گا جب وہ حق کو تھامے گا تو وہ حق منقطع ہو جائے گا، پھر اس شخص کے لیے دوبارہ جوڑ دیا جائے گا اور وہ اس پر عمل کرے گا۔ یا رسول اللہﷺ! آپ پر میرا باپ فدا ہو، مجھے یہ بتائیے کہ میں نے صحیح تعبیر کی ہے یا غلط؟ نبیﷺ نے فرمایا: تمہاری بعض تعبیر صحیح ہے اور بعض غلط، حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اللہ کی قسم آپ مجھے ضرور بتائیے: میں نے کیا غلطی کی ہے، آپﷺ نے فرمایا :قسم مت کھائو‘‘ (صحیح بخاری:7046)۔
خواب کی تعبیر بتانا ہر شخص کا کام نہیں ہے اور نہ ہر عالم خواب کی تعبیر بتا سکتا ہے، خواب کی تعبیر بتانے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں خواب کی جو تعبیریں بیان کی گئیں ہیں ان پر عبور ہو، الفاظ کے معانی، ان کے کنایات اور مجازات پر نظر ہو اور خواب دیکھنے والے کے احوال اور اس کے معمولات سے واقفیت ہو، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ شخص متقی اور پرہیزگار ہو، عبادت گزار اور شب زندہ دار ہو، کیونکہ یہ وہبی علم ہے اور جب تک کسی شخص کا دل گناہوں کی کثافت کی آلودگی سے پاک اور صاف نہ ہو، اس وقت تک اس کا دل محرمِ اسرار الٰہیہ نہیں ہوگا۔ اس علم کے ماہرین نے اس موضوع پر کتابیں بھی لکھی ہیں، ان میں امام ابن سیرین کی تعبیر الرویا اور علامہ عبدالغنی نابلسی کی تعبیر المنام بہت مشہور ہیں۔ مناسب یہ ہے کہ علمائے کرام ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد خواب کی تعبیر بتائیں اور محض اٹکل پچو سے خواب کی تعبیر بتانے سے گریز کریں۔
بعض لوگوں کو جھوٹے خواب بیان کرنے کا بڑا شوق ہوتا ہے، حالانکہ حدیث میں اس پر سخت وعید آئی ہے: نبیﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے ایک خواب بیان کیا جس کو اس نے نہیں دیکھا، اس کو (قیامت کے دن) دو جو کے درمیان گرہ لگانے کا حکم دیا جائے گا اور وہ ان میں ہرگز گرہ نہیں لگا سکے گا اور جس شخص نے کچھ لوگوں کی باتیں کان لگا کر سننے کی کوشش کی جبکہ وہ اس کو ناپسند کرتے ہوں یا اس سے بھاگتے ہوں، قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا اور جس شخص نے تصویر بنائی اس کو عذاب دیا جائے گا اور اس کو اس بات کا مکلف کیا جائے گا کہ وہ اس میں روح پھونکے اور وہ اس میں ہرگز روح نہیں پھونک سکے گا‘‘ (صحیح بخاری: 7042)۔ (ختم)