پاک چین دوستی نئی راہوں پر گامزن

کورونا نے گزشتہ ایک سال سے دنیا کو جکڑ رکھا ہے جس پرچین نے سخت حفاظتی اقدامات کی بدولت نہ صرف قابو پالیا بلکہ ایک سال کے قلیل عرصے میں مہلک وبا کے خلاف ویکسین بنا کر انسانیت کی بقااور تحفظ کیلئے اہم فریضہ بھی انجام دیاہے۔ پاکستان کو اس جان لیوا مرض سے بچانے کیلئے پانچ لاکھ ویکسین کا تحفہ بلا شبہ چین کی پاکستان سے دوستی کا لازوال اظہار ہے اور ایک مرتبہ پھر چین نے دنیا کو حقیقی اور ٹھوس دوستی کی عملی تصویر دکھلا دی ہے۔چین ہمار ا بہترین دوست ہے اور ہر معاملے میں ہمارے ساتھ رہا ہے۔پاک چین دوستی اپنی مثال آپ ہے‘ اسے ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہرا ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔اس میں دو رائے نہیں کہ چین نے ہمیشہ ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستان نے بھی ہمیشہ چین کی ہر مسئلے میں حمایت کی ہے۔ یہ عظیم رشتہ عالمی اور علاقائی بدلتی صورتحال کے کبھی تابع نہیں رہا۔ طویل خانہ جنگی کے بعد عوامی جمہوریہ چین نے یکم اکتوبر 1949ء کو آزادی حاصل کی اورپاکستان نے سب سے پہلے چین کو تسلیم کیا ۔ چین کیلئے اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کیلئے پاکستان کی کوششیں بھی سب سے بڑھ کر رہیں۔ دو عشروں تک مغرب کی چین دشمنی کی وجہ سے اسے اقوام متحدہ میں اپنے جائز مقام سے محروم رہنا پڑا‘ لیکن 25اکتوبر 1971 ء چین کی سفارتی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت کے ساتھ عالمی ادارے میں چین کی مراعات بحال کردیں۔ چین کی اقوام متحدہ میں یہ غیر معمولی کامیابی دیگر ترقی پذیر ممالک کیلئے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے‘تاہم چین کو عالمی تنہائی سے نکالنے اور بین الاقوامی معاملات میں متحرک کرنے میں بھی پاکستان کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل رہا ہے۔
چین نے ہمیشہ غیر مشروط طور پر دوستی نبھائی اور کبھی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کا مرتکب نہیں ہوا۔ پاکستان کو معاشی اور دفاعی لحاظ سے خود کفیل بنانے میں چین کا کردار کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے۔ مسئلہ کشمیر پر بھی وہ دوٹوک انداز میں پاکستان کے دیرینہ اور اصولی مؤقف کی مسلسل حمایت کرتا چلا آیا ہے اورپاکستان کی جغرافیائی وحدت اور سلامتی کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ستون تصور کرتا ہے۔1962ء میں انڈیا اور چین میں سرحدی لڑائی شروع ہوئی جس میں چین کاپلہ بھاری رہا۔ 28 اکتوبر 1962ء کو امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے ایک ضروری پیغام صدر ایوب خان کے نام بھیجا کہ وہ انڈیا پر چین کے حملے کو پورے جنوبی ایشیا پر حملہ خیال کریں۔ پاکستان نے بڑا محتاط جواب دیا کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ معلق ہے‘ انڈیا کیلئے امریکہ کی بھاری فوجی امداد پاکستان کیلئے باعثِ تشویش ہے۔انڈیا اور چین کی باہمی جنگ میں امریکی دبائو کے باوجود پاکستان نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ امریکہ کو پسند نہ آیا اور اس نے پاکستان پر دبائو بڑھا دیا۔ مارچ 1964ء میں چین اور پاکستان کے درمیان شاہراہ ریشم بنانے کا معاہدہ ہوا۔ جون 1964ء میں امریکہ نے پاکستان کو دی جانے والی امداد کو روک لیا مگر پاکستان نے پروا نہ کی اور پاک چین دوستی کے عمل کو جاری رکھا ۔ بھارت جو کہ اپنے گھمنڈ میں تھا‘ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ سے اُسے پاک چین دوستی کی اصل قدرو قیمت کا اندازہ ہوا۔ امریکہ اور اس کے یورپی حلیفوں نے پاکستان کی معاشی امداد بند کر دی اور پاکستان کو اسلحے کی خریداری بھی روک دی۔ اس کے بدلے میں چین نے پاکستان کی نہ صرف مالی امداد میں اضافہ کر دیا بلکہ فوجی امداد بھی بڑھا دی۔جب انڈیا نے پاکستان پر زیادہ دبائو ڈالا تو چین نے انڈیا کو الٹی میٹم دیاکہ باز رہو (ورنہ ہم وہ بکریاں حاصل کرنے کیلئے چڑھائی کر دیں گے جو تم 1962ء کی جنگ میں چین کی سرحدوں سے اُٹھا کر دہلی لے گئے تھے) چینی الٹی میٹم کے خوف سے انڈیا نے فوراً اپنے رویے میں لچک پیدا کر لی۔
پاک چین دوستی آگے چل کر نئے امکانات کا موجب بنی‘ ویت نام کی جنگ میں اپنی شکست اور چین اور روس کی بڑھتی ہوئی باہمی کشیدگی کے پیش نظر امریکہ نے چین سے دوستی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اس نے پاکستان سے درخواست کی جو کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے پوری کر دی۔ پھر مشکل وقت آیا۔ 1971ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران امریکہ نے بے وفائی کی مگر چین نے بنگلہ دیش کو اس وقت تک اقوام متحدہ کا رکن نہیں بننے دیا جب تک اس نے جنگی قیدیوں کو رہا نہیں کرایا۔ پاکستان نے بھی اپنی طرف سے حقِ دوستی ادا کیا ۔ اقوام متحدہ میں چین کی شرکت اور سکیورٹی کونسل میں اس کی رکنیت کا سہرا پاکستان کے سر ہے۔حالیہ عرصے میں دونوں ممالک کے مابین بڑھتا ہوا عسکری تعاون نئی منزلوں سے روشناس ہواہے ۔ فضائیہ کی مشترکہ مشقوں‘ تربیت ‘ سامان کی ترسیل‘ ہتھیار اور جنگی آلات کے معاملات ۔سٹیٹ آف دی آرٹ فریگیٹ جہازوں کی پاک بحریہ کے بیڑے میں شمولیت اورجے ایف 17تھنڈر طیاروں کی اپ گریڈنگ پاک چین دفاعی تعاون کی روشن مثال ہے ۔80ء ‘90 ء کی دہائیوں میں چین نے پاکستان کو جوہری ہتھیار تیار کرنے کی ٹیکنالوجی فراہم کروائی تھی جبکہ امریکہ کیلئے یہ بھی حیران کن امر تھا کہ چین پاکستان کو جوہری ہتھیار لے جانے والے 30 ایم 11 میزائل بیچ چکا تھا۔ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 2010 ء سے چین پاکستان کو اے-100 راکٹ لانچر اور ایچ کیو 16 ایئر ڈیفنس میزائل مہیا کر رہا ہے ۔ پاکستان نے 2007 ء میں پہلی بار جے ایف 17 اڑایا تھا جس کی قیمت ایف 16 کا ایک تہائی تھی ‘ چین نے پاکستان کو اس کا ڈیزائن بھی فراہم کیا تاکہ پاکستان اس کی تیاری خود کر سکے۔اکتوبر 2016ء میں جب امریکہ ایف 16 کم قیمت میں دینے کو تیار نہیں ہوا تو ایک مہینے کے بعد ہی آہنی دوست نے پانچ ارب ڈالر میں آٹھ جنگی جہاز پاکستان کو دئیے۔
پاکستان کو ایسے دشمن کا سامنا ہے جو تعصب‘ تکبر اور رعونت کے آخری درجے پر ہے اوراس کا دفاعی بجٹ پاکستان کے کل بجٹ کے برابر ہے۔ پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنانے میں چین پوری معاونت کرتا ہے۔2020 ء میںدونوں ممالک نے 9 روزہ مشترکہ بحری مشقیں' آپریشن سی گارڈینز‘منعقد کیں جن میں خصوصی فورسز‘ جنگی جہاز‘ فضائی ہتھیار‘ نیز پہلی بار لائیو فائرنگ کی مشقوں میں آبدوزوں کا استعمال بھی کیا گیا۔ پاکستان کے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل شاہین کی کامیابی سے تیاری میں بھی چینی معاونت کلیدی اہمیت کی حامل رہی ۔ حالیہ چند برسوں کے دوران چین نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا رخ موڑ دیا ہے اور چین کی متعدد کمپنیاں پاکستان میں مختلف سیکٹرز میں کام کر رہی ہیں۔بیجنگ کی ہمیشہ سے کوشش ہے کہ پاکستان کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں لا کھڑا کرے‘اس حوالے سے معاشی‘ توانائی اوردفاع سمیت تمام شعبوں میں شانہ بشانہ کام کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔پا کستان سے طیارہ سازی میں تعاون سے لے کر تجارتی اور ثقافتی شعبوں میں وفود کے تبادلوں تک دونوں ممالک کے مابین قربتوں میں اضافہ ہوا ہے۔امریکہ خطے کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر بھارت کی پشت پناہی کررہا ہے‘اسی شہ پر بھارت جہاں پا کستانی سر حدوں پر در اندازی کررہا ہے‘وہاں چین کو بھی چیلنج کر تا ہے‘مگراس تنا ظر میں پاکستان اور چین مزید قریب آ گئے ہیں ‘دونوں اطراف سے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ نئے دور میں مشترکہ مستقبل رکھنے والی کمیونٹی کی تشکیل کیلئے سدا بہار پاک چین سٹرٹیجک کوآپریٹو پارٹنر شپ کو مزید مضبوط کیاجائے گا۔ چین اور پا کستان نے افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کا خیرمقدم بھی اسی لازوال رشتے کا واضح ثبوت ہے۔ سی پیک استعماری قوتوں کو مسلسل کھٹک رہا ہے اور وہ اسے سبوتاژکرنے کیلئے سر گرم عمل ہیں کیونکہ دشمن جانتا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف پاکستانی عوام کیلئے ترقی و خوشحالی کے دوازے کھلیں گے بلکہ چین کی معیشت کیلئے بھی وسعت پذیر ی کے مزید امکانات پیدا ہوں گے ۔ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت پرُامید ہیں کہ سی پیک پاک چین دوستی میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا اور دونوں ممالک کو اس منصوبے کی تکمیل سے بے انتہا معاشی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں