آج کل حکومتی حلقوں اور میڈیا میں رونق افروز لبرلز کو ایک انجانا خوف لاحق ہے کہ مدارس کے طلبہ مولانا فضل الرحمن کی آئندہ کسی تحریک کا حصہ بن جائیں گے اور ان کی ریلی اور ممکنہ دھرنے میں شریک ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے یہ کیسے قیاس کر لیا، کیا اُن کے پاس کوئی سروے ہے کہ مولانا کے گزشتہ دھرنے میں پاکستان بھر کے مدارس کے طلبہ شریک تھے؟ ہمارے نیٹ ورک تنظیم المدارس اہلسنّت پاکستان کا تو شاید ایک بھی طالب علم شریک نہ ہوا ہو۔ اسی طرح مولانا کے ہم مسلک وفاق المدارس کے بیشتر شہری مدارس میں‘ ہماری معلومات کے مطابق‘ ریلی اور دھرنے کے دوران تعلیم کا سلسلہ معمول کے مطابق جاری تھا۔ وفاق المدارس الشیعہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رابطۃ المدارس جماعتِ اسلامی کا نیٹ ورک ہے اور آج کل جماعت اسلامی کسی سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔ وفاق المدارس سے ملحق بعض مدارس کے طلبہ‘ ممکن ہے‘ جزوی طور پر شریک ہوئے ہوں؛ تاہم یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ مدارس بند نہیں ہوئے۔ سو‘ یہ ایک انجانا خوف ہے جو بعض حلقوں کو لاحق ہے، حتیٰ کہ کسی چینل پر یہ ٹِکر نظر آیا: ''اسلام آباد کے ایک سو آٹھ مدارس کے طلبہ کو کنٹرول کرنے کی مہم وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے ذمہ لگا دی گئی ہے‘‘۔ آئمہ مساجد کو حکومت کی طرف سے دس ہزار روپے ماہانہ اعزازیے کی بشارت بھی سنائی گئی ہے، خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے گزشتہ دورِ حکومت میں بھی ایسی ہی بشارت سنائی گئی تھی، لیکن پھر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ کے بارے میں ہمارے لبرلز کا نظریہ کیا ہے، کیا یہ پاکستان کے آزادشہری نہیں ہیں یا یہ دوسرے اور تیسرے درجے کے شہری ہیں یا ان کا تعلق کسی خاندانِ غلاماں سے ہے، جیسے کبھی جنوبی افریقہ اور امریکا میں سیاہ فام دوسرے یا تیسرے درجے کے شہری قرار پاتے تھے، امریکا میں انہیں African Americans کہا جاتا ہے، کیا اس ملک میں ان کے انسانی اور سیاسی حقوق نہیں ہیں، کیا یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات پر سیاست میں حصہ لینے یا ووٹ ڈالنے یا کسی جلسے اور ریلی میں شریک ہونے پر پابندی ہے؟ تو دینی مدارس کے طلبہ کے بارے میں اتنا واویلا اور دہائی کیوں؟ ہمیں مولانا فضل الرحمن یا پی ڈی ایم کی تحریک یا جلسوں، ریلیوں اور دھرنوں سے کچھ واسطہ نہیں ہے، لیکن اصولی بات کرنا ہمارا حق ہے۔
ایک خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن وفاق المدارس کے صدر بن کر اُس سے ملحق مدارس کی افرادی قوت کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کریں گے، اس حقیقت کے باوجود کہ مولانا کا اثر دیوبندی مدارس میں زیادہ ہے، میرا قیاس یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو گا، صدر کسی ایسی علمی شخصیت کو بنایا جائے گا جو سب کے لیے قابلِ احترام اور غیر متنازع ہو، واللہ اعلم بالصواب!
یہ غلط فہمی ذہن سے نکال دیجیے کہ دینی مدارس و جامعات کے طلبہ کو کوئی چیز قبول یا رد کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، ہر طالب علم کے پاس سمارٹ فون ہے اور وہ اس کا استعمال بھی ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ قانون بنا لیا جائے کہ کوئی داڑھی والا نہ سیاست میں حصہ لے سکتا ہے، نہ ووٹ ڈال سکتا ہے، نہ اپنی ترجیح پر کسی سیاسی جماعت کی حمایت کر سکتا ہے، نہ کسی جلسے جلوس اور ریلی میں شریک ہو سکتا ہے۔ ابھی تک ایسی پابندی تو امریکا اور یورپ میں بھی نہیں لگی، لگے ہاتھوں یہیں سے آغاز کر دیا جائے تاکہ ہمارے لبرل کرم فرمائوں کو ذہنی سکون ملے۔ جانبداری کا تاثر دینے والے ایسے ہی رویوں سے نظام کے بارے میں لوگوں میں مایوسی پیدا ہوتی ہے، جب کسی کو یہ تاثر ملے کہ اُسے کم تر سمجھا جا رہا ہے تو اس کے ذہن میں منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوتا ہے کہ دینی مدارس و جامعات میں تعلیم پانے والے طلبہ و طالبات پاکستان کے وفادار اور ذمہ دار شہری نہیں بن سکتے۔ بتایا جائے کہ آخر حب الوطنی کا معیار کیا ہے؟ اس کو جانچنے اور ماپنے کے لیے گیج کس کے پاس ہے؟ کیا کسی کو صرف اس لیے لوگوں کی حب الوطنی کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے کہ وہ صاحبِ اختیار واقتدار ہے یا ٹیلی وژن سٹوڈیوز کے ''شیشے کے گھر‘‘ میں رونق افروز ہے؟
امریکا میں کووڈ کی وجہ سے نیویارک سٹیٹ میں مذہبی عبادت گاہوں کو بند کرنے کے احکام جاری ہوئے تو یہودیوں نے اس کے خلاف پہلے نیویارک سٹیٹ کی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی، وہاں سے فیصلہ حکومت کے حق میں آیا، پھر انہوں نے امریکا کی فیڈرل سپریم کورٹ میں اپیل کی، تو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ کسی کے مذہبی حقوق پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی، امریکا کی فیڈرل سپریم کورٹ کی طرف سے یہ براہِ راست ریلیف تویہود کے لیے تھا، لیکن اس کا فائدہ تمام مذاہب و ادیان کے لوگوں کو پہنچے گا۔
وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد عوامی آدمی ہیں، وفاقی دارالحکومت اسلام آبادکے لیے جب وقف ایکٹ پاس ہوا، تو بیوروکریسی متحرک ہوئی اور مدارس میں بعض اداروں کے اہلکاروں کی آمد و رفت شروع ہوئی تو اسلام آباد کے علماء نے اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان سے رابطہ کیا، میں نے اُن سے کہا: ''آپ لوگ راولپنڈی؍ اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور وزیرِ داخلہ کا تعلق بھی انہی جڑواں شہروں سے ہے، اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے مقامی نمائندوں پر مشتمل وفد بنائیں، وزیرِ داخلہ سے جا کر ملیں اور ان کے سامنے اپنے مسائل پیش کریں؛ چنانچہ وہ جا کر ملے اور جناب شیخ رشید احمد نے اُنہیں مطمئن کر دیا۔ سیاست دان اور بیورو کریٹ میں یہی فرق ہوتا ہے۔ شیخ صاحب کا اپنی سٹوڈنٹس لیڈر شپ اور عملی سیاست کے ابتدائی دور میں علماء سے رابطہ رہا ہے، کسی شاعر نے کہا ہے:
ما و مجنوں ہم سبق بُودیم در دیوانِ عشق
اُو بصحرا رفت و ما در کوچہ ہا رُسوا شدیم
ترجمہ:''ہم اور مجنوں مکتبِ عشق میں ہم سبق تھے، پھر وہ صحرا کی طرف نکل گیا اور ہم کوچہ و بازار (یعنی عملی زندگی میں) رسوائیوں کا سامنا کرتے رہے‘‘
اور کسی نے اس شعر کو اس طرح نقل کیا ہے:
ما و مجنوں ہم سفر بودیم در دشتِ جنوں
اُو بہ منزل ہا رسید و ما ہنوز آوارہ ایم
ترجمہ:''دشتِ جنوں میں ہم اور مجنوں ہم سفر تھے، پھر وہ اپنی رفعت کی منزلوں تک جا پہنچا اور ہم بدستور منزل کی تلاش میں سرگرداں رہے‘‘،
الغرض جنابِ شیخ رشید احمد سیاست کے کوچوں سے گزرتے ہوئے منزلِ اقتدار میں رونق افروز ہوتے رہے ہیں اور اب وہ علماء کی نگرانی اور فہمائش پر مامور ہیں، وقت وقت کی بات ہے۔
علماء اور دینی مدارس وجامعات کے ذمہ داران کو کسی بھی حکومتِ وقت کے ساتھ محاذ آرائی کا کوئی شوق نہیں ہے، سوائے اس کے کہ ایسے حالات پیدا کر دیے گئے ہوں کہ مکالمے اور تفہیم و تفہّم سے مسائل کے حل کا راستہ بند ہو جائے۔ ہم بارہا حکومت کے ذمہ داران کو بتا چکے ہیں کہ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے، یہ اکیڈیمک ادارے ہیں، ان کی جائز خواہش ہے کہ آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کریں، نہ ان کے کام میں رکاوٹ ڈالی جائے اور نہ بلاسبب انہیں پریشان کیا جائے۔ خرابی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ میڈیا میں بیٹھے ہوئے ہمارے لبرل مہربان وقتاً فوقتاً حکومتِ وقت کو اکساتے رہتے ہیں، یہ اُن کے ایجنڈے کا مستقل حصہ ہے۔
3 نومبر 2020ء کے بعد امریکا میں داخلی طور پر محاذ آرائی جاری تھی، ساری دنیا اُس طرف متوجہ تھی، سب کوخدشات لاحق تھے کہ آیا وہاں پُرامن انتقالِ اقتدار ہو پائے گا یا نہیں، کیونکہ ٹرمپ بائیڈن کی فتح کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگا رہے تھے، حتیٰ کہ ایسے وقت میں جب صدارتی انتخابی نتائج یعنی الیکٹورل ووٹوں کی توثیق کے لیے کانگریس کا اجلاس ہو رہا تھا، بلوائیوں نے کیپٹل ہل پر ایک منظم حملہ کیا، بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ کی، پانچ افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے، اس واقعے نے امریکا اور مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، اس پر میں دو تفصیلی کالم لکھ چکا ہوں۔ مگر ایسے ماحول میں وائس آف امریکا کے اردو اور پشتو شعبے کے نمائندگان پاکستان کے دینی مدارس وجامعات کے بارے میں ہم سے معلومات حاصل کرنے کے لیے رابطہ کر رہے تھے، میں نے اُن سے کہا: ''ابھی تو امریکا مشکل میں گرفتار ہے، پہلے امریکا کے داخلی مسائل حل کر لیجیے، اُس کے بعد پاکستان کے دینی مدارس کی فکر کیجیے گا‘‘۔ اس سے ہمارے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس و جامعات کو کنٹرول میں لانا عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے اور ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جو قوانین بنائے گئے، اُن میں بھی وقف ایکٹ کا مقصد مدارس و مساجد ہی کو نشانہ بنانا تھا۔
ہم نے بارہا حکومت کے ذمہ داران سے گزارش کی ہے کہ جب دینی مدارس و جامعات محکمۂ تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کے ایک مرحلے میں داخل ہو جائیں گے اور ایک مرکزی ڈیٹا خود حکومت کے پاس آ جائے گا، تو پھر آپ اس بات کی گارنٹی دیجیے کہ آئے دن مختلف اداروں کے افراد طرح طرح کے پرفارمے لے کر مدارس کا رخ نہیں کریں گے، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کسی بھی ادارے کا کوئی فرد پرفارمے لے کر نہیں آتا۔ یونیورسٹیوں اور انٹرمیڈیٹ و سیکنڈری تعلیمی بورڈوں کے ساتھ اداروں کے الحاق کا ایک نظم موجود ہے، مگرکوئی اتھارٹی بھی اس بات کی گارنٹی دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حکومت کی خواہش ہے کہ دینی مدارس وجامعات کا نظام شفاف ہو اور ہم اس کی تحسین کرتے ہیں، اس کے لیے مناسب طریقہ یہ ہے کہ شیڈول بینکوں میں دینی مدارس و جامعات کے اکائونٹس آسانی سے کھولے جائیں اور پہلے سے کھلے ہوئے اکائونٹس کو نہ بند کیا جائے اور نہ اُن کو آپریٹ کرنے میں رکاوٹیں ڈالی جائیں، ہم سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا، لیکن عملاً وہی طرزِ عمل جاری و ساری رہتا ہے۔ واضح رہے کہ تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے دستور میں یہ شق شامل ہے کہ کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار‘ خواہ وہ ہم مسلک سیاسی جماعت ہو‘ تنظیم المدارس کا مرکزی عہدیدار یعنی صدر یا ناظمِ اعلیٰ نہیں بن سکتا۔