حال ہی میں آرمی چیف جنابِ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنابِ جنرل فیض حمید نے دو بریفنگ دیں: ایک طویل نشست تقریباً تیس تجربہ کار صحافیوں اور اینکر حضرات کے ساتھ منعقد ہوئی اور دوسری طویل نشست پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے ایک سو سے زائد سرکردہ رہنمائوں کے ساتھ منعقد ہوئی، ان مجالس کا دورانیہ آٹھ آٹھ گھنٹے تک بتایا جاتا ہے۔ ان مجالس کو In Camera یعنی پسِ پردہ یا خفیہ قرار دیا گیا۔ صحافی حضرات سے چیف صاحب نے کہا: ''اگر آپ اس مجلس کی ہر بات کو باہر بیان کریں گے تو ہم اس کی تردید بھی کر سکتے ہیں‘‘۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان باتوں کو لیک کرنے سے منع نہیں کیا تھا لیکن اس میں اُن کی یہ خواہش مستور تھی کہ انداز ایسا ہونا چاہیے کہ ملکی مفاد اور ادارے کا وقار مجروح نہ ہو یا کوئی ناخوشگوار ردِّعمل آئے تو اس سے برأت کی جا سکے۔
ہماری رائے میں ان مجالس میں کوئی ایسا راز نہیں تھا جسے باہر بیان نہ کیا جا سکے، اندازِ بیان کی بات اور ہے۔ ہر دانا آدمی جانتا ہے کہ کسی رازِ دروں کو کبھی بھی تیس یا سو آدمیوں کی مجلس میں بیان نہیں کیا جاتا اور نہ ایسا راز‘ راز رہتا ہے بلکہ عربی مقولے کے مطابق اس طرح کے راز کے افشا ہونے پر کسی کو گلہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ: ''تم پر اپنے راز کی حفاظت کی ذمہ داری تمھارے بھائی یعنی کسی اور سے زیادہ عائد ہوتی ہے‘‘۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کوئی پوشیدہ رکھنے والا راز نہیں تھا تو مجلس کو اِن کیمرہ یا پسِ پردہ کیوں قرار دیا گیا؟ ہماری نظر میں اس کی حکمتیں یہ ہو سکتی ہیں: (1) غیر ذمہ دار لوگ شریک نہ ہوں جو بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں یا اپنی خواہش اور اپنی ترجیحات کو کسی کے بیان یا خبر کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں، (2) اگر یہ پارلیمنٹ کی کھلی نشست ہوتی تو سب لوگ سن لیتے یا کوئی پریس سٹیٹمنٹ جاری کر دیا جاتا جو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بن جاتا اور پھر یہ باتیں لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو جاتیں اور میڈیا والے کسی اور عنوان کی تلاش میں مصروف ہو جاتے۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ خبریں تھوڑی تھوڑی اور رِس رِس کر آنے لگیں، اُن پر تبصرے ہونے لگے، Suspense یا تجسس پیدا کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر ہر ایک Exclusive یعنی بلاشرکتِ غیرے اِس کے رازداں ہونے کا دعویٰ کرنے لگا، تجسّس نے لوگوں کے اشتیاق کو بڑھا دیا اور وہ بریفنگ، عام حالات میں جس کی خبروں کی زندگی چوبیس گھنٹے ہوتی ہے، ہفتے عشرے پر محیط ہو گئیں اور اس سے ذمہ دار شخصیات یا مقتدرہ کا مقصد بھی پورا ہو گیا، کیونکہ شاید وہ یہ چاہتے تھے کہ قوم کو حالات کی سنگینی سے باخبر کیا جائے اور کسی ناخوشگوار صورتِ حال کے رونما ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار رکھا جائے، ورنہ اگر کوئی صورتِ حال اچانک پیدا ہو جائے تو لوگ سراسیمہ ہو جاتے ہیں، سہم جاتے ہیں اور گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں، اسی کو انگریزی میں ''Sensation‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ بہت سے لوگوں کی محرومی کا ازالہ ہوگیا، اگلی بار اگر کچھ دوسرے لوگوں کو درشن کرا دیا جائے، تو اُن کو بھی طمانیت نصیب ہو جائے گی۔
بعض اوقات انسان شطرنج کی بساط سجاتا ہے اور اسے اعتماد ہوتا ہے کہ وہ فریقِ مخالف کی ہر چال کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بازی ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور خود اپنی بچھائی ہوئی پوری بساط الٹ جاتی ہے، جیسا کہ امریکا نے طاقت کے زعم میں بپھرے ہوئے شیر کی طرح افغانستان پر چڑھائی کی، اُسے اپنی کامیابی کا سو فیصد یقین تھا، اس نے برطانیہ اور سوویت یونین کے تجربے سے سبق حاصل کرنے کی زحمت گوارا نہ کی کیونکہ وہ اپنے مقابل کو کمزور سمجھتا تھا، اُسے عالمی سطح پر واحد سپر پاور ہونے کا زعم تھا لیکن افغانوں کی عزیمت و استقامت، جرأت و ہمت، جُہدِ مسلسل، سعیِ پیہم، بے مثال قربانیوں اور توکل علی اللہ نے امریکا کا غرور خاک میں ملا دیا۔
ہمارے لیے بھی افغانستان کے حوالے سے پنجابی محاورے کے مطابق ''ستّے خیراں‘‘ والی صورتحال نہیں ہے، حالات مکمل طور پر ہماری گرفت میں نہیں ہیں کیونکہ مسئلۂ افغانستان میں امریکا اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے علاوہ روس، چین، بھارت، ترکی، ایران، وسطی ایشیا کے ممالک اور کسی حد تک شرقِ اَوسط کے ممالک کی دلچسپی بھی موجود ہے، ہر ملک کا کوئی نہ کوئی مفاد (Stake) صورتحال سے جڑا ہوا ہے۔ بہت سے لبرل دانشور اور ماہرین کہتے ہیں: ''تزویراتی گہرائی کے فلسفے کو جانے دیجیے، اس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، افغان جانیں اور اُن کی سرزمین جانے، ہم اپنے گھر میں خوش اور وہ اپنے گھر میں خوش رہیں‘‘۔ لیکن درحقیقت صورتحال اتنی آسان نہیں ہے، پاکستان اپنے گرد وپیش کے معاملات سے یکسر لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ امریکا تو چاہتا ہے: ''ساری ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی جائے اور ماضی کی طرح اسے حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے، جس کا ناقابلِ تلافی نقصان ہم پہلے بھی اٹھا چکے ہیں‘‘۔ یہ صورتحال بھی پاکستان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے کہ اس کا افغانستان میں کوئی Stake یعنی مفاد اور دلچسپی نہ رہے، شدید خواہش کے باوجود بھی ایسا نہیں ہو سکتا، ورنہ عواقب و نتائج زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔ سی پیک‘ جسے ہم گیم چینجر یعنی پوری بازی پاکستان کے حق میں الٹانے والا منصوبہ قرار دیتے ہیں‘ کی کامیابی کا سارا مدار پُرامن افغانستان پر ہے، چین کی ''ون بیلٹ ون روڈ‘‘ یا ''بیلٹ اینڈ روڈ اینی شی ایٹو‘‘ پر بھاری سرمایہ کاری مَعرَضِ خَطر میں پڑ جائے گی اور وہ ایسا کبھی نہیں چاہے گا۔ بظاہر لگتا ہے کہ امریکا چین کی اس عالمی راہداری اور عالمی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے افغانستان میں بے امنی کو فروغ دے گا اور یہ بات ہر ذی شعور جانتا ہے کہ تخریب تعمیر سے آسان ہوتی ہے اور امن برقرار رکھنا بے امنی پیدا کرنے سے مشکل ہوتا ہے۔
ایسے حالات میں ہمیں مِلّی وحدت اور سیاسی ومعاشی استحکام کی اشد ضرورت ہے، تین سال ہم اپنے غلط فیصلوں کا ادراک کرکے ان کی اصلاح کرنے، قوم کی گاڑی کو صحیح ٹریک پر ڈالنے کے بجائے اپنی انا کے بتوں کی پرستش کرتے رہے، انتشار اور عدمِ استحکام کو فروغ دیتے رہے، یہ تو مسلّم ہے: ''گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں‘‘، یعنی ہم ماضی کو لوٹاکر نئی شروعات نہیں کر سکتے، لیکن اب بھی اپنی سَمت کو درست کر کے ایک نئے سفر کا آغاز کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں پہلی بار جس متانت، ٹھہرائو اور بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے، لازم ہے کہ اسے وقتی مصلحت تک محدود رکھنے کے بجائے مستقل حکمتِ عملی میں تبدیل کیا جائے تاکہ ہم ایک ملّت اور ایک قوم بن کر حالات کا پامردی اور کامیابی سے مقابلہ کر سکیں اور قوم کو ممکنہ طور پر افغان صورتحال کے اثراتِ بد سے بچاکر سلامتی کا راستہ اختیار کر سکیں۔
اگر کوئی احتساب کی بات کرتا ہے، تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے، لیکن احتساب اور انتقام میں جو لطیف فرق ہے، اسے بہرصورت ملحوظ رکھنا ہو گا، ورنہ انتقام کا شوق تو پورا ہو گا، لیکن احتساب بے معنی رہے گا۔ رسول اللہﷺ نے احتساب اور عدل و انصاف کے لیے اپنی ذات کو نمونے اور مثالیے (Ideal) کے طور پر پیش کیا، جس کی نظیر انسانیت آج تک پیش کرنے سے عاجز ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: ایک (قرض خواہ) شخص نے رسول اللہﷺ سے اپنے قرض کا سختی سے تقاضا کیا تو آپﷺ کے اصحاب نے (اس کی بے ادبی پر) اسے (ڈانٹنے یا مارنے کا) ارادہ کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، کیونکہ جس کا حق ہوتا ہے، اُس کے لیے(سختی سے) بات کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ پھر آپﷺ نے حکم فرمایا: اس کے لیے ایک اونٹ خرید کر اسے دے دو، صحابہ کرامؓ نے عرض کی: ہمیں اس کے اونٹ سے بہتر عمر کا اونٹ ہی مل رہا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: وہی خرید کر اس کو دے دو کیونکہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرض اچھی طرح سے ادا کرے‘‘ (صحیح بخاری: 2390)۔
علامہ یوسف بن محمد صالحی شامی لکھتے ہیں: ''غزوۂ بدر کے موقع پر جب رسول اللہﷺ نے(مجاہدین کی) صفوں کو درست فرمایا تو سَواد بن غزیّہ صف سے آگے نکلے ہوئے تھے، رسول اللہﷺ نے تیر کی نوک اُن کے پیٹ میں چبھو کر فرمایا: سواد! صف میں سیدھے کھڑے ہو جائو۔ سوادؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا، مجھے قصاص دیجیے۔ رسول اللہﷺ نے اپنے شکمِ مبارک سے کپڑا اٹھایا اور فرمایا: قصاص لے لو، وہ (آگے بڑھ کر) آپﷺ کے گلے ملا اور آپ کو بوسا دیا، تو آپﷺ نے فرمایا: تمہیں کس چیز نے اس پر برانگیختہ کیا؟ انہوں نے عرض کی: یارسول اللہﷺ! (مجھے لگتا ہے کہ) میری موت کا وقت آ پہنچا ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ مجھے شہید کر دیا جائے گا تو میں نے چاہا کہ میں اس دنیا سے جانے سے پہلے آپ سے گلے ملوں (تاکہ میرا بدن آپ کے بدن سے مَس ہو جائے)‘‘ (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد، ج:4، ص:34)، کیونکہ امام الانبیاء والمرسلین کے بدنِ مبارک کا لَمس جسے نصیب ہو جائے، جہنم کی آگ اُسے چھو نہیں سکتی۔
پس کہنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت اور حکمران جماعت شفاف احتساب کی کوئی نمایاں مثال قائم نہ کر سکیں۔ دوائوں کا بحران، پیٹرول کا بحران، چینی کا بحران، گندم کا بحران اور رنگ روڈ کا مسئلہ اسی حکومت میں پیدا ہوا، لیکن کسی کو نشانِ عبرت نہ بنایا جا سکا۔ جسٹس وقار سیٹھ مرحوم نے بی آر ٹی منصوبے کی تحقیق کے لیے باقاعدہ ٹی او آر کے ساتھ ایف آئی اے کو حکم جاری کیا لیکن دو مرتبہ حکومت نے سپریم کورٹ سے حکم امتناع لے لیا، مالم جَبّہ اور بلین ٹری منصوبے کی انکوائری نہ ہو سکی، جنابِ جہانگیر ترین کو ریلیف دینا پڑا۔ جنابِ وزیراعظم نے ایک سے زائد بار بیان دیا‘ اس کے باوجود سانحۂ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری نہ ہو سکی، کورونا کے حوالے سے جو وسائل آئے، ان کی آڈٹ رپورٹ مِن وعَن شائع نہ ہو سکی، ایسی کئی مثالیں مل جائیں گی۔ لگتا ہے کہ نیب آرڈیننس میں متفقہ ترامیم اس لیے نہیں ہو پا رہیں کہ حکومت اپنے دور اور اس کے مابعد کے لیے رعایت چاہتی ہے، جبکہ حزبِ اختلاف اس رعایت کو مؤثر بہ ماضی کرنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں بھی ریلیف مل سکے، سو ہو سکتا ہے کسی کے داغ کم ہوں اور کسی کے زیادہ یا بہت زیادہ، لیکن اس آئینہ خانہ میں صاف شفاف کوئی بھی نہیں ہے۔