گناہوں اور نافرمانیوں کے علاوہ بعض مصیبتیں اور پریشانیاں آزمائش وامتحان کے طور پر بھی آتی ہیں، جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش فرماتا ہے تاکہ کھوٹے کوکھرے سے ممتاز فرما دے۔ انبیائے کرام و رسلِ عظام اور دیگر صالحین اہلِ ایمان‘ جنہیں اللہ تعالیٰ گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے‘ اُن پر آنے والے مصائب وآلام اور تکالیف وابتلائیں اِسی نوع سے تعلق رکھتی ہیں؛ چنانچہ اُن پر مصائب وتکالیف اس لیے آتی ہیں تاکہ اُن کے درجات بلند ہو جائیں اور اُن کے صبر وحوصلے اور ہمت واستقامت کو دیکھ کر دیگر مصیبت زدہ اہلِ ایمان کو سکون میسر آئے اور اُن میں بھی صبر کا حوصلہ اور جذبہ پیدا ہو۔ اہلِ ایمان میں سب سے سخت تر آزمائش انبیائے کرام کی ہوتی ہے اور اُن پر جو مصیبتیں اور تکلیفیں آتی ہیں وہ عام لوگوں پر آنے والی تکالیف کی نسبت دُگنی ہوتی ہیں، پھرجو شخص جتنا زیادہ نیک و صالح اور اپنے دین میں متصلّب ہوتا ہے اور انبیائے کرام کے نزدیک اور قریب ہوتا ہے، اُس کی آزمائش اُتنی ہی زیادہ سخت ہوتی ہے۔
احادیثِ مبارکہ میں ہے:(۱)'' حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی کریمﷺ سے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! سب سے سخت آزمائش کن لوگوںکی ہوتی ہے؟ آپﷺنے فرمایا:سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیائے کرام کی ہوتی ہے، پھر جو اُن کے بعد مرتبے میں انبیائے کرام کے جتنے نزدیک ہوتے ہیں، آدمی کو اس کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے، پس اگر وہ دین میں سخت ہوتا ہے تو اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں کمزور ہو تو اُسی کے مطابق اُس کی آزمائش ہوتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اُس پرکوئی گناہ نہیں ہوتا‘‘ (سنن ترمذی: 2398)، (۲)''حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نبی کریمﷺ کی خدمت میںحاضر ہوا، اُس وقت آپﷺ بخار میں تپ رہے تھے، آپ کے جسم اقدس پر ایک لحاف تھا، میں نے اپنا ہاتھ اُس لحاف پر رکھا تو میں نے بخار کی حدت وتپش سے لحاف کو گرم پایا، میں نے عرض کی:یا رسول اللہﷺ! آپ کوتو بہت شدید بخار ہے، آپﷺ نے فرمایا:ہم گروہِ انبیاء کا یہی حال ہوتا ہے، ہم لوگوں پر مصیبت بھی دگنی آتی ہے اورہمیں اجربھی دگنا ملتا ہے۔ میں نے عرض کی:یا رسول اللہﷺ!سب سے سخت آزمائش کن لوگوں کی ہوتی ہے؟ فرمایا: انبیائے کرام کی، میں نے عرض کی:پھر اس کے بعد؟ فرمایا:ـنیک وصالح لوگوں کی، اُن میں سے بعض کو ایسے فقر میں مبتلا کردیا جاتا ہے کہ اُن کے پاس ایک چوغہ کے علاوہ‘ جسے وہ اپنے جسم پر لپیٹتے ہیں‘ کوئی چیز باقی نہیں رہتی اور اُن میں بعض توآزمائش پر اس طرح خوش ہوتے ہیں کہ جیساکہ تم میں سے کوئی شخص مال ودولت کے ملنے پر خوش ہوتا ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ:4024)۔
احادیث ِ طیبہ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بندۂ مومن کے حق میں امراض وتکالیف اور مصائب وآلام حتیٰ کہ کانٹاچبھنے جیسی معمولی تکلیف بھی خیر وبھلائی کا باعث ہے، کیونکہ یہ اس کے گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بنتے ہیں اور کل بروزِ قیامت وہ اللہ تعالیٰ سے اِس حال میں ملاقات کرے گا کہ گناہوں سے بالکل صاف ستھرا ہوگا۔ (۱)''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی کریمﷺ نے فرمایا: صالحین پر سختی کی جاتی ہے اور مسلمان کو کسی کانٹے کے ذریعے یا اس سے بڑھ کر کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر اُس کے ذریعے اُس کی ایک خطا مٹادی جاتی ہے اور ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے‘‘ (مسنداحمد: 25264)، (۲) ''حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن کو جو بھی تھکن، رنج وغم یابیماری پہنچتی ہے حتیٰ کہ اگر اُسے کوئی فکر بھی لاحق ہوتی ہے تو اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اُس کی برائیوں کو معاف فرما دیتا ہے‘‘ (سنن ترمذی: 966)، (۳) ''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: کسی مومن کی رگ (بیماری کی وجہ سے)جوش نہیں مارتی، مگر اُس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک خطا کو مٹادیتا ہے اور اُس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور اس کا درجہ بلند فرمادیتا ہے‘‘ (معجم الاوسط: 2460)، (۴)''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: مومن مرد و عورت ہمیشہ اپنے نفس، اپنی اولاد اور مال کے حوالے سے پریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرتے ہیں کہ اُن پر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا‘‘ (سنن ترمذی:2399)، (۵):نبیﷺ نے فرمایا: ''جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بندے کے لیے کوئی ایسادرجہ مقرر کیا جاتا ہے جسے وہ اپنے عمل کے ذریعے نہیں پاسکتاتو اللہ تعالیٰ اُس کے جسم یا اُس کے مال یا اولاد کو مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے، پھر اُسے صبر کی توفیق بھی عطا کرتا ہے، حتیٰ کہ اُسے اُس درجے پر پہنچادیتا ہے جو اللہ کی طرف سے اُس کے لیے مقرر ہوتاہے‘‘ (مسنداحمد: 22338)، (۶): ''حضرت جابرؓبن عبداللہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺنے فرمایا: قیامت کے دن جب اہلِ ابتلا کو ثواب دیاجارہا ہوگا تو اہلِ عافیت یہ تمنا کریں گے کہ کاش دنیا میں اُن کی کھالوں کو قینچیوں سے کاٹا جاتا‘‘ (سنن ترمذی:2402)۔ان احادیث سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ بیماریوں اور تکلیفوں کو بُرا نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ یہ درجات کی بلندی اور گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہیں، ایک مرتبہ نبیﷺ حضرت اُم سائب یا اُم مسیب نامی ایک صحابیہ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، آپﷺ نے اُنہیں دیکھا تو فرمایا: تم کیوں کانپ رہی ہو؟ اُنہوں نے کہا:مجھے بخار ہے اوراللہ اِس میں برکت نہ دے۔ آپﷺ نے فرمایا''بخار کو بُرا مت کہو، کیونکہ یہ بنی آدم سے خطاؤں کو اس طرح لے جاتاہے، جس طرح لوہار کی بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کردیتی ہے‘‘ (صحیح مسلم: 2575)۔ صوفیا کرام فرماتے ہیں: جس شخص کو عبادتوں میں لذت نہ آئے اوراس پر اسے غم ہو، تو یہ بھی گناہوں کی معافی کا باعث ہے۔ اہلِ علم حضرات نے ان احادیث کے تحت ذکر کیا ہے کہ بندۂ مومن کے حق میں مصائب وتکالیف مطلقاً گناہوں کے لیے کفارہ بنتی ہیں، خواہ وہ ان پر صبر کرے یا نہ کرے؛ البتہ بعض اہلِ علم نے کہا ہے: کسی مصیبت کی وجہ سے اجر وثواب اس وقت حاصل ہوتا ہے، جب ان مصیبتوں پر صبر کیا جائے، کیونکہ قرآن وسنت میں اجر و ثواب کے حصول کے لیے صبر کی شرط عائد کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (۱) ''بیشک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب کے دیا جائے گا‘‘ (الزمر:10)، (۲) ''اور ضرور ہم تمہیں خوف اور بھوک اوراموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعے آزمائیں گے اورصبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے، تو کہتے ہیں: ہم اللہ کے ہیں اور ہم کو اسی کی طرف لوٹ جانا ہے‘‘ (البقرہ:154تا 155)۔
اس حوالے سے احادیث درج ذیل ہیں: (۱)''حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ نے فرمایا:بیشک بدلے کا بڑا ہونا آزمائش کے بڑے ہونے کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو اُنہیں (مصائب میں) مبتلا کر دیتا ہے، پس جو راضی رہتا ہے تو اُس کے لیے (اللہ کی طرف سے)رضا ہے اور جو ناراض ہوتا ہے تو اُس کے لیے ناراضی ہے‘‘ (سنن ترمذی:2396)، (۲)''حضرت محمودؓ بن لبید بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺنے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو اُنہیں مبتلائے مصیبت کردیتا ہے، پس جو صبرکرتاہے تو اُس کے لیے صبر (کا ثواب) ہے اور جو بے صبری کرتا ہے تو اُس کے لیے بے صبری (کا وبال) ہے‘‘ (مسنداحمد: 23623)، (۳) حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺنے فرمایا: ''میرے پاس میرے اُس بندۂ مومن کے لیے جنت کے سوا کوئی بدلہ نہیں ہے جس کی میں کوئی عزیز چیز قبض کرلوں اور پھر وہ اُس پر ثواب کی نیت سے صبر کرے‘‘ (صحیح بخاری: 6424)، (۴) ''عطا بن ابی رباح بیان کرتے ہیں: حضرت عبداللہؓ بن عباس نے مجھ سے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت نہ دکھاؤں، میں نے کہا:کیوں نہیں!فرمایا:یہ جو حبشی عورت ہے (یہ جنتی ہے)، یہ نبی کریمﷺکے پاس آئی اورعرض کی: مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، نبی کریمﷺنے فرمایا:اگر تو چاہے تو صبر کراور تیرے لیے صبر کے بدلے میں جنت ہوگی اور اگر چاہے تومیں تیرے لیے دعا کردیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھے اس مرض سے عافیت عطا کردے، اُس نے کہا:میں صبر کروں گی، پھر اُس نے کہا:مرگی کے دورے کے دوران میرا ستر کھل جاتا ہے، پس آپﷺ یہ دعا فرمائیں کہ میرا ستر نہ کھلے، پس نبی کریمﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی‘‘ (صحیح بخاری:5652)، (۵)''حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:نبیﷺنے فرمایا:اللہ عزوجل مَلکُ الموت سے فرماتاہے: اے ملَکُ الموت!تو نے میرے بندے کے بچے کی روح کو قبض کر لیا، تو نے اُس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور اس کے دل کے سکون پر قبضہ کرلیا، وہ کہتا ہے:ہاں!اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے:اُس نے کیاکہا:وہ کہتا ہے کہ اُس بندے نے تیری حمد کی اور اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ پڑھا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس کے لیے جنت میں گھر تعمیر کردواور اُس کا نام بَیْتُ الْحَمْد رکھو‘‘ (سنن ترمذی: 1021)، اس حدیث کے تحت علامہ مناوی شافعی لکھتے ہیں: ''علامہ عِزبن عبدالسلام اور علامہ ابن قیم نے کہا ہے: بیماریاں اور مصیبتیں چونکہ غیر اختیاری طور پر آتی ہیں، اس لیے اُ ن پر اجروثواب حاصل نہیں ہوتا، بلکہ اُن پر صبر کرنے سے اجر حاصل ہوتا ہے جوکہ بندے کے اختیار اور کسب سے ہوتا ہے، کیونکہ اس حدیث میں بیان ہے کہ بندے کو جنت میں جو محل حاصل ہوتاہے وہ اُس کے حمد کرنے اور اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ پڑھنے کی وجہ سے ملتاہے نہ کہ اُس پر آنے والی مصیبت کی وجہ سے؛ البتہ مصیبت کاثواب یہ ہے کہ اُس سے خطائیں معاف ہوجاتی ہیں‘‘ (فیض القدیر: ج: 1، ص:440) جبکہ بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ مصیبت پر خواہ صبر کیاجائے یا نہ کیا جائے، اس کی وجہ سے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں اور اجر وثواب بھی حاصل ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجرعسقلانی شافعی فرماتے ہیں:''احادیث صحیحہ وصریحہ سے بظاہر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امراض وتکالیف مطلقاً اجر وثواب کے حصول اورگناہوں کی معافی کا سبب ہیں، خواہ اُن پر صبر کیا جائے یا نہ کیا جائے، رہی بات مصیبت پر صبر کرنے اور اُس پر راضی رہنے کی تو وہ ایک علیحدہ بات ہے، ممکن ہے کہ مصیبت پر صبر کرنے کی صورت میں صبر کا زائد اجر وثواب حاصل ہواوراس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ جس درجے کی مصیبت ہوتی ہے، وہ اس درجے کے گناہ کے لیے کفارہ بنتی ہے اور اُس مصیبت پر صبر کرنے اور راضی رہنے پر اجر وثواب دیا جاتا ہے، پس اگر مصیبت زدہ شخص کا کوئی گناہ ہی نہ ہو، تو اس کے بدلے مصیبت کے بقدر ثواب دیاجاتا ہے‘‘ (فتح الباری: ج: 10ص:105)۔ (ختم)