میانمار تاریخ کے تاریک دوراہے پر!

میانمار (برما) میں جمہوری حکومت کیخلاف برمی فوج کی بغاوت نے خوف و ہراس کا سماں پیدا کر رکھا ہے۔ مارشل لا کے خلاف میانمار کے عوام سڑکوں پرہیں اور ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔ میانمار ایک بار پھر ''خارج شدہ ریاست‘‘بن سکتی ہے جس سے عوام ناخوش ہیں کیونکہ مستقبل میں وہ فوج کے ساتھ آگے جانا نہیں چاہتے، وہ آنگ سان سوچی کو''آمریت‘‘کے خلاف ایک دیوار کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن اگر احتجاجی مظاہرے طول پکڑ گئے تو یہ ایک ایسے بحران میں تبدیل ہو جائیں گے جس کا نتیجہ ماضی میں ہونے والی تباہی سے بھی بھیانک ہو گا۔ ملک کے ہر شعبے میں میانمار کی آرمی کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور اس کا غیر پیشہ ورانہ عمل دخل کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ''نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی‘‘ (این ایل ڈی) کا تختہ آناً فاناً الٹ دیا گیا۔ میانمار میں مسلم نسل کشی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے والے امریکا اور یورپ میں فوج کی جانب سے جمہوری نظام کے لپیٹے جانے پر صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ جہاں کہیں بھی جمہوریت پر حملہ ہو گا‘ امریکا وہاں جمہوریت کے لیے کھڑا ہو گا۔ اقوام متحدہ نے اس حوالے سے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا۔ 50برس سے زائد عرصہ تک برسراقتدار رہنے کے بعد لگ بھگ ایک دہائی قبل ملک سے طویل ترین جابرانہ آمریت کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے اقتدار ایک سویلین حکومت کے حوالے کرنے والی برمی فوج کا ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کرکے سیاسی حکمرانوں کو پابند سلاسل کرنا کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں؛ تاہم اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ آئین میں تبدیلی اورانتخابی نتائج کی توثیق کے خوف نے فوج کو مارشل لا پر مجبور کیا۔ یہ بھی واضح رہے کہ جس وقت ملک میں مارشل لا نافذ کیا گیا اسی روز سوچی کی پارٹی کو اقتدار میں اپنی دوسری مدت کا آغاز کرنا تھالیکن پسِ پردہ رہتے ہوئے فوج نے معاملات پر اپنی گرفت انتہائی مضبوط رکھی اور ایسا میانمار کے آئین کی وجہ سے ہی ممکن ہوا جس کے تحت پارلیمان اور ملک کی طاقتور ترین وزارتوں کا ایک چوتھائی حصہ فوج کو دیا جاتا ہے۔ انتخابات میں یہ بھی دیکھا گیا کہ فوج کی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (یو ایس ڈی پی) کچھ ووٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی لیکن فوج اس کے باوجود حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی رہی۔ 2008 ء کے آئین‘ جو فوجی جنتا کی حکومت کے دوران تشکیل دیا گیا تھا‘ کی بدولت فوج کو داخلہ، دفاع اور سرحدی امور کی وزارت سمیت پارلیمان میں ایک چوتھائی سیٹیں ملتی ہیں جب تک میانمار کا آئین فوج کو سیاست میں ملوث رکھے گا، فوج کا سیاسی اثر و رسوخ قائم رہے گاجس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ''این ایل ڈی‘‘ کو آئین تبدیل کرنے کی کوشش پر یہ سزا دی گئی۔ میانمار کی سرکاری فوج کا نام ''ٹٹمادو‘‘ہے، ملکی بجٹ میں فوج کا بڑا حصہ ہے، میانمار اکنامک کارپوریشن اور میانمار اکنامک ہولڈنگز لمیٹڈ فوج کی دولت کا اہم ذریعہ ہیں، بینکاری، کان کنی میں بھی فوج کی شراکت داری ہے، اس کے علاوہ بھی میانمار کی فوج کئی بزنس کر رہی ہے۔ فوجی بغاوت کی قیادت کرنے والے جنرل کا بیٹا بھی متعدد کمپنیوں، ساحلی ہوٹل اور قومی ٹیلی کام کمپنی 'مائی ٹیل‘میں نصف سے زائد شیئر کا مالک ہیں۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ ا تنا کچھ ملنے کے باوجودبرمی فوج نے اقتدار پر قبضہ کیوں کیا؟ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ مسلمانوں سے نفرت کرنے والی بودھ اکثریت میں سوچی بہت زیادہ مقبول ہیں، سوچی کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے انتخابات میں 80 فیصد سے زائدووٹ حاصل کرکے ملکی اقتدار کی باگ ڈور سنبھال رکھی تھی۔ فوج کی حمایت یافتہ اپوزیشن نے انتخابات کے فوراً بعد ہی دھوکا دہی کے الزامات لگانا شروع کر دیے تھے لہٰذا انہی کو نئے قائم مقام فوجی صدر کی طرف سے جاری کردہ ایک دستخطی بیان میں دہرایا گیا ہے۔ ایسا شاید اس لئے کیا گیا کہ فوج کی جانب سے اعلان کردہ ایمرجنسی کے نفاذ کو جواز فراہم کیا جا سکے۔
میانمار کے سیاسی منظر نامے میں صرف فوج کی کٹھ پتلی سیاسی جماعتوں کا راج رہاہے۔ 1988 ء میں اقوام متحدہ سے ملازمت چھوڑ کر میانمار آکر سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کرنے والی سوچی نے جو نئی جماعت بنائی تھی بظاہر اسے بھی فوج کے ایسے سابق افسران کی ہی پشت پناہی میسر رہی جو حاضر سروس فوجی افسران سے شدید اختلافات رکھتے تھے۔ عوام میں طویل فوجی اقتدار کے خلاف اور جمہوریت کی حمایت میں اس نے کچھ اس طرح راہ ہموار کی کہ صرف2سال بعد ہی 1990ء میں ہونے والے انتخابات وہ میانمار فوج کی کٹھ پتلی جماعتوں کو شکست دیتے ہوئے نہ صرف کامیاب ہو گئی بلکہ 81 فیصد ووٹ حاصل کر کے آمریت پسندوں کے لئے ایک واضح خطرہ بھی بن گئی۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ سوچی کے تعلقات اپنی فوج سے ہمیشہ ہی دوستانہ رہے۔ 2010ء ان کو نظر بندی سے رہا کرکے ملکی اقتدارسونپا گیا تھا اور 2015 ء کے انتخابات میں ان کی جماعت این ایل ڈی کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ ان انتخابات کے بعد آنگ سان سوچی کے لیے ''سٹیٹ کونسلر‘‘ کے نام سے ایک نیا عہدہ تشکیل ہوا۔ افسوس سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی عصمت دری، قتل اور نسل کشی کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا بلکہ 2019ء میں اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل جسٹس کورٹ میں سماعت کے دوران سوچی نے فوج کے اقدامات کا دفاع کر کے اپنے ساتھ جمہوری نظام کو بھی بدنام کر دیا اس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیموں نے ماضی میں انہیں دیے جانے والے نوبیل پیس پرائز سمیت تمام اعزازات واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ سوچی پر عالمی تنقید کے باوجود فوجی جنتا انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتی رہی اور فوج کے تحفظات کو اس وقت مزید تقویت ملی جب مارچ 2020ء میں سویلین حکومت نے آئین میں ترامیم کرکے حکومتی معاملات میں فوج کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی۔ اس سے قبل کہ میانمار کی پارلیمان فروری کے پہلے ہفتے میں الیکشن کے نتائج کا باضابطہ طور پر اعلامیہ جاری کرتی‘ آنگ سان سوچی سمیت کئی منتخب سیاسی رہنماؤں کو نظر بند کرکے فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
عالمی سیاست کے تناظر میں اس تمام پیش رفت کو بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارت کی شروع دن سے ہی کوشش رہی ہے کہ وہ میانمار سے اپنے تعلقات کو مضبوط کرے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ میانمار، بنگلہ دیش اور بھوٹان کے زمینی راستے بھارت کی 7ریاستوں سے ملے ہوئے ہیں جہاں چین اگر سلی گوڑی (Siliguri)کے علاقے کو بھارت سے کاٹ دے تو کئی بھارتی ریاستیں اپنی آزادی کا اعلان کر دیں گی اور اگرایساہوتا ہے تو پھر یہ مودی کے ساتھ ساتھ یہ بھارت کی بھی موت کے مترادف ہو گا، لہٰذاصورتحال کو قابو میں رکھنے کیلئے ماضی میں بھارتی حکمرانوں نے میانمار کے متعدد دورے کئے۔ اب چونکہ بھارت داخلی احتجاجی مظاہروں میں گھر چکا ہے چنانچہ عالمی سیاست کے تناظر میں اس تمام پیش رفت کو بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ یہی بڑی وجہ ہے کہ امریکا اور بھارت سمیت تمام بڑے ممالک جو چین کے خلاف ہیں وہ اس معاملے پر اکٹھے ہو چکے ہیں کہ برمامیں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرکے بھارت کے ہاتھ مزیدمضبوط کئے جائیں۔ دراصل میانمار میں افراتفری بھی مغربی مذموم منصوبہ بندی کا ایک حصہ ہے تا کہ چین کوخلیج بنگال تک ایک تجارتی راہداری کی تعمیرسے روکا جائے کیونکہ میانمار میں چینی اثر و رسوخ امریکا کے لئے قابلِ بر داشت نہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے چین اور بھارت کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے میانمار ان دونوں ممالک کیلئے مشرقی ایشیا کے ممالک تک پہنچنے کا راستہ بھی بناتا ہے۔ اس وقت میانمار کے تیل اور قدرتی گیس کے بے تحاشا ذخائرپر قبضے کیلئے گریٹ گیم جاری ہے جس کا نشانہ پہلے روہنگیا مسلمان بنے جن کو سرکاری طور پر ملک کا شہری بھی نہیں گردانا جاتا، فوج کے ہاتھوں نسل کشی کے بعد لاکھوں افراد بے گھر ہوکربنگلہ دیش میں قائم مہاجرکیمپوں میں نہایت پسماندہ زندگی گزاررہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ بھی میانمار کی سکیورٹی فورسز پرماضی میں یہ الزامات عائدکر چکی ہے کہ وہ سنجیدہ نوعیت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں لیکن افسوسناک المیہ یہ ہے کہ ان کی روک تھام کیلئے کبھی کوئی اقدام دیکھنے کو نہیں ملا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں