عالمی اقتصادی بحران‘حال ہی میں پھوٹنے والے پرتشدد تنازعات اورکوروناوائرس کے تباہ کن اثرات نے امریکا کی عالمی حیثیت پر بڑی کاری ضرب لگائی ہے‘ جس سے اس کی طاقت مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ امریکا کے لیے کورونا ایک ایسا دشمن ثابت ہوا ہے ‘جو اسے نظر نہیں آ رہا۔ سیاہ فام باشندے جارج فلائیڈ کی موت کیخلاف یورپ تک پھیل چکے ہنگاموں نے وائٹ ہاؤس کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکا باوجود طاقت اور وسائل کے اس مظلوم آبادی کے غصے پر قابو پانے سے عاجز ہے۔ بندوق برادر پولیس و سکیورٹی فورسز کے سامنے یہ سینہ تانے ڈٹ گئے ہیں۔ امریکا کے سیاہ فام مظلوموں نے دنیا کے سپرپاور تکبر وغرورمیں مبتلا امریکی حکومت کو لرزہ براندام کرکے رکھ دیا ہے۔ درحقیقت جارج فلائیڈ کی موت نے فاشٹ اور نسل پرست ظالموں کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ اس دوران جلائو‘ گھیرائو‘ لوٹ مار کے واقعات بھی ہوئے‘ جسے بنیاد بنا کر سفید فام انتہا پسندوں کے ساتھ صدر ٹرمپ نے ان مظاہرہ پر ٹھگوں کے اجتماع کی پھبتی کسی۔ امریکا کے ساتھ نیوزی لینڈ‘ برطانیہ‘ برازیل‘ لبنان‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ اٹلی‘ فرانس‘ ڈنمارک اور یورپ کے بڑے شہروں میں بھی '' Black Lives Matter‘‘ کے ساتھ ''انصاف نہیں تو امن نہیں‘‘ کے نعرے لگائے۔ یہ نعرہ نہیں{ نظریہ ہے‘ یہ عزت اور حقوق کا زینہ ہے۔
1968ء میں سیاہ فام لیڈر مارٹن لوتھر کنگ کے قتل کے بعد سے امریکا میں عوامی احتجاج کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہوگئی ہے‘ کیونکہ ان میں سیاہ فاموں کے ساتھ بڑی تعداد میں گورے بھی شامل ہوگئے۔اس وقت امریکا کو خارجی اور داخلی محاذوں پر غیر اعلانیہ جنگ جیسی صورت ِ حال کا سامنا ہے ۔ واشنگٹن میں اقتدار کی جنگ میں سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے۔ وائٹ ہائوس میں دوسری میعاد کو یقینی بنانے کیلئے ماضی میں متعدد صدور نے الیکشن سے قبل کسی نہ کسی ملک پر چڑھائی کی تھی۔ یہ بات واضح ہوگئی کہ ٹرمپ نے عوام کے جذبات کا استحصال کرکے تشد کو ہوا دی‘ تاکہ قیام امن کے لیے سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کا جواز حاصل کر سکے۔ سابق ملٹری جرنیلوں نے اس طرح کے بھی اقدام کو خطرناک قرار دیا۔ ٹرمپ وبائی اور معاشی دونوں بحرانوں سے نمٹنے میں ناکام ہو چکے ہیں اور پانچ ماہ بعد ہونے والے اگلے انتخابات میں ان کی فتح مشکل ہے‘ اس لیے ان ہنگاموں میں امید کی کرن نظر آئی۔ امریکی آئینی نظام کی دیرینہ روایت رہی ہے کہ آرمی ہمیشہ سیاست سے دور رہتی ہے۔ ٹرمپ جب وائٹ ہائوس سے نکل کر سینٹ جان چرچ کی جانب گامزن تھے تو یونیفارم میں ملبوس جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے سربراہ جنرل مارک میلی ان کے ہمراہ تھے۔ ٹرمپ کی یہ روایت شکن امریکا کے لیے نیک شگون نہیں۔ یہ کہنا بھی قیاس سے خالی نہیں کہ ٹرمپ چین اور ڈبلیو ایچ او کو لے کر انتخابی کارڈ کھیل رہا ہے‘ جسے گزشتہ انتخابی مہم میں میکسیکو کو لے کر کھیلا گیا تھا۔ اس بار عام انتخابات میں چین کو سبق سکھانے کے لیے کووڈ19 کو استعمال کیا جا رہا ہے۔دنیا کی سب سے بڑی معیشت والی طاقت امریکا اپنے دبدبہ کو برقرار رکھنے کے چین سے براہِ راست جنگ نہ لڑ کر اس کی معیشت کو للکار رہا ہے۔ امریکا نے کورونا کو چینی وائرس کہہ کر تمسخر اُڑایا اور ا لزام لگایا کہ یہ وائرس چین کے شہر ووہان کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا اور نقصان پہنچانے کے لیے امریکا بھیجا؛حالانکہ چین نے اس کی بارہا تردید کی۔ چین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کو امریکا نے تیار کرتے اپنے فوجیوں کے ذریعے ووہان پہنچایا‘ تاکہ چین اس وبا کا شکار ہو کر معاشی طور پر کمزور پڑ جائے؛بلا شبہ چین بڑی سرگرمی اور انتہائی مہارت سے اس خلاء کو پرُ کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ جو اس وبائی بحران میں اپنے آپ کو عالمی لیڈر ثابت کرنے میں ناکامی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
چین گزشتہ کئی برسوں سے اپنی تجارت میں توسیع کرتے ہوئے امریکی معاشی منڈیوں پر بھی اپنا تصرف قائم کرچکا ہے۔ عالمی ماہرین سیاسیات کے مطابق ‘اگر امریکا اس لڑائی میں کمزور پڑتا ہے تو یا اس جنگ سے باہر ہو جاتا ہے تو اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ چین دنیا میں امریکا کی جگہ لے کر معیشت اور سیاست کا سپر پاور ملک بن جائے۔ دوسری جانب یورپین یونین میں بھی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ چین سپر پاور بننے کی جانب گامزن ہے؛ چنانچہ یورپی یونین حالات پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہے ‘اگر امریکا سپر پاور کا تاج کھو دیتا ہے تو نا صرف اس کے دوست ممالک چین کے قریب چلے جائیں گے‘ بلکہ یورپی یونین بھی چین کے ساتھ جانے میں دیر نہیں کرے گی۔ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں اور ''امریکا فرسٹ‘‘ نعرہ کے باعث اس کے اثر و رسوخ سے نکلنے کی خواہش زور پکڑتی جا رہی ہے اور اس ضمن میں یورپ کے کئی ایک ممالک کی طرح فرانس کے صدرخاصے پرُ جوش دکھائی دے رہے ہیں اوریورپی یونین کے بعض ممالک متبادل سپرپاور کو ٹھوس شکل دینے کیلئے نیٹو کی بجائے اپنی فوج تیار کرنے پر زور دے رہے ہیں‘جس میں روس کو بھی شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ7 دہائیوں میں امریکا کی عالمی رہنما ہونے کی حیثیت کا انحصار صرف دولت اور فوجی قوت پر ہی منحصر نہیں تھا‘ بلکہ یہ حیثیت امریکی حکومت کو داخلی طور پر بہتر طرز حکمرانی کی وجہ سے حاصل قانونی جواز‘ انسانیت کی فلاح کے کاموں اور کسی بھی عالمی بحران کی صورت میں فوری اور مربوط رد عمل کیلئے تیار رہنے اور متحرک ہو جانے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے تھا ‘ لیکن اب سنگین تنازعات اورجان لیوا وبا کورونا وائرس امریکا کی عالمی برتری کے تینوں عناصر کا امتحان ہے‘ جس پرٹرمپ انتظامیہ تاحال اس پر پورا نہیں اتر سکی۔کیا امریکی صدر اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے عوام کو تقسیم کررہے ہیں؟یہ ایک غور طلب ایسا سوال ہے‘ جس کا جواب یقینا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب پر عیاں ہوتا جا رہا ہے۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ دنیا کے تمام ممالک کے انتظامی اور سیاسی ڈھانچوں کے کڑے امتحان کا دورشروع ہو چکا ہے۔ موجودہ دور کی سیاسی قیادت کو اس کسوٹی پر پرکھا جائے گا کہ وہ اس نازک وقت میں کیا فیصلے کرتی ہے‘یہ دیکھا جائے گا کہ کون سی قیادت کتنی فصاحت اور بلاغت کا مظاہرہ کرتی ہے ۔ دنیا میں معمولی علاقائی تنازعات ہی پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا سبب بنے تھے‘ آسٹریا کی طرف سے 28 جون 1914 ء میں شاہی خاندان کے فرد فرانز فرڈینینڈ کے قتل کی پاداش میں سربیا پر چڑھائی کا فیصلہ جنگ کا باعث بنا۔آسٹریا اور ہنگری کی پوزیشن بلقان کے خطے میں کمزور ہو رہی تھی اور انہوں نے اسی بنا ء پر جنگ کا راستہ اختیار کیا‘مگرسربیا کے خلاف جنگ کیلئے آسٹریا اور ہنگری کو جرمنی کی حمایت کی ضرورت تھی اور پھر جرمنی کی جانب آسٹریا کی غیر مشروط حمایت ہی اس جنگ کی وجہ بنی ۔آسٹریا اور جرمنی دونوں جانتے تھے کہ سربیا پر حملے کی صورت میں روس سربیا کی حمایت کرے گا اور پھر یہ جنگ مقامی جنگ نہیں رہے گی ‘بلکہ یورپ گیر جنگ میں بدل جائے گی۔جنگ عظیم دوم کے شروع ہونے کی وجوہ بھی پہلی جنگ عظیم سے ملتی جلتی ہی ہیں۔جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو2دن بعدہی برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ان دونوں ممالک کے ساتھ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی شامل ہو گئے۔6 ستمبر کو جنوبی افریقااور پھر 10 ستمبر کو کینیڈا نے بھی ان سے ہاتھ ملا لیا۔مغربی اتحادیوں نے جرمنی کی جو بحری ناکہ بندی شروع کی تھی ‘اس کا مقصد یہ تھا کہ جنگی کوششوں اور معیشت کو نقصان پہنچایا جائے۔یکم ستمبر 1939ء سے 1945ء تک جاری رہنے والی دوسری جنگ عظیم نے پوری دنیا کا نقشہ ہی تبدیل کر دیاتھا۔
ادھرروس اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی پیداوار پر تنائو سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت بہت گر چکی ہے‘ جس سے بعض ممالک دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں ۔ لبنانی ریاست کی طرح ترکی‘ ارجنٹائن‘ انڈیا‘ انڈونیشیا اور جنوبی افریقا جیسی درمیانی معیشتیں تباہی کی جانب گامزن ہیں۔اب ‘موجودہ حالات میں دیکھنا یہ ہے کہ امریکی قیادت کتنی دانش کا مظاہرہ کرتی ہے ۔یہ سپر پاور امریکا کی عالمی برتری کاکڑا امتحان ہے۔