عالمی اُفق پر اقتدار کے حصول ‘دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ اور چین کی اقتصادی ترقی نے امریکہ کو دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ امریکہ نے دنیا پر قبضے کیلئے جو جنگ شروع کی تھی آج وہ اس میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ دوسری جانب چین اپنی معاشی طاقت کی وجہ سے دنیا میں اہم کردار ادا کررہا ہے اور وہ ممکنہ طور پر امریکہ کا حریف بننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے کیونکہ اس نے عسکری محاذ پر اُلجھنے کے بجائے امریکہ کے اقتصادی غبارے سے ہوا نکالنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ جس کی بڑی مثال ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنر شپ ( آر سی ای پی) کا نیا اتحاد ہے جو امریکہ‘ میکسیکو اور کینیڈا کے اتحاد کے علاوہ یورپی یونین سے بھی بڑا ہے‘ جس میں میں جنوبی کوریا‘ چین‘ جاپان‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت 10 جنوب مشرقی ایشیائی ممالک شامل ہیں جو عالمی معیشت کا تقریباً ایک تہائی حصہ بنتا ہے۔15 ممالک پر مشتمل نیامعاشی اتحاد عالمی معیشت کے حجم میں 186 ارب ڈالر اور اس کے رکن ممالک کی مجموعی ملکی پیداوار میں 0.2 فیصد اضافہ کرے گا۔ اراکین ممالک مجموعی عالمی پیداوار کا 29 فیصد ہیں۔اس تجارتی معاہدے کا خیال 2011 ء میں پیش کیا گیا تھا جس کے تحت تمام شامل ممالک کو 20 سالوں میں درآمدی ٹیکس 90 فیصد تک کم کرنا ہے اور تجارت کیلئے نئے قوانین اور تجارتی تعاون کے لیے دیگر اقدامات بھی کئے ہیں۔چینی قیادت میں تجارتی معاہدے کو مغربی تجزیہ کار ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
اس معاہدے نے نہ صرف امریکہ بلکہ بھارت کو بھی بڑاجھٹکا دیا ہے‘بلکہ پہلی بار امریکہ کی شمولیت کے بغیر ایک بڑا اقتصادی معاہدہ طے پا یا ہے‘ جس کی قیادت چین کر رہا ہے۔امریکہ کو اس معاہدے میں شامل نہیں کیا گیا کیونکہ اس نے 2017 ء میں ایشیا پیسیفک تجارتی معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016ء میں منصب صدارت سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد ''ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ ‘‘سے دستبرداری کا فیصلہ کیا تھا اس معاہدے میں 12 ممالک شامل تھے اور چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کیلئے اسے سابق امریکی صدرباراک اوباما کی حمایت بھی حاصل تھی۔ یہ معاہدہ در حقیقت دنیا کے معاشی میدان میں چین کی برتری کا واضح اعلان ہے تو دوسری جانب نام نہاد عالمی سپر پاور کی سبکی بھی۔اس بڑے تجارتی اتحاد میں ہندوستان کو بھی شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی تاہم اس نے چین کی تجارتی برتری کے خوف میں شمولیت سے انکار کر دیا۔ملائیشیا کے وزیر تجارت نے معاہدے کو آٹھ سالوں کی محنت قراردیتے ہوئے کہا کہ معاہدہ خون‘ پسینے اور آنسوؤں سے لکھا گیا ۔اس معاہدے میں شامل ممالک 2.2 ارب افراد کی مارکیٹ ہے اور 26.2 ٹریلین ڈالر بین الاقوامی پیداوار کی حامل ۔ اس لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا تجارتی بلاک وجود میں آگیا ہے جس کی ڈور چین کے ہا تھوں میں ہے اور امریکہ اس سے باہر ہے‘ دراصل یہ معاہدہ عالمی محاذ پر چین کی سیاسی و معاشی فتح ہے ۔یہاں قابل غور امر یہ بھی ہے کہ اس معاہدے کے رکن ممالک میں سے کئی پہلے ہی فری ٹریڈ معاہدے کئے ہوئے ہیں ‘تاہم ان میں کچھ باتیں محدود کی گئی تھیں لیکن موجودہ فری ٹریڈ معاہدے آر سی ای پی میں کافی پیچیدہ ہیں۔جن مصنوعات کی رسد کئی ممالک پر محیط ہے ان پر فری ٹریڈ معاہدے کے باوجود ٹیکس لگ سکتا ہے کیونکہ ان کی اشیا کے جز کسی دوسرے ملک سے لائے گئے ہوتے ہیں‘مثال کے طور پر اگر انڈونیشیا میں بنی کوئی چیز میں آسٹریلیا سے لائے گئے اجزا استعمال ہوئے ہیں توآسیان کی فری ٹریڈ زون میں اسے برآمدگی کے ٹیکس کا سامنا ہو سکتا ہے۔اس معاہدے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں کچھ ممالک ایک دوسرے سے ایسے جڑ گئے ہیں جو عام طور پر تجارت کے معاملے میں سفارتی تعلقات میں خرابی کی وجہ سے مل کر کام نہیں کرتے تھے جیسے جاپان اور چین۔یہی صورتحال آسٹریلیا اور چین کی بھی ہے‘ لہٰذااس معاہدے کو چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو امریکہ اور بعض مغربی ممالک کیلئے درد سر بن چکا ہے۔امریکہ اور نیٹو افغانستان میں جس بری طرح شکست سے دوچارہوئے اس کے اثرات آج پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رہے ہیں ۔ افغانستان کی جنگ امریکی تاریخ کی مہنگی اور طولانی جنگ ثابت ہوئی ہے کیونکہ اس میں ہونے والے اخراجات کا تخمینہ10کھرب ڈالر کے لگ بھگ ہے ۔ اب یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ دنیا کی کئی بڑی طاقتوں کے زوال کی طرح امریکہ مسلسل تباہی کی طرف گامزن ہے۔ امریکہ کا حریف بننے کی صلاحیت رکھنے والے چین نے جہاں اپنی معاشی طاقت اور بلند شرح پیدوار کے ذریعے لاکھوں افراد کو غربت سے نکالا ہے وہیں دنیا کی سب بڑی معاشی طاقت امریکہ کی گزشتہ چند برس سے معیشت سست روی کا شکار ہونے سے لاکھوں شہری بے روزگار ہیں ‘بجٹ خسارے اور سیاسی پارٹیوں میں اختلافات پروان چڑھ رہے ہیں۔ برطانیہ اور یورپ جیسے دیرینہ اوربھارت جیسے نئے دوست بھی یروشلم کے معاملے پر امریکہ سے دور کھڑے نظر آ تے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کا معاملہ ہو یا جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کا یاپھر بات فلسطین‘کشمیر اور اسرائیل کے جھگڑے کی ہو‘ ہر بڑے بین الاقوامی تنازعے اور حل طلب مسئلے پر امریکہ کا مصالحتی قد گھٹتا اور چین کا بڑھتا چلا جا رہا ہے۔اب چین نے امریکہ کے مقابلے میں سب سے بڑے عالمی تجارتی معاہدے کی بنیاد رکھ کر امریکی بالادستی کا کھلا چیلنج دیا ہے ہے جومستقبل میں ان ممالک کی خارجہ پالیسیوں کو بھی متاثر کرے گاجس سے دھیرے دھیرے یہ بھی آر سی ای پی کی جانب کھنچے چلے آئیں گے جس سے امریکہ کے تجارتی تعلقات بری طرح متاثر ہوں گے۔
چین آر سی ای پی کے ذریعے بحر اوقیانوس کے اطراف ممالک میں تجارتی سرگرمیاں انجام دے سکتا ہے۔ ان ممالک کی منڈیوں میں چین کی موجودگی اسے امریکہ کے مقابلے میں مزید طاقتور بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات نے چین کو اقتصادی سرگرمیوں میں وسعت لانے کا موقع فراہم کیا‘ کیونکہ اس وقت ٹی پی پی میں شمولیت کے خواہشمند ممالک آر سی ای پی میں شامل ہو چکے ہیں۔1995ء میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا آغاز ہوا تو عالمی تجارت میں اسے نئے دور کے آغاز سے تعبیر کیا گیاتھالیکن ڈبلیو ٹی او کے تحت ابتدائی چندبرس میں ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک کو اندازہ ہونے لگا کہ فری ٹریڈ کے اس عالمی فریم ورک کے پردے میں ترقی یافتہ ممالک نے قوانین و ضوابط کو کچھ یوں ترتیب دیا ہے کہ بیشتر صورتوں میں عالمی تجا رت پر ان کی برتری قائم رہے۔ سارک ممالک کے درمیان سافٹا کے نام سے ایک فری ٹریڈ معاہدہ 2006 ء سے بظاہر نافذالعمل ہے ‘لیکن یہ علاقائی معاہدہ بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی اور خطے پر تسلط کے جنون کی نذر ہو رہا ہے۔ بظاہر سارک ممالک میں بھرپور باہمی تجارت کے امکانات موجود ہیں لیکن عملًا صورتحال اس کے الٹ ہے۔ چین نے مختلف علاقائی تجارتی معاہدوں کے ذریعے آسیان‘ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے ممالک کے ساتھ گہرے تجارتی تعاون استوار کر کے اس ممکنہ تجارتی حصار کا توڑ کرنے کی کوشش کی ہے۔چین کو مغربی دنیا کی بڑھتی ہوئی تجارتی بے چینی کا اندازہ ہے یہی وجہ ہے کہ وہ گزشتہ کئی برس سے تجارتی اور سرمایہ کاری کے متبادل راستے بنا رہا ہے۔ شنگھائی فری ٹریڈ زون‘ ون بیلٹ ون روڈ ‘ ایشیائی انفراسٹرکچر بینک اور بی آر آئی سی بینک جیسے منصوبوں کے ذریعے اس نے مہارت سے اپنے لئے متبادل راستے اور امکانات تراشنے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔
آرسی ای پی کئی لحاظ سے چین کیلئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل معاہدہ ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دوممالک جاپان اور جنوبی کوریا ہیں جوایشیا میں بڑے کردار کے حامل ہیں‘لہٰذا ان ممالک کی موجودگی مستقبل میں ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنرشپ کو مزید مستحکم کرنے کا باعث بنے گی۔ مذکورہ معاہدے کی تشکیل کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں عالمی سطح پر انجام پانے والی تجارت میں امریکہ کی نسبت چین کی شمولیت بڑھ جائے گی۔