امریکی صدارتی انتخابات:نئے سفارتی تعلقات کا امتحان

بالآخر امریکی صدارتی الیکشن کی بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے اور ڈیموکریٹک امیدوار جوبائیڈن نے واضح برتری کے ساتھ وائٹ ہائوس جانے کی راہ ہموار کر لی ہے جبکہ ٹرمپ کفِ افسوس ملتے رہ گئے۔ جوبائیڈن نے امریکی تاریخ میں پہلی بار 7 کروڑ سے زائد ووٹ لے کر ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے 6 کروڑ سے کچھ زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں۔ عہدۂ صدارت پر براجمان ہونے اور وائٹ ہاؤس کا مہمان بننے کے لیے صدارتی امیدوار کو 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں اور جوبائیڈن یہ ہدف تقریباً حاصل کر چکے ہیں؛ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکا ر کرتے ہوئے انتخاب میں کامیابی کا دعویٰ اور ساتھ ہی فراڈ کا الزام بھی لگاتے ہوئے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کر دیا ہے جس سے امریکا میں حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔دنیا بھر میں امریکا کے صدارتی انتخابات کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس کے کم یا زیادہ اثرات بالواسطہ یا بلاواسطہ دنیا بھر پر مرتب ہوتے ہیں۔ امریکا میں جاری انتخابی عمل کے حوالے سے وطن عزیز میں بھی جوش و خروش کا عنصر نمایاں رہا۔ سوال یہ ہے کہ کیوں امریکی الیکشن بری طرح میڈیا سمیت حکمرانوں کے اعصاب پر سوار ہو جاتے ہیں کہ اس شور و غوغے میں اہم مسائل کو بھی پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ شاید ہم امریکی بے وفائیوں اور بے اعتنائیوں کو بہت جلد بھول جاتے ہیں‘ اسی لئے ہر آنے والے امریکی صدر سے امیدیں وابستہ کر بیٹھتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ چاہے اوباما ہو، ٹرمپ ہو یا بائیڈن‘ پاکستان کے ساتھ ان کے امتیازی رویوں میں فرق نہیں آئے گا۔ ان کی نوازشوں کا سلسلہ ہمارے ازلی دشمن بھارت پر ہی رہیں گی اور ہمیں بدستور گرے لسٹ سمیت دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں الجھایا رکھا جائے گا۔ پاکستان رقبے اور آبادی میں بھارت سے قدرے چھوٹا ہونے کے باوجود جغرافیائی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، بطور پاکستانی ہمارے لئے سب سے قابل غور امر یہ ہونا چاہئے کہ نئی امریکی حکومت پاکستان کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرے گی۔
امریکی تاریخ گواہ ہے کہ امریکا میں حکومت کی تبدیلی کبھی پالیسیوں میں تبدیلی کا باعث نہیں بنا کرتی، امریکا اپنے ریاستی مفاد سامنے رکھ کر ہی پالیسیوں میں رد و بدل کرتا ہے۔ جوبائیڈن کے آنے سے بھی امریکی پالیسیوں میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آ ئے گی۔ وہاں کی انتظامیہ، ایجنسیاں اور تھنک ٹینک کئی برس آگے کی پالیسیاں بناتے اور منصوبہ بندی کرتے ہیں‘ اس لئے چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ ٹرمپ کی پالیسیوں نے خاص طور سے جنوبی ایشیا، افغانستان اور تقریباً تمام مسلم دنیا میں منفی اثرات مرتب کیے۔ ٹرمپ امریکا کے پہلے صدر ہیں‘ جن کے دور میں سب سے زیادہ یہودیوں کو نوازا گیا۔ ڈیل آف سنچری، اسرائیل- یو اے ای معاہدہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ من حیث القوم ہم کسی بھی ادارے کو، کسی سسٹم کو صحیح طور پر کیوں نہ اپنا سکے؟ اس کا منطقی نتیجہ پہلے مشرقی پاکستان میں‘ بعد ازاں امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کئی ہزار اپنے ہم وطنوں، بہادر و جانباز فوجیوں کی قربانیاں اور اربوں ڈالر کے قرضے کی صورت میں نکلا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب غیروں پر تکیہ کرنے کے بجائے ایک آزاد و خودمختار ایٹمی ریاست کے طور پر خارجہ و حکومتی پالیسیوں کو از سر نو ترتیب دیا جائے۔ تر کی مسلم امہ کے لیڈر کا کردار بخوبی نبھا رہا ہے‘ کیا وجہ ہے کہ ہم ابھی تک امریکی غلامی سے باہر نہیں آ سکے۔ ہمارا انحصار کب تک دوسروں کے رحم و کرم پر ہو گا؟ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم غلامی کا طوق اتار پھینکیں، آزادانہ فیصلے کریں اور خود کو منوانے کیلئے نئی راہیں تلاش کریں۔ 
اگرچہ بھارت کی اقتصادی پوزیشن ہم سے قدرے بہتر ہے؛ تاہم اگر ہم تھوڑی توجہ دیں تو اپنی معاشیات کو کافی مستحکم کر سکتے ہیں۔ انڈونیشیا معدنیات سے مالا مال ریاست ہے‘ اس کے ساتھ سرمایہ کاری اور تجارت کے وسیع مواقع موجود ہیں لیکن ہم ابھی تک ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکے ہیں۔ ملائیشیا تک کو نظر انداز کیا گیا۔ سینٹرل ایشیا کو بھی خاطر خواہ اہمیت نہیں دی گئی۔ جنوبی امریکا کے ممالک سے بھی دوستانہ تعلقات بڑھائے جا سکتے ہیں۔ ادھر افغانستان میں تجارت مستحکم ہو رہی ہے۔ بنگلہ دیش کی کرنسی کی ویلیو اس کی تجارت کے سبب ہی بڑھ رہی ہے۔ ہانگ کانگ سمیت دیگر چھوٹے و کمزور ممالک بھی معاشی طور پر مضبوط ہوتے جا رہے ہیں لیکن یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم مسلسل معاشی پسماندگی کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ بھارت نے ایران سے تجارتی روابط قائم کر رکھے ہیں اور ہم ہیں کہ خود ساختہ تجارتی قدغنوں کی آڑ میں ایران سے معاشی روابط ختم کر لئے۔ سوال یہ ہے کہ سی پیک، سعودی عرب اور ترکی کے حوالے سے ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کہا جا رہا ہے کہ جوبائیڈن پاکستان کے لئے نیک شگون ثابت ہوں گے‘ اس لئے ہمارا میڈیا بھی نومنتخب امریکی صدر کے حوالے ہر روز مہم چلاتا ہوا نظر آیا۔ جوبائیڈن ہمارے لئے کیا کریں گے؟ کشمیر کاز پر کچھ کرنا ہوتا تو اوباما کے دورِ صدارت میں بطور نائب صدر وہ کچھ کرتے۔ 2016ء کے الیکشن میں ہیلری کلنٹن کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا رہا تھا کہ ان کا آنا پاکستان کے حق میں بہتر ہو گا۔ پاکستانی بھول گئے شاید کہ یہ وہی خاتون ہے جو ایبٹ آباد آپریشن کو براہِ راست دیکھنے والوں میں شامل تھی۔ وہی آپریشن جس نے ہماری سالمیت و خودمختاری پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔ اوباما سے بھی طرح طرح کی امیدیں لگائی گئی تھیں‘ ہوا کیا؟ بطور امریکی صدر اوباما نے بھی بھارت پر نوازشوں کے سلسلے جاری رکھے اور اس کے ساتھ 68 دفاعی معاہدات کیے۔ ٹرمپ کا الیکشن سے ایک روز قبل بھارت سے کیا گیا (بی ای سی اے) سیٹلائٹ معاہدہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکا میں جو بھی برسر اقتدار آئے گا‘ وائٹ ہاؤس کا مکین جو بھی ہو گا‘ اس کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہی رہے گا۔
اگرچہ صدر ٹرمپ کے دورِ آخر میں پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات بظاہر بہتر ہو گئے تھے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے پاکستان سے بھرپور استفادہ کیا گیا لیکن جاتے جاتے وہ بھی بھارت کو خوش کر کے گئے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ امریکا نے افغان جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے بے پناہ جانی اور مالی نقصانات اٹھانے والے پاکستان کی سلامتی مضبوط بنانے کے بجائے اس کے ازلی دشمن کی سرپرستی کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے اور اسے اپنا فطری اتحادی قرار دے کر اس کے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے متعدد معاہدے بھی کئے ہیں۔ ان سب باتوں سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اقدام بھارت نے تنہا نہیں کیا بلکہ اس میں امریکی و اسرائیلی آقائوں کی مرضی و منشا بھی شامل تھی۔ دوسری طرف امریکا نے ہمیں ڈکٹیشن دینا بند نہیں کی، یہ طے شدہ ہے کہ ڈی نیوکلائزیشن تک ہمیں کبھی گرے لسٹ کی آڑ میں اور کبھی کسی دوسری طرح بلیک میل کیا جاتا رہے گا ۔ یہ ففتھ جنریشن وار فیئر نہیں تو اور کیا ہے؟ استعماری قوتوں کا ہدف پاکستان، اس کی ایٹمی صلاحیت اور اس کی افواج ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کنفیوژن کا شکار کیوں ہے؟ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ یہ خارجہ نہیں بلکہ خارجی پالیسی زیادہ ہے۔ ہمارے حکمران کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارے پاس اسلامی آئین و منشور موجود ہے، پھر ہم غیروں کے در پر کیوں سر جھکاتے ہیں؟ امریکا ڈھلتا سورج ہے‘ اب وہ سپر پاور کا منصب کھو چکا ہے اور چین عالمی طاقت بننے کو تیار ہے، اس لئے اب دنیا کا رجحان چین کی جانب ہو رہا ہے۔ امریکا و چین کے مابین سرد مہری، روس کا دوبارہ ابھار اور یورپی یونین کے بکھرائو نے دنیا کو دوبارہ سرد جنگ کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اب نئے اتحاد تشکیل پا رہے ہیں، عالمی اتحادیوں کی نئی صف بندی شروع ہو چکی ہے، دشمن دوست اور دوست دشمن بن گئے ہیں، امریکا، اسرائیل اور بھارت بھی نئی صورتحال سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کیلئے باہمی طور پر سرگرم ہو چکے ہیں، ایسے میں ضروری ہے کہ ہم خارجہ پالیسی کی تجدیدِ نو کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور یہ خارجہ پالیسی صرف اور صرف قومی و ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے ہونی چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں