ایف اے ٹی ایف کا اجلاس گزشتہ دنوں 20 سے 25 فروری تک پیرس میں جاری رہا جس میں پاکستان کو پوری امید تھی کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات کو تسلیم کرتے ہوئے اسے گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا لیکن فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھتے ہوئے ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے جون 2021ء تک کی مہلت دے دی، اب جون میں پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ قبل ازیں اکتوبر2020ء کے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کوانسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کی روک تھام کے 27 نکاتی ایکشن پلان کے 6 اہداف پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اس لئے فروری2021ء تک گرے لسٹ میں رہے گا۔ پاکستان بقیہ 6 سفارشات پر بھی عمل کر چکا ہے اور اس کی تفصیلات ایف اے ٹی ایف سیکرٹریٹ بھجوائی دی گئی تھیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس کے دوران پاکستان کے ردعمل کا جائزہ لیا گیا کہ پاکستان نے قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس پر عملدرآمد میں بھی خاصی پیشرفت کی ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کے اقدامات کو سراہا جو بڑی حد تک عالمی واچ ڈاگ کے مطالبات کے عین مطابق ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے صدر ڈاکٹر مارکس پلیئر نے پیرس میں اجلاس کے فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی تجاویز پر بھرپور عمل درآمد کیا؛ تاہم پاکستان اب بھی زیر نگرانی رہے گا۔ حالانکہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر بھی زیر نگرانی رکھا جاسکتا تھا کیونکہ گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے جو اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا پاکستان نے کماحقہٗ وہ کر دیے ہیں؛ تاہم گرے لسٹ سے نکلنے میں ناکا می کی بڑی وجہ فرانس کی جانب سے کی جانے والی شدید مخالفت بتائی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ فرانسیسی مخالف رویے کی وجہ اس کے بھارت کے ساتھ ہونے والے بڑے دفاعی معاہدے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے بھارت اور فرانس ایک ہی صفحے پر ہیں۔ فرانس نے پہلے بھی پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی سفارش محض اس بنیاد پر رد کر دی تھی کہ ناموس رسالت کے حوالے سے فرانسیسی صدر کی خباثت پر پاکستان کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا۔ ایف اے ٹی ایف کے فیصلے کو اگر سچ کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو پاکستان کے ساتھ میرٹ کی بنیاد پر سلوک نہیں کیا گیا۔ فیٹف کے ارکان کسی نہ کسی انفرادی ضرورت یا سفارتی دبائو کی وجہ سے پاکستان کے حق میں رائے دینے پر تیار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ بادی النظر میں ادارے نے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ بھارت فرانس اور امریکا کے دبائو پر کیا ہے۔ ڈینیئل پرل قتل کیس میں عمر شیخ کی بریت کے فیصلے پر امریکا تحفظات کا اظہار کرتا چلا آ رہا ہے جبکہ بھارت ہمیشہ پاکستان کیخلاف سرگرم رہا ہے۔ بلاشبہ ایک بڑے عالمی ادارے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا ادارے کی ساکھ کو تباہ کردے گا۔
2008ء میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل ہوا تھا۔ 2012ء سے 2015 ء تک پاکستان اس لسٹ میں رہا۔ 2018ء میں اسے اس وقت دوبارہ گرے لسٹ میں شامل کر لیا گیا تھا جب پاک امریکا تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی تھی۔ جب پاکستان کو افغان جنگ میں براہِ راست کردار ادا نہ کرنے پر صدر ٹرمپ کی طرف سے جنگ کی دھمکیاں دی جاتی تھیں‘ اس وقت پاکستان کو قرار داد کی مخالفت کرنے والے3 ملک بھی نہ مل سکے۔ صرف ترکی نے اس کی مخالفت کی تھی جبکہ بھارت نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کے حوالے سے کافی لابنگ کی تھی اور اسی کی قرارداد پر پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔
فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کے قیام کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کو روکنا ہے۔ 1989ء میں تشکیل دی جانے والی اس تنظیم کے ارکان کی تعداد 37 ہے جبکہ دو علاقائی تنظیمیں بھی اس کی ممبر ہیں۔ بھارت اس تنظیم کا رکن ہے۔ پاکستان اس کی ذیلی تنظیم ایشیا پیسفک گروپ کے ذریعے اس سے وابستہ ہے۔ بلیک لسٹ میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جو دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے والی فنڈنگ اور منی لانڈرنگ کے خلاف قانون سازی کے لیے عالمی اداروں سے تعاون نہیں کرتے یا ان ملکوں میں قانون سازی یا قوانین پر عمل ناکافی ہو۔ جونہی یہ اندیشہ دور ہو جاتا ہے، اس ملک کا نام فہرست میں سے نکال دیا جاتا ہے بصورت دیگر ایسا ملک دنیا بھر میں کاروباری بندشوں کا سامنا کرتا ہے جبکہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ایسے ملک کی امداد روک دیتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک کسی بھی ملک کا نام ان لسٹوں میں شامل کرنے کی قرارداد پیش کر سکتے ہیں۔ ممبر ممالک میں سے تین ممالک مخالفت کریں تو قرارداد مسترد ہو جاتی ہے۔ گرے یا بلیک لسٹ میں اگر کسی ملک کا نام شامل ہو جائے تو نام نکلوانے کے لیے 15 ممالک کی حمایت درکار ہوتی ہے‘ پاکستان کو ایسے ہی الزامات کے جواز پر گرے لسٹ میں رکھا گیا ہے۔ معاشی عدم استحکام سے دوچار پاکستان ایک عرصہ سے گرے لسٹ میں ہے اور یہ صورتحال اس کی مشکلات بڑھا رہی ہے۔ آج پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے 35 میں سے 15 ملکوں کی حمایت درکار ہے؛ تاہم بھارتی لابی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی۔ دوسری جانب بھارت میں انتہاپسندی کے فروغ، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور اقلیتی گروہوں میں پائے جانے والے ہیجان کے باوجود پاکستان کسی بھی عالمی فورم پر بھارت کیلئے مشکلات پیدا نہیں کر سکا۔ مارکوس پلیئر نے بھارت کے خلاف کارروائی کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ بات محض اتنی نہیں کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ عالمی استعماری قوتیں پاکستان کو گھیرنے میں کامیاب ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ معاملہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنڈنگ کا نہیں بلکہ پاکستان کے معاشی استحکام کی کمزور بنیادوں اور غیر ملکی آقائوں پر انحصار اور ہماری ملّی حمیت کا ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں نے اپنے رویے کو تبدیل نہ کیا تو حکومت پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے لب ولہجے کا فرق جلد واضح ہو جائے گا۔
اگر فیٹف کی جانب سے کہہ دیا جائے کہ فلاں ملک کے بینک عالمی مالیاتی قواعد و ضوابط کی مطلوبہ معیار کے مطابق پابندی نہیں کر رہے تو دنیا بھر کے بینک اور معاشی ادارے اس بات کا انتظار کرنے لگتے ہیں کہ اس ملک کے بارے میں اگلی بات کیا سامنے آتی ہے، اگر ملک کا مالیاتی نظام درست نہیں لیکن اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اس ملک کا نام 'گرے لسٹ‘ میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر ملکی بینک جب اس ملک کے بینکوں کے ساتھ کاروبار کریں گے تو وہ پہلے سے زیادہ محتاط ہوں گے۔ یا تو وہ ہر ٹرانزیکشن کیلئے اضافی رقم چارج کریں گے کیونکہ انہیں ہمارے بینکوں کے بارے میں اضافی معلومات اور تصدیق درکار ہو گی، دوسری صورت میں وہ بینکوں کے ساتھ کاروبار ہی نہیں کریں گے۔ دراصل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایسے تمام فلاحی اداروں یا این جی اوز پر پابندی لگوانا چاہتی ہے جن کا تعلق کسی بھی طرح کالعدم گروہوں اور تنظیموں سے ہو۔ حالیہ اجلاس میں نامزد دہشت گردوں اور ان کے معاونین کی تعداد بتا کر یہ بھی واضح کیا گیا کہ پاکستانی حکام ان لوگوں اور اداروں سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن ان کے خلاف عملی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اگر بات میرٹ کی ہو تو بھارت گرے لسٹ میں شامل ہونے کے قواعد و ضوابط پر پر پورا اترتا ہے لیکن اس کے خلاف ثبوتوں کے انبار کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ بھارت دستیاب شواہد سے کہیں زیادہ دہشت گردوں کی سرپرستی اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہے جس کے ٹھوس ثبوت امریکا سمیت کئی ممالک نے دیے بھی ہیں۔ چند ماہ قبل بھارت کے 44 بینک ریاستی دہشت گردی کے لیے منی لانڈرنگ میں ملوث پائے گئے تھے مگر اس کے خلاف ایسی کوئی بھی کارروائی عمل میں نہ لائی جا سکی جس سے ایف اے ٹی ایف کے دہرے معیار کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔