گلگت بلتستان ففتھ جنریشن وار فیئر کا اگلا ہدف؟

قدرتی حسن و جمال میں اپنی مثال آپ اور جنت کا ٹکڑا، تین ایٹمی ریاستوں کے درمیان واقع گلگت بلتستان کا علاقہ دو پہاڑی سلسلوں ہمالیہ اور قراقرم کے دامن میں پھیلا ہوا ہے جہاں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اور دنیا کے عظیم ترین گلیشیر سیاچن، بیافو اور بلتر واقع ہیں۔ بلتستان کے مشرق میں لداخ، مغرب میں گلگت اور جنوب میں جموں و کشمیر واقع ہیں جبکہ شمالی سرحد چین کے صوبہ سنکیانگ سے ملتی ہے۔ نسلی اور لسانی اعتبار سے لداخ بھی اس ریجن کی حددو میں شامل ہے۔آج پوری دنیا کی نظریں گلگت بلتستان پر ہی مرکوز ہیں۔ ملکی و بین الاقوامی تناظر میں گلگت بلتستان کی عوامی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخی فیصلہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دیے جانے سے پاکستان کا موقف کمزور نہیں بلکہ زیادہ مضبوط ہو گا۔ ماضی میں شمالی علاقہ جات چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستوں پر مشتمل تھے۔ ہندوستان میں برطانوی دورِ حکومت میں روس نے سینٹرل ایشیا کی ریاستوں کو فتح کرنے کے بعد اس علاقے پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا تو 1935ء میں مہاراجہ کشمیر نے یہ علاقہ حکومت برطانیہ کو لیز پر دے دیا۔ کرنل ڈیورنڈ کو اس علاقے کا پولیٹکل ایجنٹ مقرر کیا گیا۔ 1947ء میں جب ہندوستان انگریز کی غلامی سے آزاد ہوا تو یہ علاقہ مہاراجہ کشمیر نہیں بلکہ انگریزوں کے تسلط میں تھا۔ گلگت سے 40 میل دور جنوب کی جانب بونجی کے مقام پر مہاراجہ کشمیر کی جموں اینڈ کشمیر بٹالین نمبر 6 تعینات تھی‘ مہاراجہ نے موقع اور حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے انگریزوں سے کئے گئے معاہدے کو پس پشت ڈال کر بریگیڈیئر گنسارا سنگھ کو اس علاقے کا گورنر مقرر کر دیا جو فوج کی مدد سے علاقے میں داخل ہو گیا اور گلگت پر قابض ہو گیا۔ برطانوی وائسرائے، کمشنڈ آفیسرز اور بونجی بٹالین کے مسلمان افسران نے گنسارا سنگھ کو شکست دی اور اسے گرفتارکر لیا۔ کرنل حسن اور علاقے کے مسلمان مجاہدین نے 16 دن تک اس آزاد کردہ علاقے پر حکومت کی۔ اس طرح گلگت بلتستان کے غیور عوام نے بڑی دلیری کے ساتھ جنگ لڑتے ہوئے ڈوگرہ راج سے نہ صرف آزادی کی نعمت حاصل کی بلکہ کشمیر کے ایک تہائی حصے کو انڈیا سے آزاد کروا لیا۔
16 نومبر 1947ء کو حکومتِ گلگت و بلتستان نے الحاقِ پاکستان کا اعلان کیا۔ قانونی حیثیت تو یہ ہونا چاہئے تھی کہ اسے بوقتِ الحاق پاکستان میں پانچواں صوبہ بنا دیا جاتا لیکن ہوا یہ کہ 1954ء تک اس علاقے کے لوگ اپنا ڈومیسائل مظفر آباد‘ آزادکشمیر سے حاصل کرتے تھے۔ اگرچہ 1937ء اور 1941ء کے ریاستی انتخابات میں گلگت بلتستان سے 5 نمائندے منتخب ہو کر کشمیر اسمبلی میں جاتے تھے اور 1947ء تک کشمیر اسمبلی میں اس علاقے کی نمائندگی تھی ؛ تاہم تاجِ برطانیہ کی رخصتی کے وقت 1947ء میں یہ آزاد ہوا تو مہاراجہ کشمیر کے زیر تسلط نہ تھا۔ یہاں پر ہم سے ایک قانونی غلطی یہ ہوئی کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھارت کے دبائو پر اسے کشمیرکا حصہ تسلیم کر لیا گیا اور اب اگر اسے پاکستان کا پانچواں صوبہ بنایا گیا تو یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہو گی جس سے پاکستان کا کشمیر پر موقف کمزور جائے گا اور بھارت بھی اسے جواز بنا کر ردعمل میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں شامل کر لے گااس طرح ''تقسیمِ کشمیر‘‘ کی راہ ہموار ہو جائے گی؛ تاہم حکومت پاکستان نے 1970ء میں گلگت ایجنسی اور بلتستان کو سنگل یونٹ بنا دیا اور اس کا نام شمالی علاقہ رکھ دیا گیا۔ گلگت بلتستان کو 2009 ء میں صدر آصف علی زرداری نے محدود اختیارات دے کر گورنر کے زیر سایہ اس کی اپنی حکومت قائم کر دی تاکہ لوگوں کو بہتر طریقے سے شہری حقوق دیے جا سکیں۔ 2009 ء کے گورننس آرڈر میں چیف ایگزیٹو کو وزیراعلیٰ کا نام دیا گیا اور گورنر کا عہدہ بھی تخلیق کیا گیا اور ساتھ میں کابینہ کے لوگوں‘ جو پہلے مشیر ہوتے تھے‘ کو وزراء بنا دیا گیا، یوں گلگت بلتستان ڈی فیکٹو صوبہ بن گیا۔گلگت بلتستان کے 18لاکھ عوام حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو مکمل صوبہ بنایا جائے ۔
مسلم لیگ نون نے بھی آئینی صوبے کا نعرہ لگایا مگر الیکشن کے بعد روایتی انداز میں عوام کو اخباری بیانات سے تسلی دی جانے لگی۔ عوامی دبائو پر سرتاج عزیز کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی سفارشات میں واضح طور پر کہا گیا کہ گلگت بلتستان کو وفاق کی اکائی میں شامل کرنے یا مکمل طور پر پاکستان کا پانچواں آئینی صوبہ بنانے سے بین الاقوامی طور پر پاکستان کے لئے بہت زیادہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور اس قسم کے اقدامات کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کے تناظر میں اقوام متحدہ میں مملکت پاکستان کا کیس کمزورہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسے مکمل انتظامی صوبے کا درجہ کیوں نہیں دیا جا رہا؟ اس خطے کے ساتھ اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہوگی؟ پاکستان کی مقننہ میں اسے نمائندگی حاصل نہیں۔ قومی مالیاتی کمیشن یعنی این ایف سی ایوارڈ میں بھی شامل نہیں کیا گیا۔ جس طرح فاٹا کو دونوں ایوانوں میں خصوصی نمائندگی دی گئی تھی‘ اس طرح گلگت بلتستان کو بھی خصوصی نمائندگی دی جائے اور قومی اسمبلی میں 8 اور سینیٹ میں 6 نشستیں مختص کی جائیں تاکہ عوام کی مایوسی کو کم کیا جا سکے۔وفاق میں موثر نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان اور وفاقی حکومتوں کے درمیان ہمیشہ سے ایک خلا رہا ہے اور اب یہ خلا تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ اس وقت گلگت بلتستان عملاً ایک صوبہ ہے مگر قانونی طور پر دیگرصوبوں کی طرح آئینی صوبہ نہیں ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو کارگل‘ لداخ میں اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لئے بہت طویل سفر کرنا پڑتا ہے۔ گلگت بلتستان سے ملک کے دیگر علاقوں میں آمدورفت کا واحد ذریعہ پی آئی اے ہے، ٹرانسپورٹ کی سہولت برائے نام ہے جبکہ برف باری میں اس علاقے کا رابطہ پورے ملک سے کٹ جاتا ہے۔ ہر آنے والی حکومت کے سامنے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کب تک علاقے کے عوام گومگوں کی حالت میں بے بس زندگی گزارتے رہیں گے؟ گلگت بلتستان میں کوئی بڑا ہسپتال نہیں، علاقے میں بجلی کی شدید کمی اور ترسیلی نظام ناقص ہے حالانکہ گلگت بلتستان میں متعدد ڈیم بنائے جا سکتے ہیں، اس سے اربوں روپے کی آمدن ہو سکتی ہے۔ گلگت و بلتستان میں بڑی بڑی صنعتیں لگائی جا سکتی ہیں اور ہزاروں بیروزگاروں کو روزگار مہیا ہو سکتا ہے۔ یہاں سکولوں‘ کالجوں کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے طالب علم دوردراز کے شہروں میں جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پانی کی کمی کی وجہ سے گلگت بلتستان کا زیادہ زمینی حصہ بنجر ہے، اگرچہ دریائوں میں ہر وقت پانی رہتا ہے لیکن نہروں میں نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے کاشتکاروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دوسری جانب متوقع برف باری اور سرد موسم کے آغازمیں لوگوں کے مسائل کو جانے بغیر اگلے ماہ اکتوبر میں اسمبلی الیکشن کے انعقا د کا اعلان کر دیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ یہاں کی نوجوان نسل کے اندر حقوق کے لئے آگاہی کی وجہ سے احساسِ محرومی روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کی جدت اور سوشل میڈیا نے نیا منظرنامہ تشکیل دیا ہے، اب استعماری قوتوں کو کٹھ پتلیوں کی بھی ضرورت نہیں رہی، یہ ففتھ جنریشن وار فیئر کا دور ہے۔ ففتھ جنریشن وار فیئر کی سادہ تعریف یہی ہے کہ کسی ملک کے نوجوانوں کے ذہنیت کو سوشل میڈیا کے ذریعے خراب کر کے اسی ملک کے حکمرانوں اور اداروں کے خلاف اکسایا جائے تاکہ ملک میں عدم استحکام کی فضا پیدا ہو۔ اس منظرنامے میں گلگت بلتستان کی اہمیت اور بھی بڑھ چکی ہے کیونکہ یہاں کے لوگ فطری طور پر سادہ لوح ثابت ہوئے ہیں، متنازع اور غیر متنازع کی بحث نے خطے کی حساسیت کو اور بھی بڑھا دیا ہے، یہ حساسیت ففتھ جنریشن وار فیئر کے لئے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ خدشہ ہے کہ روش نہ بدلی گئی اور عوام کو ایک اور لالی پاپ قسم کے پیکیج سے ٹرخانے کی کوشش کی گئی تو نوجوان نسل کے جذبات کو ہوا ملے گی اور محرومی کا احساس باغیانہ سوچ کو جنم دے گا۔ یقینا اس بات کا ادراک پاک فوج کو بھی ہے اور آرمی چیف نے بھی اس خطرے کی نشاندہی کر دی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں