انصاری کمیشن رپورٹ

سابق صدرجنرل ضیاء الحق نے ملکی سیاسی نظام کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کیلئے 10 جولائی 1983ء کومولانا ظفر احمد انصاری کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا تھا‘تاکہ ایک ایسے سیاسی خاکے کی بنیادیں فراہم کر دی جائیں ‘جو قرآن و سنت کے احکام‘ اسلامی اقدار‘ روایات‘ عصری تقاضوں اور ملکی حالات سے مطابقت رکھتا ہو اور ایک اسلامی جمہوری نظام کے قیام کی طرف موثر انداز میں پیش قدمی کی جا سکے۔ کمیشن کی تیار کردہ سفارشات کی روشنی میں مستقبل میں پاکستان کا حکومتی ڈھانچہ یورپی طرز کا قطعی نہیں ہوگا‘ بلکہ اس کی بنیاد امریکی صدارتی اور برطانوی پارلیمانی نظام کی بجائے اسلامی جمہوریت و نظریات پر رکھی جائے گی ‘مگرصد افسوس کہ مذکورہ کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد نہ کیا گیا اور پاکستان کو فرسودہ اور دقیانوسی نظام کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔ آج '' انصاری کمیشن رپورٹ ‘‘ مملکت خداداد کی حالت ِزار پر ماتم کناں ہے ۔
حقیقت محتاجِ بیان نہیں کہ پاکستان کے قیام کا اہم ترین مقصد اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک ایسے معاشرے کا قیام تھا ‘جس میں لوگ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے مطابق بسر کر سکیں۔ کمیشن کے اغراض و مقاصد یہ تھے کہ ایک ایسے سیاسی خاکے کی بنیادیں فرہم کردی جائیں جو قرآن و سنت کے احکام‘ اسلامی اقدارو روایات‘ عصری تقاضوں اور ملکی حالات سے مطابقت رکھتا ہو۔ یہ خاکہ اس انداز سے ترتیب دیا جائے کہ اسلامی جمہوری نظام کے قیام کی طرف موثر انداز میں پیش قدمی کی جا سکے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کیلئے برطانوی‘ امریکی‘ فرانسیسی یا کوئی اور نظام اختیار کرنے کی بجائے کمیشن اسلام کے شورائی نظام کے نفاذ کی پرزور سفارش کی گئی؛ البتہ تفصیلات و جزئیات مرتب کرنے میں اپنے یا دوسروں کے تجربات سے استفادے میں کوئی امر مانع نہیں۔اسلامی ریاست کے قیام ‘ اس کی کامیابی اور اس کے مقاصد کی تکمیل میں امت مسلمہ کے بعد سب سے زیادہ اہم کردار امیر مملکت کا ہوتا ہے۔کمیشن نے متفقہ طور پر سفارش کی کہ پاکستان کا ایک امیر مملکت ہو جو مملکت پاکستان کا رسمی سربراہ بھی ہو اور حکومت کا انتظامی سربراہ بھی‘ جبکہ برطانوی ساخت کا پارلیمانی نظام نے سوائے خرابیوں کے کچھ نہیں دیا ‘اس کے تحت مملکت کے تینوں بنیادی ادارے وزیر اعظم کی مٹھی میں آگئے ؛چونکہ اس نظام میں پارلیمنٹ کو مقتدر اعلیٰ کی حیثیت حاصل ہے۔ پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کو جو اختیارات رکھنے اور اپنی من مانی کرنے کے مواقع بہت ملتے رہنے کے باوجود یہ لوگ انفرادی طور پر کہیں بھی جوابدہ نہیں ہوتے‘ اگر اسمبلی میں حکمران پارٹی کو مستقل اکثریت حاصل ہو جائے تو پھر پانچ چھ سال تک کوئی بھی ان سے باز پرس نہیں کر سکتا ۔ اس کے برعکس‘ اگر حکمراں پارٹی کو ایوان میں مستقل اور مطلق اکثریت حاصل نہ ہو تو نہ کبھی مضبوط اور پائیدار حکومت بنتی ہے اور نہ یکسوئی سے فیصلے ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت ِ حال میں حکومت مجبور ہوتی ہے کہ ہر قابل ذکر پارٹی کو خوش رکھے اور وزارت برقرار رکھنے کیلئے ہراہم معاملے پر سودے بازی کرے۔پارلیمانی نظام میں وزارت کی نازک اور اہم ذمہ داریاں سپرد کرتے وقت فرد کی لیاقت اور صلاحیت کی بجائے اسمبلی میں اس کی حیثیت اور اس کے جتھے کی تعداد پیش نظر رکھنی پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں‘ جس انداز کی قومی اور صوبائی اسمبلیاں منتخب ہوتی رہی ہی یا ہو رہی ہیں‘ ان کو ہم اسلامی روایات کی حامل مجلس شوریٰ کا درجہ نہیں دے سکتے۔ ان میں ایک بڑی خامی یہ ہے کہ ان کے ارکان کے انتخاب میں اوصاف و شرائط اور خصوصیات کا کبھی لحاظ نہیں رکھا جاتا‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان اداروں کے فیصلوں کو نہ تو کبھی دینی اعتبار سے وہ قبول عام حاصل ہوا‘ جو شوریٰ کے فیصلوں کو اسلامی ادوار میں حاصل ہوتا تھا اور نہ ان فیصلوں میں اکثر و بیشتر معاشرے کے تمام طبقوں کے مفادات کو پیشِ نظر رکھا گیا۔ گزشتہ سیاسی ادوار کا مشاہدہ یہی ہے کہ جو منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں‘ وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کی کامیابی ان کے حلقے کے رائے دہندگاں کی مہربانی کی مرہون منت ہے‘ وہ ان کی اس مہربانی کو آئندہ انتخاب میں بھی یقینی بنانے کیلئے ان کی ہر جائز و ناجائز خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ اپنی پارٹی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور اگر وہ آزاد رکن ہیں تو عام طور پر اس گروہ کا ساتھ دیتے ہیں‘ جس کا ساتھ دینے سے ان کے شخصی مفادات پورے ہو سکیں ؛چنانچہ پارلیمانی جمہوریت ہو‘ صدارتی جمہوریت‘ یا بنیادی جمہوریت ہو‘ عام آدمی کی حالت اور ملک کے عام نظم ونسق میں کوئی فرق نہیں پڑتا‘ اس لئے کہ کرتا دھرتا یہی بااثر اجارہ دار رہتے ہیں ۔ اس امر میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ جماعتی انتخابات کا نظام ہمارے ملک میں مغرب کے رائج الوقت سیاسی تصورات اور بالخصوص برطانیہ کے زیر اثر آیا ہے۔ تاریخ اسلام میں حصول اقتدار کیلئے اس نوع کی جتھ بندی کی کوئی مثال نہیں ملتی‘ جہاں مسلمانوں نے مسلمانوں کے خلاف بہتان طرازی ‘ گالم گلوچ ‘بلکہ مار پیٹ اور قتل و غارت تک کے حربے استعمال کر کے حصول اقتدار کی سعی کی ہو اور اس کو کبھی پسندیدہ یا جائز سمجھا ہو۔ 
ظاہر ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے اس صورت ِ حال کو کسی طرح بھی قابل قبول قرار نہیں دیا جاسکتا۔امیر مملکت مرکزی مجلس شوریٰ کے فیصلوں کا پابند ہوگا۔امیر مملکت کا انتخاب مرکزی مجلس شوریٰ اور صوبائی مجالس شوریٰ کے جملہ ارکان پر مشتمل انتخابی ادارہ کے ذریعہ ہوگا۔امیر مملکت کے منصب کی میعاد‘ تاریخ حلف برداری سے پانچ سال ہوگی۔کوئی فرد دو بار سے زیادہ منصب امارت کیلئے منتخب نہیں ہوسکے گا۔کمیشن کے تحت مرکزی مجلس شوریٰ‘ ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا کے دو ایوانوں پر مشتمل ہوگی۔ مرکزی مجلس شوریٰ کا ایوانِ زیریں آبادی کے تناسب سے پورے ملک کے حلقہ ہائے انتخاب سے چنا جائے گا اور ایوانِ بالا صوبوں کی مساوی نمائندگی کے اصول پر منتخب ہوگا۔ مجالس شوریٰ کے ہر مسلم رکن کیلئے لازمی ہوگا کہ وہ مندرجہ ذیل اوصاف کا حامل ہو۔باکردار مسلمان ہو اور اسلامی احکام سے انحراف کی شہرت نہ رکھتا ہو۔اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور فرائض کا پاند اور کبائر سے مجتنب ہو۔کسی اخلاقی جرم میں یا جھوٹی گواہی دینے میں سزا یافتہ نہ ہو۔پاکستان کا شہری ہو‘ اور اس کا نام انتخابی فہرست میں شامل ہو۔قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت اور نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو؛ البتہ غیر مسلم ارکان شوریٰ صفات و شرائط (1) اور (2) سے مستثنیٰ ہوں گے ‘مگر ان کیلئے ضروری ہوگا کہ اخلاق و کردار میں ان کی عام شہرت اچھی ہو۔مملکت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ہر باشندے کو مفت اور سہل الحصول انصاف بعجلت ممکنہ فراہم کرنے کا اہتمام کرے۔کمیشن کی رو سے عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہوگی اور اس کے اختیار انصاف رسائی پر کوئی پاندی عائد نہ ہوگی۔ عدالت عظمیٰ اور ہرعدالت عالیہ کے چیف جسٹس کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ با کردار مسلمان ہو اور اسلامی شریعت کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو۔اس سلسلے میں وفاقی شرعی عدالت کے ابتدائی اختیارِ سماعت پر اس وقت جو پابندیاں عائد ہیں اور جن کے تحت دستور‘ ضابطے کے قوانین‘ مالی قوانین اورمسلم شخصی قوانین کو اس کے دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا ہے۔ انہیں فوراً ختم کردیا جائے گا اور ہر قسم کے قوانین وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار میں داخل ہوں گے۔
ناگزیر ہنگامی صورتِ حال سے عہدہ برآ ہونے کیلئے کمیشن مناسب سمجھتا ہے کہ دستور میں ایک ایسی قومی کونسل تشکیل کا اہتمام کیا جائے ‘جو ہنگامی حالات کا اعلان کرنے اور اس میں مناسب اقدام کرنے کے اختیارات رکھتی ہو۔ لمحہ ٔ فکریہ تو یہ ہے کہ نظام عالم کی تشکیل نو کیلئے جب لاک ڈائون کی آڑ اور کورونا وائرس کے بہانے پوری دنیا یرغمال بنا لی گئی ہے‘لہٰذا حالیہ شورش کو اگر اس نظر سے دیکھیں تو پرتیں صاف کھلتی نظر آتی ہیں کہ مغرب کو اپنے تہذیبی سرمائے کے ساتھ اوندھے منہ گرانے اور امریکا جیسی سپر پاور کو گہری کھائی میں دھکیلنے کے بعد ''دی ایلڈرز‘‘ کی تگ و دو انتہائی معنی خیز ہے۔ ان پر آشوب حالات میں ہمیں اسلامی نظام کی اشد ضرورت ہے ‘ اگرہم آج بھی اسلاف کے بتائے اصول اپنا لیں تو فلاح پا سکتے ہیں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں