ہر دعویٰ دلیل کا محتاج ہوتا ہے اور ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے، جو نظر آتی ہے اور محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح ایمان کا دعویٰ تو بہت لوگ کرتے ہیں، لیکن بہت کم تعداد میں لوگ ایسے ہیں جو ایمان کی حقیقت سے آشنا ہیں اور جن کی ذات اور کردار میں ایمان کی جھلک نظر آتی ہے، انہیں بتانا نہیں پڑتا۔ حدیث پاک میں ہے: (1) ''حضرت ابوالدرداءؓ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: ہر چیز کی ایک حقیقت ہے اور کوئی بندہ ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچتا حتیٰ کہ وہ جان لے کہ جو اس نے پانا ہے، وہ ٹل نہیں سکتا اور جو ٹل چکا ہے، وہ درحقیقت اس کے مقدر میں تھا ہی نہیں۔ (مسند امام احمد: 27490)، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''دیہاتیوں نے کہا: ہم ایمان لائے، آپ کہیے: تم ایمان نہیں لائے، ہاں! یہ کہو کہ ہم نے اطاعت کی اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر کاربند رہو تو وہ تمہارے (نیک) اعمال میں کوئی کمی نہیں کرے گا، بے شک اللہ بہت بخشنے والا، بے حد رحم فرمانے والا ہے۔ درحقیقت ایمان والے تو صرف وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر انھوں نے (اس میں) کوئی شک نہ کیا اور انہوں نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، وہی (دعوائے ایمان میں) سچے ہیں۔ (الحجرات:14 تا 15)۔ ایمان اور اسلام اگر متفرق طور پر استعمال ہوں تو دونوں کا معنی ایک ہی ہوتا ہے، البتہ کسی ایک مقام پر تقابل کے ساتھ استعمال ہوں تو ان میں معنوی فرق ملحوظ رکھا جا سکتا ہے۔ نیز مومن کے دل پر آیاتِ الٰہی کا اثر مرتّب ہوتا ہے، اس میں خشیتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے، آیاتِ الٰہی کی جلالت سے اس کا دل دہل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: '' (کامل) مومن تو فقط وہی لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل (خشیتِ الٰہی سے) دہل جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جائیں تو وہ ان کے ایمان کو مزید مضبوط کر دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں، جو نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے کچھ (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں، یہی لوگ سچے پکے مؤمن ہیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس (بلند) درجات ، مغفرت اور باعزت روزی ہے‘‘ (الانفال:2 تا 4)۔ بعض اوقات رسول اللہﷺ اپنے صحابہ کی ایمانی کیفیات کا جائزہ لیتے تھے، حدیث پاک میں ہے، ''حارث بن مالک انصاری بیان کرتے ہیں: اُن کا رسول اللہﷺ کے پاس گزر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا: حارث! تم نے کیسے صبح کی؟ انہوں نے عرض کی: میں نے اس حال میں صبح کی کہ میں پکا مؤمن تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: ذرا سوچو! تم کیا کہہ رہے ہو، کیونکہ ہر چیز کی ایک حقیقت ہے، پس تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کی: میں نے دنیا میں دل لگانا چھوڑ دیا ہے، میں اپنی راتوں کو بیدار رکھتا ہوں (یعنی عبادت میںمصروف رہتا ہوں)اور میرا دن پُرسکون گزرتا ہے، (میری حضوریِ قلب کا عالَم یہ ہے کہ) گویا میں اپنے رب کے عرش کو اپنے سامنے واضح طور پر دیکھ رہا ہوں اور میں اہلِ جنت کو دیکھ رہا ہوں جو ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اورمیں اہلِ جہنّم کو دیکھ رہا ہوں کہ اُن کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ آپﷺ نے تین بارفرمایا: حارث! تُو نے ایمان کی حقیقت کو جان لیا، پس اسے لازم پکڑو‘‘ (معجم الکبیر للطبرانی: 3367)۔
ایمان کی ایک حقیقت یہ ہے کہ انسان کا مزاج شریعت کے مزاج میں ڈھل جائے، اس کے دل میں اسی چیز کی طلب پیدا ہو جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہے اور ہر اُس چیز سے اس کا دل نفرت کرے جو اللہ اور اس کے رسول کو ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''اور جب مؤمنوں کو بلایا جائے تاکہ اللہ اور اس کا رسول ان کے درمیان فیصلہ کریں تو ان کو یہی کہنا چاہیے کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘ (النور:51)۔
حدیث پاک میں ہے: ''عبداللہؓ بن عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوگا تاوقتیکہ اُس کی خواہشِ نفس میری لائی ہوئی شریعت کے تابع ہو جائے‘‘ (شَرْحُ السُّنَّہْ لِلْبَغَوِی:104)۔ نیز ایمان کی اپنی ایک روحانی لذت ہے، حلاوت ہے، شیرینی ہے، نورانیت ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: جس شخص میں تین خصلتیں ہوں، وہ ایمان کی حلاوت کو پا لے گا: (۱) یہ کہ اس کے نزدیک اللہ اور اس کا رسول اُن کے ماسوا سے زیادہ محبوب ہوں، (۲) یہ کہ وہ کسی شخص سے محبت کرے تو صرف اللہ کی رضا کے لیے کرے، (۳) یہ کہ (اسلام قبول کرنے کے بعد) اس کے نزدیک کفر کی طرف لوٹنا اتنا ہی ناپسندیدہ ہو جیسے آگ میں ڈالاجانا‘‘ (صحیح بخاری:16)۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''(اے رسولﷺ!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے آباء (و اجداد)، تمہارے بیٹے (بیٹیاں)، تمہارے بھائی (بہنیں)، تمہاری بیویاں (یا شوہر) تمہارا خاندان، تمہارا کمایا ہوا مال، (تمہاری ) تجارت جس کے خسارے میں جانے کا تمہیں کھٹکا لگا رہتا ہے اور تمہارے پسندیدہ مکانات، (اگر یہ سب چیزیں) تمہیں اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہو جائیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے (عذاب کا ) فیصلہ صادر فرماد ے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت (سے فیض یاب) نہیں فرماتا‘‘ (التوبہ : 24)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''(اے رسول!) آپ کے رب کی قسم! (ایمان کے دعویدار ہونے کے باوجود) یہ لوگ( حقیقت میں) مومن نہیں ہو سکتے حتیٰ کہ آپس کے تنازعات میں یہ آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر آپ کے فیصلے پر دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور اسے (دل وجا ن سے) تسلیم کر لیں‘‘ (النساء: 65)۔ (۲) ''اے مومنو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو‘‘ (النسآء : 59)۔ یعنی ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرمﷺ کی اطاعت لازم ہے اور پھر یہ قولِ فیصل جاری فرما دیا کہ حقیقت کے اعتبار سے اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسول ایک ہی ہے، چنانچہ فرمایا: ''اور جس نے رسول کی اطاعت کی، سو اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘ (النساء : 80)، نیز فرمایا: ''اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تو اس نے بڑی کامیابی کو پا لیا‘‘ (الاحزاب: 71)۔
''ایک موقع پر حضرت عمرؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ ! اللہ کی قسم! اپنی جان کے سوا آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوگا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جائوں۔ پھر حضرت عمرؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اللہ کی قسم اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے عمر! اب ایمان کا تقاضا پورا ہوا‘‘ (مسند احمد: 18047)۔ جس مومن کے دل میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت نقش ہو جائے، اللہ تعالیٰ اس کو ایمان کی حلاوت عطا فرماتا ہے اور وہ ایمان کی لذت کو پا لیتا ہے۔ رسول اللہﷺ سے محبت کرنا کامل ایمان کی علامت ہے، تاریخ کے ہر دور میں آپﷺ سے محبت کرنے والوں نے جریدہ عالم پر اپنی حقیقی محبت کے انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں اور ان کی محبت کی داستانیں آج تک محبینِ رسول کے لیے مَشعَلِ راہ کا کام دیتی ہیں۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالَم دوامِ ما
ترجمہ: ''جس کا دل حرارتِ عشق سے زندہ ہو جائے، وہ کبھی مرتا نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ صحیفۂ کائنات پر ہماری تاریخ کے دائمی نقوش ثبت ہیں‘‘۔
روایت میں ہے: ''جب اہل مکہ حضرت زیدؓ بن دَثِنہ کو قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے جانے لگے تو ابوسفیان نے کہا: زید! میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، بتائو! کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ (العیاذ باللہ!) اس وقت ہمارے پاس تمہاری جگہ محمد (ﷺ) ہوتے؟ حضرت زیدؓ نے کہا: خدا کی قسم! مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں ہے کہ میں اپنے گھر میں عافیت سے رہوں اور رسول اللہﷺ کے پیر میں کانٹا بھی چبھ جائے۔ ابوسفیان نے کہا: میں نے جتنا اَصحابِ محمدﷺ کو اُن سے محبت کرتے ہوئے دیکھا ہے، اتنا کسی اور کو نہیں دیکھا‘‘ (الشفاء ،ج: 2، ص: 17)‘‘۔
ان وفا شِعار غلاموں میں سے ایک حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، جنہوں نے غزوۂ احد میں افراتفری کے عالم میں رسول اللہﷺ کا دفاع کیا، حضورﷺ کی طرف آنے والے تیروں کو اپنے ہاتھوں اور جسم پر روکتے رہے اور کوئی تیر رسول اللہﷺ تک پہنچنے نہ دیا۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''جب مشرکین نے نبیﷺ پر تیر برسانا شروع کیے تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ آگے کر دیے۔ حضرت ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں: ہم غزوۂ احد کے دن حضرت طلحہؓ کے پاس آئے تو ہم نے ان کے جسم پر ستر سے زیادہ زخم پائے اور ان کی انگلیاں کٹ چکی تھیں‘‘۔ (عمدۃ القاری: ج: 14، ص: 313 تا 314)۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''آپ ایسی قوم نہیں پائیں گے کہ جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں (لیکن ساتھ ساتھ) اللہ اور اس کے رسول کے مخالفین سے بھی محبت رکھیں، خواہ وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا ان کے قریبی رشتہ دار ہوں، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے ایمان کوثبت فرما دیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد فرمائی، اللہ ان کو ایسے باغات میں داخل فرمائے گا، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ اللہ کی جماعت ہے، سنو! اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہونے والی ہے‘‘ (المجادلہ: 22)۔