جنرل (ر) حمید گل نے 1988ء میں دورانِ ملازمت اپنے ایک Concept Paper میں کہا تھا: Reach out to Moscow via Beijing۔افغانستان میں امریکی شکست کی سچ ہوئی پیش گوئی کے بعد روسی وزیر خارجہ کے دورۂ پاکستان نے ثابت کر دیا کہ چین کے ساتھ بہتر تعلقات کی وجہ سے ہی دونوں ملکوں میں قربتیں بڑھی ہیں۔ پاکستان اور روس کو قریب لانے میں سابق روسی سفیر Alexey Dedovکے مصالحانہ کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ اس وقت بھی روس میں اہم ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ ایک جانب نام نہاد سپرپاو امریکا افغانستان سے انخلا کی کوششوں میں ہے تو دوسری طرف بائیڈن انتظامیہ ایران مذاکرات کے نئے دور اور پابندیاں اٹھانے کا عندیہ دی رہی ہے۔ خطے میں داعش کے ابھرنے اور دہشت گردی کے بڑھتے خطرات کے تناظر میں بھی پاکستان کی تزویراتی اہمیت اور اثرورسوخ کی وجہ سے اسلام آباد سے تعلقات میں بہتری اور گرمجوشی خود روس کے اپنے مفاد میں ہے۔ اسی طرح پاک روس تعلقات کی بہتری سے خطے میں امریکا کا بگاڑا گیا طاقت کا توازن بھی بہتر ہو جائے گا۔ اگرچہ دونوں ممالک کے مابین دفاعی تعاون کئی سالوں سے جاری ہے؛ تاہم دونوں کو قریب لانے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا اپریل 2018ء کا دورہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ جنرل باجوہ نے اس دورے میں روس کی عسکری و سیاسی قیادتوں سے اہم ملاقاتیں کی تھیں۔ جہاں اس دورے سے تعاون کی نئی راہیں کھلیں‘ وہیں دونوں مسلح افواج بھی ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ دونوں ملکوں کے مابین ''دُرزبا‘‘ سالانہ فوجی مشقوں کا آغاز 2016ء میں ہوا۔ 2020ء تک یہ مشقیں پانچ بار منعقد ہو چکی ہیں جو دہشت گردی کے خلاف ممالک کے درمیان مثالی تعاون کا ثبوت ہیں۔ پاک بحریہ کی امن مشقوں 2021ء میں بھی روسی بحریہ نے بھرپور شرکت کی تھی، دونوں ممالک شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے رکن بھی ہیں اور مذکورہ تنظیم کے تحت بھی مشترکہ فوجی مشقیں ہو چکی ہیں جنہوں نے بھارت سمیت استعماری قوتوں کو بے چین کر رکھا ہے۔
روس پاکستان کو افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر دیکھتا ہے۔ کابل میں تعینات روسی نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوف انتہائی سمجھدار اور زیرک ہیں، وہ افغان امور پر وسیع تجربہ رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ افغانستان اور افغان امن عمل کو روسی وزیر خارجہ کے اس دورے میں خصوصی حیثیت حاصل رہی۔ گزشتہ سال پاکستان اور روس کے مابین باہمی تجارت کا حجم 46 فیصد اضافے کے ساتھ 790 ملین ڈالر ہوناخوش آئند ہے۔ پاکستان کے ساتھ حالیہ برسوں میں روس کا سکیورٹی، دفاع اور انسدادِ دہشت گردی جیسے معاملات میں تعاون بڑھا ہے لیکن پاکستان کو بھارت اور امریکا کے گٹھ جوڑ سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں کسی کٹھن صورتحال سے بچا جاسکے۔ روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے دوران دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں اور علاقائی امن اور استحکام خاص طور پر افغان امن عمل کیلئے پاکستان کے مخلصانہ کردار کا بھرپور اعتراف کیا۔ افغانستان میں امن کوششوں کا جلد بار آور ہونا یقینا عالمی امن کے مفاد میں ہے اور پاکستان اس ضمن میں مقدور بھر کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ دونوں ممالک کے مابین 9 ارب ڈالر تک کا دفاعی معاہدہ ایک بڑی کامیابی ہے جس کے عوض پاکستان جنگی طیارے، ہیلی کاپٹرز، ایئرڈیفنس میزائل سسٹم، ٹینک اور جنگی بحری جہاز خریدنے کا خواہاں ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اور اہم ترین دفاعی معاہدہ ہوگا اور اس معاہدے سے عالمی سیاست میں نہ صرف بھونچال آجائے گا بلکہ پاکستان کے امریکی انحصار میں بھی کمی واقع ہو گی؛ تاہم پاکستان کو اس معاہدے کی تکمیل کے سلسلے میں امریکا کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ روس کے ساتھ کشیدگی کو طویل عرصہ تک بھارت بڑی مکاری سے ہمارے خلاف استعمال کرتا رہا ہے۔ روس نے بھارت کو دفاعی طور پر مضبوط کرنے میں ہر ممکن مدد فراہم کی مگر جب بھارت نے امریکا کی طرف تعلقات کیلئے ہاتھ بڑھایا تو امریکا نے اسے پاکستان کی قیمت پر ویلکم کہا۔ دوسری جانب 1965ء کی پاک بھارت جنگ، سقوط ڈھاکا اور افغان روس جنگ کے بعد امریکا نے پاکستان سے آنکھیں پھیر لیں اور اپنی دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ میں پاکستان کو جھونک دیا۔ دوسری جانب جب بھارت امریکا کے قریب ہوا تو اس نے پاکستان کے خلاف امریکا کے کان بھرنا شروع کر دیے جس سے پاک امریکا تعلقات میں کشیدگی اس انتہا کو پہنچ گئی کہ امریکا نے پاکستان کی امداد بند کردی، ڈومور کے بے جا تقاضے ہونے لگے‘ پاکستان کو سبق سکھانے اور حملہ تک کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ اگرچہ پاکستان نے حالات نارمل کرنے کی کوشش کی جس میں کسی قدر کامیابی ملی اور اسی وجہ سے امریکا طالبان امن معاہدہ بھی ہو گیا جسے بھارت اور افغان انتظامیہ نے سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ امن معاہدہ ابھی تک برقرار ہے مگر اس کے مستقبل پرسوالیہ نشان ہے۔
امریکا نے چین کے مقابلے میں بھارت کو طاقتور بنانے کی کوشش کی اورامریکی ایما پر ہی بھارت چین کے ساتھ الجھ رہا ہے۔ اُدھر روس اور امریکا کے تعلقات میں یوکرائن کے مسئلے پر بھی کشیدگی بڑھی ہے۔ روس کی بھارت سے دوری بھی پاکستان کے قریب آنے کی ایک وجہ بنی ہے۔ بعد ازاں دونوں رفتہ رفتہ اتنے قریب آگئے کہ روسی وزیر خارجہ دو روزہ دورے پر پاکستان آئے۔ موجودہ حالات بتا رہے ہیں کہ روس خطے میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے دوبارہ سرگرم ہو چکا ہے۔ ماسکو میں طالبان اور روسی حکومت کے مابین کانفرنس کا انعقاد بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے لہٰذا امریکی پشت پناہی میں علاقے کا تھانیدار بننے کے خبط میں مبتلا بھارت کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ امریکا اور اُس کے اتحادیوں کے تشکیل کردہ اتحاد''کواڈ‘‘ کا ہدف صرف اور صرف چین ہے۔ چین کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے ہی پاکستان اور روس کے تعلقات میں گرمجوشی میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس روس کے جنوب میں ہونے والی فوجی مشقوں میں نہ صرف چین بلکہ پاکستان بھی شریک ہوا تھا۔ ان مشقوں کی غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے روسی دفاعی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ نریندر مودی کی پالیسیوں کی وجہ سے ایشیا میں روس، چین، پاکستان، ایران اور ترکی کا باہمی اتحاد ابھر رہا ہے۔ بھارتی تھنک ٹینک کے مطابق روس‘ امریکا خراب تعلقات نے چین‘ روس اتحاد کو مضبوط بنایا ہے۔ایسے وقت میں جب بھارت امریکا کے ساتھ سٹریٹیجک شراکت داری مستحکم کر رہا ہے‘ پاک روس تعلقات مثبت اثرات کے حامل ہوں گے۔ پاکستان میں سوویت یونین کے ساتھ مختصر دوستی کی یادگار سٹیل مل ہے۔ اب دفاعی تعاون بڑھانے کے علاوہ روس پاکستان نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن منصوبے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے جبکہ روسی ویکسین سپوتنک کے حوالے سے بھی بات چیت جاری ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان صنعتی پیداوار کے شعبے کے ساتھ اب سی پیک کا منصوبہ بھی فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کو کشمیر اور بھارت کی آبی دہشت گردی جیسے حساس معاملات میں ایسے دوستوں کا ساتھ چاہیے اور اقوامِ عالم اور اقوامِ متحدہ میں اثر ورسوخ رکھتے ہوں۔ وزیراعظم عمران خان نے 2019ء میں کرغزستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سالانہ اجلاس کے موقع پر روسی صدر پیوٹن کے ساتھ غیر رسمی ملاقات کی تھی جس کے بعد دونوں ممالک کے مابین مراسم گہرے ہوتے چلے گئے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خطے کی تبدیل شدہ صورتحال میں ا مریکی حکمت عملی کو آگے بڑھانا بائیڈن کا امتحان ہے۔ دنیا بھر میں نئے اتحاد قائم ہونے سے کچھ دوست دشمن اور کچھ دشمن ایک دوسرے سے تعلقات بڑھانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ سکیورٹی کیلئے خلیجی ممالک کا صرف امریکا پر انحصار اب ممکن نہیں رہا۔ چین کی شکل میں دوسرا آپشن ملنے سے امریکی بالادستی کو شدید دھچکا لگا ہے اور روس بھی امریکا کیلئے خطے میں نیا چیلنج بن کر ابھرا ہے جس سے وائٹ ہاؤس میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ چین کی اقتصادی ترقی اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شکست اور بڑھتے ہوئے جانی و مالی نقصان نے امریکا کو ایک نئے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔