''پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ اپنی نشانیوں کی سیر کروائیں اور بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔ (سورہ بنی اسرائیل: 1)۔ سرزمین فلسطین کو انبیاء کرام کی سر زمین کہا جاتا ہے۔ بیشتر انبیاء کرام کی پیدائش اسی سرزمین پہ ہوئی، اس لیے یہ زمین تمام الہامی مذاہب کے ماننے والوں کے لیے متبرک ہے۔ بیت المقدس، القدس، یروشلم‘ یہ شہر تو ایک ہے مگر اس کے کئی نام ہیں۔ اسی شہر میں وہ مسجدِ اقصیٰ ہے‘ جو حرمین شریفین کے بعد اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے اور جہاں سے ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیﷺ شب معراج کو آسمانوں کی سیر کے لیے گئے تھے۔ یوں اس مسجد کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔ ہر سال ماہ رمضان میں جمعۃ الوداع کو فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی اور قبلہ اول کی اسرائیل سے بازیابی کے عزم کے اعادہ کیلئے'' یوم القدس ‘‘ منایا جاتا ہے۔ اسے فارسی میں ''روز جھانی قدس‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یوم القدس اس بات کا استعارہ ہے کہ فلسطینی عوام تنہا نہیں ہیں‘ ہم ان کے دکھ‘ درد اور غم و الم میں برابر کے شریک ہیں۔ جب تک تمام پناہ گزین فلسطینی اپنے گھروں میں واپس نہیں جائیں گے ہم بھی چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
7 اگست 1979ء کو ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی کا رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو 'یوم القدس ‘کے نام سے موسوم کرنے کا مقصد امت مسلمہ کے نزدیک مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنا تھا۔ ایرانی پیشوا نے اپنے خطاب میں کہا تھا ''میں تمام مسلم امہ کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ مقدس ماہ رمضان کا جمعۃ الوداع فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر منائیں اور اس روز دنیا کو باور کرایا جائے کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے جس پر اسرائیل نے بزورِ جبر تسلط جما رکھا ہے‘‘؛ چنانچہ مسلم ممالک سمیت دنیا بھر میں ''یوم القدس‘‘ کو ریلیاں، کانفرنسز اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ دراصل اس دن کا مقصد فلسطینی عوام پر قابض اسرائیلی فوج کی بربریت ودرندگی کے حوالے سے اقوام متحدہ سمیت حقوق انسانی کے علمبردار اداروں اور ملکوں کے ضمیر کو جگانا ہے۔ اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں کی حمایت بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے موقف کی تجدید ہے۔ افسوس! آج مسلم امہ کے نفاق ، عرب اسرائیل امن معاہدے، سنچری ڈیل، شام کی خانہ جنگی، ایران سعودیہ کشیدگی جیسے اندرونی مسائل نے فلسطین کی جدوجہدِ آزادی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ 1945ء میں فلسطینیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے قائم کردہ عرب لیگ اور 1964ء میں قائم ہونے والی پی ایل او (Palestinian liberation organization) کا کردار بھی مایوس کن رہا ہے۔
تاریخ پر نظردوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد 1948ء میں پہلی بار مغربی و استعماری طاقتوں کے بل بوتے پر اسرائیلی ریاست دنیا کے نقشے پر ابھری حالانکہ Zionism یعنی صہیونی تحریک نے فلسطین میں ناجائز ریاست کے قیام کی کوششیں1800ء سے ہی شروع کر رکھی تھیں، اس وقت وہاں صرف 5 فیصد یہودی آباد ہوئے تھے‘ جس کا ذکر Rahman Zariani Abdul کی کتاب Hitler and Wandering Jew (طبع 1948ء) میں بھی ہے۔ 1897ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر پال میں یہودیوں کی ایک کانفرنس میں یہودیوں نے فلسطین کو ''اپنا وطن‘‘ بنانے کی قرارداد منظور کی تھی۔ تھیوڈور ہرتزل کی ''یہودی مملکت‘‘ (The Jewish State) نامی کتاب میں موجود صہیونی ریاست کے نقشے میں سارا فلسطین‘ پورا اردن‘ تمام شام‘ لبنان‘ عراق اور کویت کے بیشتر علاقے جبکہ سعودی عرب کا بھی ایک بڑا حصہ شامل کیا گیا تھا۔ صہیونی ریاست کی حدود کو مدینہ منورہ تک وسیع کیے جانے کا مذموم پلان ہے۔ مصر سے صحرائے سینا‘ قاہرہ اور اسکندریہ کو بھی اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیا ہے جبکہ یہ عبارت ''اے اسرائیل تیری سرحدیں دریائے فرات سے دریائے نیل تک ہیں‘‘ اسرائیلی پارلیمنٹ کی پیشانی پر بھی کنندہ ہے، جسے عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ ہردم کوشاں رہتے ہیں۔ تھیوڈور ہرتزل کی صہیونی تحریک کا اصل مقصد یہی تھا کہ فلسطین پر دوبارہ قبضہ کیا جائے اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جائے۔
فلسطین دنیا کا بدنصیب ترین علاقہ ہے جو جنگ عظیم اول میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی سامراجیت کا سب سے زیادہ شکار ہوا۔ فلسطینی عوام گزشتہ 73 سالوں سے سامراجیت اور صہیونیوں کے سامنے مزاحمت کرتے چلے آ رہے ہیں، فلسطین کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا گیا ہے‘ انسانیت سوز تشدد اور فلسطینی شہریوں کو ان کے گھروں سے بیدخل کرنا درندہ صفت صہیونی افواج نے معمول بنا رکھا ہے۔ اسرائیلی غاصب فوج کے ہاتھوں مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ فلسطینیوں کے جذبۂ حریت کو کچلنے کے لیے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ حاملہ خواتین کا قتل، خاص طور پر نوزائیدہ بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنا انسانی حقوق کے عالمی علمبرداروں کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہے۔ فلسطینی نیشنل اتھارٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ صہیونی افواج کی بربریت و درندگی سے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی مہلک امراض میں مبتلا ہو چکے ہیں جن میں سینکڑوں قیدیوں کو فوری آپریشن و علاج کی ضرورت ہے۔ اسرائیل حقوق انسانی کے عالمی منشور کے آرٹیکلز 5 اور 9 کی مسلسل خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے‘ مگر کوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے۔ نہ صرف صہیونی زندانوں میں محصور مظلوم فلسطینیوں بلکہ ان کے عزیز و اقارب کو بھی شدید ذہنی ٹارچر اور دبائو کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سینکڑوں نابالغ فلسطینی بچے بھی اسرائیلی جیلوں میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے پر مجبور ہیں۔ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 27 نومبر 2007ء کو میری لینڈ کے دارالحکومت انا پولس میں ہونے والی نام نہاد عالمی امن کانفرنس میں طے پانے والے معاہدے ''Roadmap For Peace‘‘ کے بعد اسرائیل نے بیت المقدس اور بیت اللحم کے درمیان ہرہومہ نامی خطے پر یہودیوں کوبسانے کے ایک نئے منصوبے کو پیش کرکے بتا دیا تھا کہ اسے اپنے موقف کے برخلاف امن سے کوئی دلچسپی نہیں اور یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رہے گی حالانکہ عالمی قانون کے مطابق کسی بھی مقبوضہ علاقے میں کسی قسم کی تعمیرات کی کوئی اجازت نہیں ہے۔
یو این سکیورٹی کونسل اور جنرل اسمبلی کی 1979ء میں منظور کردہ قرارداد کے تحت فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی تعمیرات عالمی قانون، جنیوا کنونشن (iv) اور یو این قرارداد کی صریح خلاف ورزی ہیں جبکہ کسی شہری کو اس کی جائیداد سے محروم کرنا حقوق انسانی کے عالمی منشور کے آرٹیکل17 کی خلاف ورزی ہے۔ حالیہ رپورٹوں کے مطابق صہیونی ریاست دھڑا دھڑ فلسطینی گھروں اور آبادیوں کو مسمار کرنے میں مصروف ہے۔ اسرائیل کے زیر قبضہ غرب اردن میں کم از کم 25 لاکھ فلسطینی آباد ہیں جبکہ مقبوضہ یروشلم (بیت المقدس) میں فلسطینیوں کی آبادی تین لاکھ 50 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ غزہ کی پٹی میں بسنے والے فلسطینیوں کی تعداد 19 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی پٹی بھی ان فلسطینی علاقوں میں شامل ہے جہاں اسرائیل نے قبضہ جما رکھا ہے۔ ان عرب علاقوں پر اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا تھا۔ اگرچہ 2005 ء میں اس نے غزہ سے انخلا کر لیا تھا لیکن اب بھی غزہ کی سرحدوں سمیت اس کی فضائی حدود اور اس کے ساحل کے قریب کے پانیوں پر کنٹرول اسرائیل کا ہی ہے۔ غرب اردن اور مشرقی بیت المقدس میں تعمیر کی جانے والی 140 بستیوں میں چھ لاکھ سے زیادہ یہودیوں کو آباد کیا جا چکا ہے۔ درحقیقت عالمی استعماری قوتیں طاقت کے بل بوتے پر مسلمانوں سے ان کا وطن اور ان کی آزادی چھیننے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے یو این او کی ہیومن رائٹس کونسل کے اعداد وشمار نہایت ہولناک ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے بالخصوص ہیومن رائٹس واچ کی حقائق اگلتی رپورٹ میں اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ نسلی امتیاز برتنے اور بین الاقوامی جرائم کا سنگین مرتکب قرار دیتے ہوئے اسرائیلی اقدامات کو 'اپارتھائیڈ‘ یعنی نسلی امتیاز میں شمار کیا ہے۔ اپارتھائیڈ (Apartheid) سے مراد نسلی امتیاز کی ایسی پالیسی ہے جسے ریاست کی حمایت حاصل ہو اور اسے عالمی سطح پر انسانیت کے خلاف سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ بین الاقوامی عدالت (آئی سی سی) میں بھی مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں صہیونی جنگی جرائم کی تفتیش کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے؛ چنانچہ ہیومن رائٹس واچ اور آئی سی سی کا اسرائیل کے مجرمانہ کردار کو سامنے لاتے ہوئے فلسطینیوں کے حق میں بات کرنا ایک اچھی پیشرفت ہے۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ عالمی برادری، بالخصوص مسلم ممالک تمام اہم بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر اس رپورٹ کے ذریعے اسرائیلی جرائم اور مظالم کی کھل کر مزاحمت کریں تاکہ فلسطین کی ناجائز صہیونی قبضے سے نجات کی کوئی صورت پیدا ہو سکے اور فلسطینی مسلمان آزادی کا سانس لے سکیں۔