امن مشقیں2021ء: پاکستان عالمی امن کا سفیر!

ایک زمانہ تھا بحری راہداریوں پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے جنگیں ہوا کرتی تھیں تاکہ فاتح اقوام کا مالِ تجارت دنیا کے ہر حصے تک آسانی سے پہنچ سکے۔ رومی طویل عرصے تک بحیرہ روم میں عسکری اور تجارتی اجارہ داری کیلئے شمالی افریقہ کے بربروں سے نبرد آزما رہے۔قیصر وکسریٰ کی بحری اور بری جنگیں زیادہ تر انہی بحری اور زمینی راہداریوں کیلئے لڑی گئیں۔ ابراہہ نے خانہ کعبہ کو ڈھانے کا عزم اسی لئے کیا تھا کہ بحیرہ احمر میں عربوں کی تجارتی اجارہ داری پر ضرب لگا کر مکہ کے بجائے یمن میں مارب کے شہر کو خطے کا تجارتی اور مذہبی مرکز بنا سکے۔ زمانۂ جہالت میں بیت اللہ کو قریش کا ''چیمبر آف کامرس‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ مذہبی عقائد کی بنا پر تمام عربوں کا رجحان اس جانب تھاجس نے قریش کی تجارتی حیثیت کو تمام جزیرۃالعرب میں معاشی اور عسکری قوت کی علامت بنا دیا تھا۔یمن کا حکمران ابراہہ حبشہ کے نجاشی اور نجاشی روم کے قیصر کو جواب دہ ہوتا تھا۔ مصر پر رومی خود قابض تھے، افریقہ کا جنوب مشرقی حصہ حبشہ (آریٹیریا) کے حکمران کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا تھا جبکہ یمن میں ابراہہ یمن کے بابِ مندب کی تنگ بحری گزرگاہ پر روم اور حبشہ کا تعینات کردہ حکمران تھا۔ تینوں قوتیں بحیرہ احمر کے دونوں طرف بیٹھی تھیں جس میں جزیرۃ العرب کے باشندے بابِ مندب سے گزر کراپنا تجارتی سامان ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیا تک پہنچاتے تھے۔ دوسری جانب ان کے تجارتی قافلے شام تک اونٹوں پر اور وہاں سے بحری جہازوں پر اپنی تجارت کو یورپ تک دراز کرتے تھے۔ قرآن کریم کی سورۃ القریش میں اسی تجارتی آزادی اور امن کو اللہ رب العزت نے اپنے احسان کے طور پر پیش کیا ہے ۔ ترجمہ : ''قریش کو رغبت دلانے کے سبب۔ انہیں سردیوں اور گرمیوں کے (تجارتی) سفر سے مانوس کردیا‘‘۔ (القریش:1تا 2)
سمندروں کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے امریکی ایڈمرل دا فلیٹ لارڈ فشر نے کہا تھا ''پانچ چابیاں دنیا کو قید کر سکتی ہیں؛ ڈوور (Dover)، جبرالٹر، سویز، سنگاپور اور کیپ آف گڈ ہوپ‘‘۔ ان میں سے تین بحر ہند کے کنارے واقع ہیں جس کے باعث یہ دنیا کا نہایت اہم اور حساس علاقہ شمار ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا تیسرا بڑا سمندر ہے‘ جسے زمانہ قدیم سے آج تک مشرق اور مغرب کے درمیان ایک عظیم تجارتی شاہراہ اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل رہی ہے؛ چنانچہ حفاظت ،اجتماعیت اور عالمگیریت کے مشترکہ احساس کے تناظر میں پاکستان کی جیوسٹریٹیجک پوزیشن کی پوری دنیا معترف ہے اور پاک بحریہ کی جانب سے خطے میں بحری جنگی مشقوں کے مسلسل انعقاد نے وطن عزیز کے وقار میں مزید اضافہ کیا ہے۔ پاکستان کا امیج ''گلوبل پیس امبیسڈر‘‘ یعنی عالمی امن کے سفیر کے طور پر سامنے آیا ہے۔حالیہ ساتویں امن بحری مشقوں میں 45 ممالک کی شمولیت نے دشمن کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں جبکہ بھارت کی پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی سازشیں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔ ان بحری مشقوں میں امریکا، چین، برطانیہ اور روس جیسی عالمی طاقتوں کی شرکت گیم چینجر ثابت ہوئی ہے۔ ان مشقوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ گیارہ سال بعد روس اور نیٹو فورسز آپسی اختلافات کے باوجود ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوئی ہیں جس نے ملک دشمن قوتوں بالخصوص بھارت میں کھلبلی مچا رکھی ہے ۔ کثیر القومی مشقِ امن کے سلسلے کی پہلی مشق منعقدہ مارچ 2007 ء میں 28 ممالک نے اپنے بحری ساز وسامان اور 29 مندوبین کے ساتھ شرکت کی تھی۔ مارچ 2009ء میں دوسری مشقوں میں 24 ممالک 35 مندوبین کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ امن سیریز کی ہر دو سال بعد ہونے والی مشقوں میں چین، آسٹریلیا، فرانس، انڈونیشیا، اٹلی، ملائیشیا، سعودی عرب، امریکا اور جاپان جیسے دوست ممالک کی بحریہ پوری تیاری اور اپنے ساز وسامان کے ساتھ حصہ لیتی ہے۔ 2019 ء میں اس مشق میں 46 ممالک کی بحری افواج شریک ہوئی تھیں۔ رواں برس ساتویں امن مشق میں 45 ممالک کی بحری افواج شریک ہیں۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے تناظر میں اتنی کثیر تعداد میں ممالک کی شرکت یقینا پاک بحریہ کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ مشقوں کا مقصد دنیا بھر کی بحری افواج کے درمیان باہمی تعاون، اعتماد اور مشترکہ کارروائیوں کے دوران استعدادِ کار میں اضافہ کرنا ہے تاکہ میری ٹائم یعنی سمندروں میں سکیورٹی کے ایک ایسے نظریے کو فروغ دیا جائے جس سے تمام دنیا کیلئے بحیرہ ہند ایک پُرامن اور محفوظ سمندر بن جائے۔ پاکستان کی سمندری حدود 2 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ہیں۔ قدرت نے پاکستان کو 900 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی سے نوازا ہے۔ 1982ء کے یونائٹیڈ نیشن کنونشن آن لا آف سیز کے مطابق پاکستان کو خصوصی اقتصادی زون میں 200 ناٹیکل میل ایکسپلوریشن حقوق حاصل ہیں۔ 350 ناٹیکل میل کانٹی نینٹل شیلف کا حق ہے۔ پاکستان کی 90 فیصد تجارت اور 100 فیصد تیل کی درآمدات سمندر کے ذریعے ہوتی ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ میری ٹائم سیکٹر پاکستانی معیشت کی بنیاد ہے۔ تزویراتی اہمیت کی حامل اور دنیا کی توانائی کی ضرورت کی روحِ رواں آبنائے ہرمز کے قریب ہونے کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ بحر ہند کی تجارت کا 90 فیصد مغربی روٹ پاکستان کے سمندی پانیوں سے گزرتا ہے۔ چین کے 80 فیصد ٹینکرز اور کارگو بحری جہاز یہاں سے گزرتے ہیں۔ بھارت کے بحری جہازوں کی شرح 65 فیصد، جاپان کی 60 فیصد ہے۔ دنیا کی 90 فیصد تجارت سمندری گزر گاہوں سے ہوتی ہے جس میں سے 50 فیصد کا انحصار ایشیا کے سمندری پانیوں پر ہے۔ تیل کی 70 فیصد عالمی رسد اسی روٹ پر ہوتی ہے۔ گیس کی 50 فیصد، 40 فیصد کارگو تجارت بحر ہند سے ہی گزرتی ہے۔ اپنی اہمیت کے اعتبار سے یہ آبی گزر گاہیں بحری قزاقوں کیلئے بھی جنت سمجھی جاتی ہیں اور یہاں پر چوک پوائنٹس جن کو اگر غیر روایتی طریقوں سے مفلوج کیا جائے‘ مثلاً ارریگولر وار یا نان سٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے‘ تو دنیا کی تمام معیشتوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ گزشتہ سال بحری قزاقی کی بدولت عالمی تجارت کو 19 فیصد نقصان ہوا تھا۔
امریکی بحری تجزیہ کار A. T. Mahan کے مطابق ''جو کوئی بھی بحر ہند کو کنٹرول کرے گا‘ وہ ایشیا پر غلبہ حاصل کرے گا اور دنیا کی تقدیر کا فیصلہ اس کے پانی پر ہو گا‘‘۔ آج ماہان کی پیشگوئی درست ثابت ہو چکی ہے کیونکہ بحر ہند ہی موجودہ طاقت اور سیاست کا محور بن چکا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کے مفادات اس سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بحر ہند کی تجارت کا 90 فیصد مغربی روٹ پاکستان کے سمندی پانیوں سے گزرتا ہے۔ بھارتی دانشوروں کے مطابق وہ وقت دور نہیں جب چین اپنی بحری قوت میں اضافہ کرکے بحیرہ جنوبی چین سے خلیج فارس تک اپنا اثر ورسوخ قائم کر لے گا۔ وہ پاکستان کی مدد سے بھارت کا زمینی و سمندری راستے سے گھیرائو کر رہا ہے۔ بحر ہند سے بحیرہ جنوبی چین تک سمندری حدود مرکزی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ چین کیلئے گوادر کی بندرگاہ کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ چین اس روٹ سے نہر سویز کے راستے مغرب سے تجارت کر سکتا ہے یہ چین کیلئے سستا ترین تجارتی روٹ ثابت ہوا ہے۔ بھارتی تجزیہ کاروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ چین کی کورونا کے باوجود پاکستان کے ساتھ شراکت داری سے خطے میں اس کا اثر ورسوخ بڑھا ہے۔ ادھر بھارت کے تمام تر معاشی منصوبے کھٹائی میں پڑ چکے ہیں۔ بھارتی بندر گاہیں ویران ہیں اور اب پاکستان امن مشقوں کے ذریعے روس اور امریکا کو بھی قریب لانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ ممکن ہے مستقبل میں دونوں ملکوں کا جھکائو پاکستان کی جانب بڑھ جائے۔ اگر یہی حالات رہے تو پاکستان اور چین مل کر بحر ہند اور اس روٹ کی تجارت پر کنٹرول حاصل کر لیں گے اور بھارت دیکھتا رہ جائے گا۔ بلاشبہ بحری امن مشقوں 2021ء کے کامیاب انعقاد سے پاکستان نے بھارت کا علاقے کا چودھری بننے کا خواب چکنا چور کر دیا ہے اور اب وہ خود سفارتی تنہائی کی جانب گامزن ہے۔ کامیاب امن مشقوں کے انعقاد سے دنیا جان لے کہ امن کا خواہاں کون ہے اور جنگ و جدل کے ذریعے اپنے ہمسایوں کو بربادی و تباہی کی طرف دھکیلنے والا کون ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں