سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی نبوت و رسالت کی خصوصیات میں سے ایک آپ کا ''خَاتَمُ الْاَنْبِیَائِ وَالرُّسُل‘‘ ہونا ہے، یعنی آپ کی نبوت پر ایمان اس بات کو لازم ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی اور آخری رسول تسلیم کیا جائے، سو معاذ اللہ! اگر کوئی یہ کہے: میں آپﷺ کو نبی اور رسول تو مانتا ہوں، لیکن آپ کو اللہ کا آخری نبی اور آخری رسول نہیں مانتا، تو یہ دراصل آپﷺ کی نبوت و رسالت کا انکار ہے اور ایسا شخص کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے‘‘۔ (الاحزاب: 40)۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اِتمامِ حجت کے لیے نظامِ نبوت و رسالت قائم فرمایا، ارشاد ہوا: ''ہم نے خوش خبری دینے اور ڈر سنانے والے رسول بھیجے تاکہ رسولوں (کی بعثت) کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کی بارگاہ میں کوئی (قابلِ قبول) حجت باقی نہ رہے‘‘ (النساء: 165)۔ نیز فرمایا: ''اے اہلِ کتاب! بے شک رسولوں کی آمد میں وقفے کے بعد تمہارے پاس ہمارا رسول آ گیا، جو تمہارے لیے (ہمارے) احکام بیان فرماتا ہے، مبادا تم یہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا نہیں آیا، پس بے شک تمہارے پاس ایک بشیر و نذیر آ چکا ہے اور اللہ جو چاہے‘ اس پر قادر ہے‘‘ (المائدہ: 19)۔ ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اب کسی نبی اور رسول کے آنے کی ضرورت باقی نہیں رہی، کیونکہ خاتمُ النَّبِیّٖن سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی بعثت کے بعد اللہ کے سارے بندوں پر اس کی حجت قائم ہو گئی اور کٹ حجت لوگوں کا یہ عذرِ لنگ بھی باقی نہ رہا کہ ہمارے پاس کوئی بشیر و نذیر نہیں آیا اور عہدِ حاضر میں تو کوئی ذی ہوش انسان اس حقیقت کا انکار کر ہی نہیں سکتا۔
گزشتہ انبیائے کرام علیہم السلام اپنی قوموں کی طرف مبعوث ہوئے، اُن کی نبوت خاص قوموں اور محدود زمانے کے لیے تھی، اللہ کے دین کا ارتقائی عمل جاری و ساری تھا؛ چنانچہ کسی نبی کی زبانی اللہ تعالیٰ نے تکمیلِ دین کا اعلان نہیں فرمایا لیکن جب خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہﷺ تشریف لے آئے تو حجۃ الوداع کے موقع پر اور آپﷺ کے وصالِ مبارک سے کچھ عرصہ پہلے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں تکمیلِ دین کا اعلان فرما دیا، ارشاد ہوا: ''آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند فرما لیا ہے‘‘ (المائدہ: 3)۔ اب جبکہ دینِ اسلام مکمل ہو چکا اور اس کی بابت اللہ تعالیٰ کا حتمی فیصلہ جاری ہو چکا تو اب کسی نئے نبی اور رسول کی بعثت کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اب قیامت تک سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی نبوت و رسالت ہی جاری رہے گی۔
قرآنِ کریم نے اس بات کو بھی واضح فرمادیا کہ آپﷺ کی نبوت کسی خطے، زمانے یا قوم تک محدود نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت اور اللہ کی پوری مخلوق کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (1) ''(اے رسولِ مکرم!) کہہ دیجیے: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں‘‘ (الاعراف: 158)، (2) ''اور ہم نے آپ کو (قیامت تک کے) تمام لوگوں کے لیے ثواب کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘ (سبا: 28)، (3) ''نہایت بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے مکرم بندے پر قرآن نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے (عذاب سے) ڈرانے والے ہوں‘‘ (الفرقان: 1)، (4) ''اور (اے نبی مکرم!) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے فقط رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘ (الانبیاء: 107)۔ خود رسول اللہﷺ نے اپنے خصائص بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''(پچھلی امتوں میں) نبی بطورِ خاص اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کی طرف نبی بناکر مبعوث کیا گیا ہے‘‘ (بخاری: 438)، نیز فرمایا: ''مجھے ساری مخلوق کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہے اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے (یعنی میں خاتم النبیین ہوں)‘‘ (مسلم: 523)۔
تمام انبیائے کرام سے عالَمِ ارواح میں یہ عہد لیا جا چکا ہے کہ جب اُن کو اپنی اپنی باری پر زمین پر انسانوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا جائے اور اگر وہ بالفرض آپﷺکا زمانہ پائیں تو وہ آپﷺ پر ایمان لانے اور آپﷺ کی نصرت کے پابند ہوں گے، یعنی آپﷺ تمام نبیوں کے نبی اور رسولوں کے رسول ہیں اور یہ اقرار تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی نبوت و رسالت کا لازمی حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور یاد کیجیے! جب اللہ نے تمام نبیوں سے اُن کا عہد لیا کہ میں تمہیں جو کتاب و حکمت عطا کروں، پھر تمہارے پاس وہ عظیم رسول آئے جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے، تو تم سب ضرور بالضرور اس پر ایمان لانا اور اُن کی مددکرنا، (پھر) فرمایا: کیا تم نے (اس عہدکا) اقرار کر لیا اور میرے اس بھاری عہد کو قبول کر لیا؟ ان سب نے عرض کی: ہم نے اقرار کر لیا، (پھر) اللہ نے فرمایا: پس تم سب (ایک دوسرے پر) گواہ ہو جائو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں‘‘ (آل عمران: 81)۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیرِ کعبہ کے بعد آپﷺ کی بعثت کے لیے دعا کی جو قرآنِ کریم میں مذکور ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپﷺ کی آمد کی بشارت دیتے رہے اور قرآنِ کریم نے یہ شہادت بھی دی ہے کہ آپﷺ کی بعثت سے پہلے بنی اسرائیل جنگ کے دوران دشمن کے دبائو میں آتے تو وہ نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلے سے دشمن پر فتح پانے کی دعائیں مانگتے تھے کیونکہ تمام کتبِ سماوی میں آپﷺ کی آمد کے بارے میں بشارات موجود ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: ''تمہارے لیے وہ منظر کس قدر باعثِ افتخار ہوگا کہ (بنی اسرائیل کے نبی) عیسیٰ ابن مریم تمہارے درمیان اتریں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا‘‘ (مسند احمد: 8431)، یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت قائم ہونے سے پہلے اس دنیا میں نزول ہوگا لیکن وہ مستقل نبی کی حیثیت سے نہیں آئیں گے بلکہ آپﷺ کے امتی کی حیثیت سے آئیں گے اور آپﷺ کے امتی امام مہدی کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے۔ وہ آپﷺ کے امتی کی حیثیت سے حکومت کریں گے۔ حدیثِ پاک میں ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، عنقریب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے، وہ عادل حکمران ہوں گے، صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے اور مال کو بہائیں گے حتیٰ کہ اس کو کوئی قبول نہیں کرے گا‘‘ (بخاری: 2222)، یعنی گمراہی کی تمام علامتوں کو مٹا دیں گے اور ان کے دور میں مال کی اتنی فراوانی ہوگی کہ کوئی زکوٰۃ وصول کرنے والا نہیں ہوگا۔
کتبِ لغت اس بات کی مؤیّد ہیں کہ الاحزاب:40 میں لفظِ''خاتم‘‘ ۃ کی زبر کے ساتھ ہو یا زیر کے ساتھ ہو، ''خَاتِمُ النَّبِیّٖن‘‘ کے معنی ''آخِرُ النَّبِیّٖن‘‘ ہیں اور تاجدارِ ختمِ نبوتﷺ کے وصالِ مبارک کے بعد صحابۂ کرامؓ کا جس مسئلے پر اجماعِ کُلّی قطعی منعقد ہوا، وہ یہی ہے کہ ''خاتَمُ النَّبِیّٖن‘‘کے معنی ''آخِرُ النَّبِیّٖن‘‘ کے ہیں اور اس پر سَلَف سے خَلَف تک امت کا اجماع رہا ہے اور ہمارے نزدیک صحابۂ کرامؓ کا اجماعِ کُلّی قطعی شریعت میں'' حُجَّتِ قاطعہ‘‘ ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ اس لیے لفظِ خاتَم کے معنی میں کسی اور تاویل و احتمال کی بات کرنا ضلالت ہے‘ ذہنی و فکری کجی اور کفر ہے۔
(1) حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ غزوۂ تبوک کے لیے نکلے اور (مدینہ منورہ میں) حضرت علیؓ کو اپنا جانشین بنایا، حضرت علیؓ نے عرض کی: (یا رسول اللہﷺ!) کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں (یعنی میں تو میدانِ جنگ کا شہسوار ہوں)، رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی، سوائے ایک استثنا کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا (یعنی ہارون نبی تھے، مگرعلیؓ! تم نبی نہیں ہو)‘‘ (بخاری: 4416)۔ (2) حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل کی سیاست (یعنی نظمِ اجتماعی کی تدبیر) اُن کے انبیائے کرام انجام دیتے تھے، جب ایک نبی کا وصال ہو جاتا تو اُن کی جگہ دوسرا نبی آ جاتا، لیکن اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، سو میرے بعد خلفاء ہوں گے‘‘ (بخاری: 3455)۔ (3) حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''رسالت اور نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا، پس میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی، (ترمذی: 2272)۔ (4) حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اُس شخص کی سی ہے، جس نے ایک نہایت حسین و جمیل گھر بنایا، مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی، پس لوگ اس گھر کے گرد چکر لگاتے ہیں اور اس کے فنِ تعمیر پر حیرت زدہ ہو کر کہتے ہیں: کاش کہ اس جگہ یہ اینٹ لگا دی گئی ہوتی (تو پھر اس عمارت میں کسی زاویے سے کوئی نَقص باقی نہ رہتا، یہ ہر جہت سے باکمال ہوتی)، آپﷺ نے فرمایا: سو (عمارتِ نبوت کی وہ آخری) اینٹ میں ہوں اور میں خَاتَمُ النَّبِیّٖن ہوں‘‘ (بخاری: 3535)۔
ختمِ نبوت کے موضوع پر صحیح احادیث بکثرت ہیں، حدِ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں، بعض علماء نے ان کی تعداد دو سو سے متجاوز ذکر کی ہے اور شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ختمِ نبوت کے موضوع پر مکرّرات کو حذف کر کے پچاس صحیح احادیث اصل حوالہ جات کے ساتھ تبیان القرآن میں نقل کی ہیں۔ صحابۂ کرامؓ کا بالاجماع انکارِ ختمِ نبوت کو کفر و ارتداد قرار دینے کا ثبوت یہ ہے کہ جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کو مرتد قرار دیا گیا، اس کے خلاف جہاد کرکے اُسے کیفرِ کردار تک پہنچایا گیا اور اس حوالے سے کسی ایک صحابی کا بھی اختلاف ثابت نہیں ہے۔ یہاں ہم نے عقیدۂ ختمِ نبوت کی عام فہم تشریح کی ہے جو اوسط تعلیمی استعداد رکھنے والے کو بھی بآسانی سمجھ میں آ جائے۔ لفظِ ''خَاتم‘‘ کے لغوی معانی اور ان کے اطلاقات، توفّی کے معانی اور اُن کے اطلاقات اور رفعِ عیسیٰ و نزولِ عیسیٰ علیہ السلام، نیز مصلوب نہ ہونے اور تشبیہ کی بحثیں کمرۂ تدریس کے مسائل ہیں۔ عام قاری کو ان میں الجھانا نہیں چاہیے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اللہ کی تقدیر سے اپنی چارج شیٹ (فردِ جرم) خود ہی مرتب کر لی تھی اور اسی کے ذریعے 1974ء میں پاکستانی پارلیمنٹ مکمل اتفاقِ رائے سے اس نتیجے پر پہنچی کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مستقل یا ظلّی و بُروزی نبی یا مجدّد یا مسلمان ماننے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ دستورِ پاکستان کی دوسری ترمیم یہی ہے۔