"MMC" (space) message & send to 7575

بیعت وارشاد …(حصہ سوم)

حدیث مبارک ہے: ''قیامت کے دن مقتولِ مظلوم اپنے قاتل کو پیشانی سے پکڑ کر اللہ کی عدالت میں پیش کرے گا اور عرض کرے گا: اے رب کریم! اس سے پوچھئے کہ اس نے مجھے (ظلماً) کیوں قتل کیا، قاتل عرض کرے گا: (اے رب!) فلاں بادشاہ یا حکمراں کے دور میں مَیں نے یہ قتل کیا، (یعنی وہ دور ہی ظلم کا تھا)‘‘ (نسائی: 4010) اور انسانیت اُسی نظام عدل کے لیے ترس رہی ہے جس کا نمونۂ کامل سید المرسلینﷺ نے قائم فرمایا اور پھر خلفائے راشدین نے اس ''منہاجِ نبوت‘‘ پر نظام خلافت اور نظام عدل کو قائم کر کے دکھایا۔ اسی عدل کی برکات تھیں کہ اس دور کی دونوں سپر پاورز، یعنی قیصر وکسریٰ، عظمت اسلام کے آگے سرنگوں ہو گئیں۔
جہاد ہی میں بقا ہے: رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ''جہاد قیامت تک جاری رہے گا‘‘ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: ''جو قوم جہاد کو ترک کر دیتی ہے، اللہ اس پر ذلّت و رسوائی مسلط فرما دیتا ہے‘‘۔ لہٰذا اہلِ ایمان کی سربلندی اور عزت و سرفرازی کا راز جہاد میں مضمر ہے۔
اشاعتِ فاحشہ نزول بلا کا سبب ہے: حضرت ابوبکرؓ نے اپنے خطبہ میں فرمایا: ''جب کسی قوم میں بے حیائی و بدکاری فروغ پاتی ہے تو اس پر ارضی و سماوی مصیبتیں نازل ہوتی ہیں‘‘۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جب کسی قوم میں اللہ کی نافرمانی کا دور دورہ ہو، معاصی عام ہوں اور وہ طاقت کے باوجو د ان کا سدِباب نہ کرے تو اللہ ان پر عمومی عذاب نازل فرماتا ہے‘‘۔
مسئلۂ تکفیر: آج کل بہت سے لوگ اس مسئلے کو پوری قوت کے ساتھ اجاگر کرتے ہیں کہ ریاست کے علاوہ کسی شخص کو اس امر کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کفر کا فتویٰ جاری کرے یا کسی فعل کو کفر قرار دے اور اس کے مرتکب کو کافر کہے۔ بلاشبہ کسی کو کافر کہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہمارے فقہائے کرام نے لکھا ہے: ''خلاصہ‘‘ وغیرہ میں ہے: جب ایک کلام میں کئی پہلو کفر کا اَحتمال رکھتے ہوں اورایک احتمال کفر سے مانع ہو، تو مفتی پر لازم ہے کہ اس مسلمان کے ساتھ حسنِ ظنّ رکھتے ہوئے، اُس ایک احتمال کو ترجیح دے اور تکفیر سے احتراز کرے‘‘ (عالمگیری، جلد: 2، ص: 283)۔ لیکن اگر کوئی شخص کفریہ معنیٰ کو سمجھ کر اس پر اصرار کرے، تو پھر اس پر کفرکا حکم لگایا جائے گا۔
امارت و خلافت کی بیعت کے بعد جو بیعت رائج ہے‘ وہ رُشد و ہدایت کے لیے ہے، تزکیۂ نفس اور تطہیرِ باطن کے لیے ہے، امتثالِ اوامر اور اجتنابِ نواہی کے لیے ہے، روحانی جِلا اور ارتقا کے لیے ہے اور یہ ہر ایرے غیرے کی نہیں ہو سکتی، ایسے مقتدیٰ کے لیے متشرّع، متدیّن یعنی شریعت پر عامل ہونا اور عالِم ہونا ضروری ہے، اس کا تعلق اہلیت ومعیار سے ہے، کسی کا صاحبزادہ ہونا، شہزادہ ہونا، میرزادہ اور پیرزادہ ہونا کافی نہیں ہے تاوقتیکہ وہ ظاہراً و باطناً شریعت پر عامل نہ ہو اور اپنے اسلاف کے طریق پر کاربند نہ ہو۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
یہی شیخِ حرم ہے جو چُرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بُوذر و دَلقِ اَویس و چادرِ زہرا!
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے بہت سے روحانی مراکز کے سجادگان اور ورثا آج بھی اپنے بزرگوں کے طریقے پر قائم ہیں، صاحبانِ علم بھی ہیں، شریعت و طریقت کے وارث بھی ہیں، اُن کے ہاں تعلیم و تربیت کا نظام بھی ہے اور دینی مدارس و جامعات کا نیٹ ورک بھی ہے، وہ ہماری آنکھ کا تارا اور ہمارے سر کا تاج ہیں اور ہمارے دل میں اُن کا بے حد احترام ہے۔
شریعت، طریقت، مذہب اور مسلک ان میں اصطلاحی اور اعتباری فرق ضرور ہے، لیکن ان میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ وہ راہِ حق و صواب جو وصول الی اللہ کا ذریعہ ہو، اتباعِ سنّت کا مظہر ہو، سنّت سے انحراف نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور اپنے اوپر حق واضح ہونے کے بعد جو شخص رسول کی مخالفت کرے گا اور مومنینِ (صادقین و مخلَصین) کی راہ سے ہٹ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے گا، اُسے ہم اُسی کے حال پر چھوڑ دیں گے اور (قیامت کے دن) اُسے جہنم میں جھونک دیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے‘‘ (النساء: 115)۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے: (1) ''حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ اُس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو جائیں‘‘ (شرح السنہ للبغوی: 104)، (2) ''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری اور تمہاری مثال اُس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، پس جب اُس کا اردگرد روشن ہو گیا اور پروانے اور یہ کیڑے مکوڑے اُس میں گرنے لگے اور وہ انہیں روکے جا رہا تھا، لیکن یہ اس پر غالب آ گئے اور آگ میں داخل ہو گئے، پس تم بھی آگ میں گھسے جا رہے ہو اور میں تمہاری کمر سے پکڑ کر تمہیں روکے جا رہا ہوں‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح: 149)، (3) ایک مرتبہ آپﷺ نے صحابۂ کرام کو نماز پڑھائی، پھر آپﷺ اُن کی طرف متوجہ ہوئے اور ایسا پُراثر وعظ فرمایا کہ صحابہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور اُن کے دل دہل گئے، انہیں لگا کہ آپﷺ آخری وصایا بیان فرما رہے ہیں، آگے چل کر آپﷺ نے فرمایا: ''میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنّت کو لازم پکڑو، اس سے مضبوطی کے ساتھ وابستہ ہو جائو، اسے داڑھوں سے پکڑ لو اور دینی امور میں نئی باتیں وضع کرنے سے بچو (جو سنت کے مخالف ہوں یا جن سے سنت کا ترک لازم آئے)، پس دین میں نئی بات (جو ترکِ سنّت کا موجب ہو) بدعت ہے اور ایسی ہر بدعت گمراہی ہے‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح: 165)۔
آج کل آوارہ منش لوگوں نے طریقت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے، کہیں مرد وزن کے مخلوط اجتماعات ہو رہے ہیں، کہیں نوجوان لڑکے لڑکیوں کے دھمال ہو رہے ہیں، شریعت کی پاسداری کا کوئی اہتمام نہیں ہے، نورانیت و روحانیت کا ماحول نہیں ہے، بلکہ غیر متشرّع اور غیر متدیّن بے عمل اور بدعمل پیر بن کر بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں: علماء کو طریقت کی ہوا تک نہیں لگی، وہ ظاہر بین ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں امام احمد رضا قادری نے لکھا: ''شریعت و طریقت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں، شریعت کے اتباع کے بغیر خدا تک وصول مُحال، شریعت جسم و جاں، روح و قلب، جملہ علومِ الٰہیہ اور غیر متناہی معارف کے تمام احکام کو جامع ہے، جن میں سے ایک حصے کا نام طریقت و معرفت ہے۔ لہٰذا باجماعِ قطعی جملہ اولیائے کرام کے تمام فرمودات کو شریعتِ مُطہَّرہ پر پیش کرنا فرض ہے۔ اگر شریعت کے مطابق ہوں، تو حق و قبول ہیں، ورنہ ردّ کیے جانے کے قابل ہیں اور نامقبول ہیں۔ پس یقینا قطعاً شریعت ہی اصل کار ہے، شریعت ہی مَناط و مَدار ہے، شریعت ہی حق و باطل کو پرکھنے کی کسوٹی اور معیار ہے۔ شریعت راہ کو کہتے ہیں اور شریعت محمدیہ رسول اللہﷺ کا مقرر کیا ہوا طریقِ زندگی ہے اور یہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے۔ یہی وہ راہ ہے کہ پانچوں وقت، ہر نمازکی ہر رکعت میں اس کا مانگنا اور اس پر صبر و استقامت کی دُعا کرنا ہر مسلمان پر واجب فرمایا ہے: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم (ہم کو سیدھا راستہ چلا)، ہم کو محمدﷺ کی راہ پر چلا، ان کی شریعت پر ثابت قدم رکھ۔
اسی طرح طریقت بھی راہ ہی کا نام ہے، اب اگر وہ شریعت سے جدا ہو تو وصول الی اللہ کا ذریعہ نہیں بنے گی، بلکہ شیطان تک پہنچائے گی، جنت تک نہ لے جائے گی، بلکہ جہنم میں لے جائے گی کہ شریعت کے سوا سب راہوں کو قرآن عظیم باطل و مردود فرماچکا۔ لازم و ضروری ہوا کہ طریقت شریعت ہی کا روشن حصہ ہے، اِس کی شریعت سے جدائی مُحال ہے، جو اسے شریعت سے جدا مانتا ہے، وہ اسے راہِ خدا سے ہٹا کر ابلیس کی راہ کو اختیار کرتا ہے، مگر حاشا وکلا! طریقت راہِ ابلیس نہیں، قطعاً راہِ خدا ہے، خواہ بندہ کیسی ہی ریاضتوں، مجاہَدوں اور چِلّہ کشیوں میں وقت گزارے، ہرگز اس رُتبہ تک نہیں پہنچے گا کہ احکامِ شریعت اُس سے ساقط ہو جائیں اور اسے بے لگام گھوڑے اور اونٹ کی طرح چھوڑ دیا جائے‘‘ (مَقَالُ الْعُرَفَاء بِاِعْزَازِ شَرَعْ وَعُلَمَاء، بحوالہ فتاویٰ رضویہ، ج: 21، ص: 523 تا 524، ملخصاً و موضحاً)۔
کسی پیر کی بیعت ضروریاتِ دین میں سے ہے، نہ ضروریاتِ مسلکِ اہلسنّت و جماعت میں سے ہے۔ امام احمد رضا قادری سے سوال ہوا: ''کیا کسی پیر کی بیعت لازمی ہے؟‘‘، آپ نے جواب میں فرمایا: ''مرشد کی دو قسمیں ہیں: ایک مرشد عام، دوسرا مرشد خاص، مرشد عام کلام اللہ، کلام رسول، کلامِ ائمۂ شریعت و طریقت اور کلام علمائے دین ہے۔ عوام کا رہنما کلامِ علماء، علماء کا رہنما کلامِ ائمۂ شریعت و طریقت، ائمہ کا مرشد کلامِ رسول، اور رسول اللہﷺ کا ہادی کلام اللہ۔ فلاحِ ظاہر ہو یا فلاحِ باطن، وہ اس مرشد عام کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی اور جو اس مرشد عام کو نہ مانے، وہ کافر یا گمراہ ہے اور اس کی عبادت ضائع اور مردود ہے۔ مرشد خاص یہ ہے کہ مسلمان کسی عالم سنّی صحیح العقیدہ، صحیح الاعمال جامع شرائط کی بیعت کر لے‘‘۔ آپ نے مُرشدِ حق کی چارشرائط بیان فرمائی ہیں: (1) مسلمان ہو، صحیح العقیدہ اہلسنّت و جماعت ہو، کسی بدعقیدگی میں ملوّث نہ ہو، (2) عقائد کے دلائل اور احکامِ شرعیہ کا عالِم ہو، حتیٰ کہ ہر پیش آمدہ مسئلے کا حل بیان کر سکتا ہو، (3) علم کے تقاضوں یعنی فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات پر دائمی عمل کرتا ہو اور تمام محرّمات اور مکروہات سے بچتا ہو، (4) رسول اللہﷺ تک اس کی نسبت متصل ہو، یعنی اس کے مشایخ کا سلسلہ رسول اللہﷺ تک پہنچتا ہو‘‘ (فتاویٰ افریقیہ، ص: 146 تا 147، الملفوظ، ج: 2، ص: 56)۔
یہ سطور ہم نے اس لیے لکھی ہیں کہ آج کل بیعت و ارشاد یا پیری مریدی ایک رسم سی بن گئی ہے، بلکہ کاروبار بن گیا ہے، شریعت و طریقت کا کوئی معیار دور دور تک نظر نہیں آتا، بعض نے اسے دنیاوی مال و متاع کی طرح مالِ وراثت سمجھ رکھا ہے اور کسی علمیت، قابلیت و اہلیت اور معیارِ تقویٰ کے بغیر پیر طریقت بن جاتے ہیں، باطنی تزکیہ و طہارت تو دور کی بات ہے، ظاہرِ شریعت کا معیار بھی باقی نہیں رہا۔ مرید، اِرادت سے بنا ہے اور ''بیعتِ ارادت‘‘ کے معنی ہیں: ''کسی شخص کا دینی، دنیاوی اور اخروی امور میں شریعت کے خلاف اپنی خواہشاتِ نفس کو ترک کرکے اپنے آپ کو شیخِ کامل، ہادیِ برحق اور واصل بالحق کے سپرد کر دینا، یعنی اپنے آپ کو اپنے شیخ کے توسط سے رضائے الٰہی اور رضائے نبوی کے تابع کر دینا‘‘۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں