جمہوریت کی بقا کیلئے تحمل و برداشت کے فروغ کی ضرورت

وزیراعظم عمران خان کا 178 اراکین کی حمایت سے پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا یقینا ایک اہم اقدام ہے اور اس سے ملکی سیاسی منظرنامے میں بڑی تبدیلی آئی ہے جس کے اثرات سیاسی مستقبل پر بھی دیکھے جا سکیں گے۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم عمران خان کے اعتماد کے ووٹ کیلئے آئین کی دفعہ 91، شق 7 کے تحت قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا۔ ایوانِ صدر سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ وزیراعظم بظاہر ہائوس میں اکثریت کھو چکے ہیں اس لئے وہ ہائوس میں اعتماد کا ووٹ لیں۔ قبل ازیں وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کے دوران بھی قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ جن ارکان کو ان پر اعتماد نہیں ہے‘ وہ ہائوس میں ان کے خلاف ہاتھ کھڑا کریں اور کھل کر کہیں کہ وہ میرے ساتھ نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے سینیٹ الیکشن میں اسلام آباد کی نشست پر اپنی پارٹی کے 16 یا 17 ارکانِ قومی اسمبلی کو اپنے ووٹ فروخت کرنے کا موردِ الزام بھی ٹھہرایا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس انتخابی عمل سے جمہوریت کو نقصان پہنچا ہے۔ ہائوس کے اندر وزیراعظم پر اعتماد یا عدم اعتماد کا اظہار پارلیمانی جمہوریت کا حصہ ہے؛ تاہم وزیراعظم کا از خود ہائوس میں اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کرنا ہماری پارلیمانی جمہوری تاریخ کا اچھوتا اور نادر واقعہ ہے۔ وزیراعظم کو ازخود اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت اس لئے نہیں تھی کہ ہائوس میں سرکاری بنچوں کی عددی اکثریت بدستور موجود ہے؛ تاہم اعتمادکے ووٹ سے اب دنیا کو یہی پیغام گیا ہے کہ وزیراعظم کی پوزیشن مستحکم نہیں رہی‘ اس لئے صدر مملکت نے انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا۔ ایسے میں فیٹف کی لٹکتی تلوار عالمی سطح پر ملکی و قومی ساکھ کو دائو پر لگا نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔

 

اس کارروائی کے دوران اسمبلی حال میں حزبِ اختلاف کا کوئی رکن موجود نہیں تھا کیونکہ حزبِ اختلاف نے اعتماد کے ووٹ کی اس کارروائی کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ وزیراعظم پر 178ارکان نے اعتماد کا اظہار کیا جبکہ وہ 176ووٹوں سے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے، حکومتی اراکین دو ووٹوں کے اضافے پر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں مگر اس فتح پر پی ٹی آئی کو یہ خوش فہمی دور کر لینی چاہیے کہ اب اس کی پوزیشن زیادہ مستحکم ہو گئی ہے بلکہ اسے پہلے سے زیادہ آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی وزیراعظم کو اپنے دورِ اقتدار میں ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا مرحلہ درپیش آیا ہو۔ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں بحران تھم جائے اور حکومت دوبارہ اعتماد کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکے مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ ماضی میں ایک ہی بار ایسا ہوا اور وزیر اعظم کو پارلیمان کا اعتماد ملنے کے باوجود سیاسی کشیدگی ختم نہیں ہوئی۔ 27 مئی 1993ء کو جب نواز شریف نے اپنی حکومت کی بحالی کے بعد ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے رجوع کیا تو 123 ارکان کی حمایت سے انہیں کامیابی ملی تھی۔ قومی اسمبلی کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری طاہر حنفی کے مطابق‘ وہ کارروائی قومی اسمبلی کے ضابطہ 285 کے تحت ہوئی تھی۔ 1993ء اور 2021ء میں اعتماد کے ووٹ میں کیا فرق ہے؟ اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ موجودہ کارروائی آئین کی دفعہ 91 شق 7 کے تحت ہو رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ صدرِ مملکت کو اب یہ اعتماد نہیں رہا کہ وزیر اعظم کو ایوان کا اعتماد حاصل ہے۔ اس سارے منظر نامے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ حکومت کو بند گلی کی جانب دھکیل دیا گیا ہے جس کے بعد سیاسی بحران کے مزید سنگین ہونے کا خدشہ ابھر سکتا ہے۔ آنے والے حالات حکومت کیلئے سازگار نظر نہیں آرہے کیونکہ اعتماد کا ووٹ حاصل کر لینے کے باوجود اپوزیشن حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دے گی۔ اپوزیشن پنجاب اسمبلی سے عدم اعتماد کا آغاز کرنے کا پہلے ہی عندیہ دے چکی ہے اور اگر پنجاب پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل گیا تو یہ بہت بڑی سیاسی شکست ہو گی۔
سینیٹ کے انتخاب میں اسلام آباد کی خاتون نشست پر حکمران جماعت کی نامزد خاتون امیدوار کو 174 ووٹ ملے لیکن دوسری سیٹ میں حکومت کو دھاندلی نظر آ گئی۔ بلاشبہ وزیراعظم کو اپنے امیدوار کی شکست اور اپنی پارٹی کے ارکان کے مبینہ طور پر فروخت ہونے کا قلق ہوا اور اسی خدشے کے پیش نظر وہ سینیٹ الیکشن میں خفیہ رائے شماری کو جمہوری نظام کیلئے تباہ کن قرار دے رہے تھے۔ اس حوالے سے ان کے جذبے کی سچائی اور دیانت داری کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ البتہ الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنا کر انہوں نے کوئی اچھی روایت قائم نہیں کی۔ الیکشن کمیشن نے ان کی تقریر اور متعدد وفاقی وزرا کی پریس کانفرنسز کی بنیاد پر نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ الیکشن کمیشن آئین کے تابع ایک خود مختار ادارہ ہے اس کے فیصلے پر تنقید اس کی خودمختاری کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ اپنی مرضی کے منافی کوئی فیصلہ صادر ہونے پر آئینی اداروں کو رگیدنا کسی صورت بھی مناسب نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کا کردار متوازن اور ساکھ ترازو کی طرح برقرار ہے۔ کل وہ حکومت کی نظر میں سرخرو اور اپوزیشن کے زیر عتاب تھا، اب منظر نامہ بدل گیا ہے۔ سینیٹ الیکشن کے عمومی نتائج وہی ہیں جن کی توقع کی جا رہی تھی۔ چند ایک کے سوا تمام پارٹیوں کو ان کی قومی و صوبائی اسمبلی میں ارکان کی تعداد کے مطابق ہی نشستیں ملی ہیں؛ تاہم حکومتی امیدوار عبدالحفیظ شیخ کے مقابلے میں پی ڈی ایم کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کی جیت سے حکومت کو دھچکا لگا ہے۔ گو یہ ایک سیٹ کی بات ہے مگر یہی وہ سیٹ ہے جس کے حصول کیلئے حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اپنے گھوڑے دوڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
وزیراعظم صاحب کی اسمبلی میں کی گئی تقریر عوام کے دل کے بہت قریب ہے جس میں ہر پاکستانی کی امنگوں کی ترجمانی کی گئی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا حکومت مسائل کی نشاندہی کرنے کے بجائے ان کے حل اور عمل پر زور دے گی؟ اگر پی ٹی آئی حکومت اپنے 50 فیصد منشور پر بھی عمل درآمد کر لے تو اگلے 5 سال بھی پی ٹی آئی ہی کے ہوں گے لیکن اس کیلئے عوام کو مسائل کی دلدل سے نکالنا ہو گا، مہنگائی اور تیل و بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، مہنگائی کی چکی میں پسنے والے غریبوں کا تبدیلی کے نعروں سے پیٹ نہیں بھرتا‘ انہیں حقیقی ریلیف کی ضرورت ہے۔ میرا حکومت کو یہ مشورہ ہے کہ دوسروں کی خامیوں کے بجائے اپنی خوبیوں پر سیاست کریں۔ اب حکومت کیلئے سینیٹ الیکشن میں اپنی شکست اور اپنے ارکان کے باغی ہونے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ غالب امکان ہے کہ یہ ارکان حکومتی پالیسیوں سے عاجز آ گئے ہوں اور ردعمل میں حکومتی امیدوار کو ووٹ دینے سے گریز کیا ہو۔ ضمنی انتخابات میں بھی جو نتائج سامنے آئے ہیں‘ ان سے بھی یہی عندیہ ملتا ہے۔ اگر حکومت شروع سے ہی عوامی مسائل کے حل کی جانب توجہ دے کر عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف دینے کی کوشش کرتی تو آج نتائج کچھ اور ہوتے۔
اب حکومت کیلئے اگلی آزمائش چیئرمین سینیٹ کا الیکشن ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن کو پانچ ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی خفیہ ووٹنگ سے ہونا ہے اور اکثریت کی بنیاد پر یہ منصب اپوزیشن کے حصے میں آتا ہے مگر ہمارے ہاں مروجہ جمہوریت میں کسی بھی نتیجے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ سیاست میں اختلافات شجرِ ممنوعہ نہیں بلکہ سیاست کا حسن ہیں مگر انہیں ذاتیات اور دشمنی تک نہیں بڑھانا چاہیے۔ تحمل پر مبنی رویے ہی جمہوریت کی بقا اور اس کی مضبوطی کے ضامن بنتے ہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں