بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ کون کرے گا؟

اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ بلوچستان کی ترقی میں ہی پاکستان کی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ افسوس قدرتی وسائل بالخصوص ریکوڈک ذخائر، قدرتی گیس و دیگر قیمتی معدنیات سے مالا مال صوبہ گزشتہ 73 سالوں سے مسلسل عدم توجہی کا شکار ہے اور اس کی ایک کروڑ کے لگ بھگ آبادی تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتوں سے کوسوں دور ہے ۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ملکی رقبے کا تقریباً6 4 فیصد ہے۔ سوئی سمیت خاران، بولان، قلات، ژوب، کوہلو اور زرغون میں تیل و گیس کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان کی 56 فیصد گیس کی ضروریات یہیں سے پوری ہوتی ہیں مگر صوبے کے 34 میں صرف 20 اضلاع کو گیس میسر ہے۔ یہاں تک کہ سوئی سے 4 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود آبادی بھی اس نعمت سے محروم ہے۔ ایٹمی دھماکے کی سر زمین چاغی گوناگوں مسائل سے دو چار ہے۔ آج تک اس کو وہ حق نہ مل سکا ‘جو ملنا چاہیے تھا۔ سندھ کے بعد کوئلے کی پیداوار میں بلوچستان دوسرے نمبر پر ہے۔ دیگر قدرتی ذخائر میں کرومائیٹ، جپسم اور ماربل بھی یہاں بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود صوبے کے 85 فیصددیہات غریبی و بدحالی کے انتہائی نچلے درجے پر ہیں۔ کوئٹہ‘ برطانوی دورِ حکومت میں انگریز بھی جس کے حسن کے دلداہ تھے‘ گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کی صفائی کی صورتحال نہایت خراب ہے۔ کوئٹہ سے میرے بچپن کی بھی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں، جب یہاں آبشاروں کا شور سنائی دیتا تھا اور میٹھے پانی کے چشمے بہتے تھے۔ آج اس کی حالتِ زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ چونکہ یہاں کا موسم وطن عزیز کے باقی حصوں کی نسبت عموماً خشک ہوتا ہے اور یہاں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں‘ بے ہنگم آبادی، طویل خشک سالی اور بغیر منصوبہ بندی کے نئے رہائشی منصوبوں کی بدولت پانی کی کمی سنگین تر ہو چکی ہے۔ ان کے پاس زمینی پانی کو 'ری چارج‘ کرنے کاکوئی ذریعہ بھی نہیں ہے۔ دھڑا دھڑ کھدائی اور ڈرلنگ سے ''واٹر ٹیبل‘‘ گر رہا ہے۔ آبی بحران میں مبتلا کوئٹہ سمیت بلوچستان کے باسی ''آب اندوخت‘‘، ''فوسل واٹر‘‘ (ہزاروں سالوں میں پیدا ہونے والے سخت چٹانوں میں تازہ پانی کے زیر زمین ذخائر) کی گہرائی میں کھدائی کرنے پر مجبور ہیں۔ کوئٹہ اور اس کے مضافاتی علاقوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح بہتر کرنے کے لیے 129چیک ڈیموں کی تعمیر کا تیار منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہے۔ زراعت کے لیے سولر ٹیوب ویل اور دیگر ذرائع استعمال کیے جا رہے ہیں مگر وہ پانی کی کمی کا مستقل حل نہیں۔ اتنا وسیع رقبہ ہونے کے باوجود بلوچستان غذائی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہو سکا ہے۔ قلتِ آب کے ساتھ دیگر مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ نہ صرف کوئٹہ، مستونگ، قلات، زیارت، چاغی اور چمن‘ جو اجڑے چمن کا نظارہ پیش کرتا ہے‘ہر جگہ یہی مسائل ہیں۔
صوبے کی تعلیمی زبوں حالی کو گھوسٹ سکولوں نے اور بھی گمبھیر بنا دیا ہے۔ غریب والدین اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات اٹھانے سے قاصر ہیں۔ صوبے کی 90 فیصد آبادی سنگلاخ و غیر آباد علاقوں میں آباد ہے۔ جہاں عوام کو صحت و دیگر بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کے ساتھ ساتھ روزگار کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ مناسب روزگار کی عدم فراہمی کی وجہ سے وہاں کا نوجوان طبقہ ملک دشمن عناصر کا سب سے آسان ہدف ہو سکتا ہے‘ جس کی ذہن سازی کرکے بطورِ آلہ کار استعمال کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ سی پیک کا انقلابی منصوبہ پسماندگی کا شکار بلوچستان کی ترقی کی نوید ہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے کچھ تحفظات دورنہ کئے جا سکے ہیں۔ سی پیک کا مرکز ''گوادر‘‘ بھی یکساں نظر انداز ہے‘ اس کے اہم مسائل جوں کے توں ہیں۔صرف' فشریز‘ ہی علاقے کی ترقی کی ضامن نہیں۔ یہاں کے باشندوں کو صاف پینے کا پانی بھی درکار ہے۔ شعبہ کان کنی میں اصلاحات کے ساتھ وہاں کام کرنے والوں کان کنوں سمیت کول مائنز میں سرمایہ کاری کرنے والی چینی کمپنیوں کے تحفظ کا معاملہ ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا وقت کا تقاضا ہے۔ امسال خشک سالی سے سیب کی پیداوار متاثر ہوئی ہے، اگر فوری طور پر پانی کے بحران کے بارے میں کچھ نہیں کیا گیا تو صوبے میں سیبوں کے باغات بالکل ختم ہوجائیں گے۔
اگر موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو بلوچستان کو تین طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں دہشت گردی، پٹرول وڈرگز سمگلنگ اور غربت و پسماندگی سرفہرست ہیں۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ حکومتی نمائندوں نے کبھی بلوچ عوام کی حالتِ زار کو سدھارنے کیلئے سنجیدہ اقدامات ہی نہیں کیے۔ صوبے میں کچھ عناصر سمگلنگ میں بھی ملوث ہیں‘ سرعام سمگل شدہ ایرانی پیٹرول کی ارزاں نرخوں پر فروخت ہوتی ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ علاقہ ڈرگز کی سمگلنگ کا گڑھ ہے‘ نشہ آور اشیا بالخصوص شراب کی ہر تیسرے روزغیرقانونی ترسیل ہوتی ہے۔ یہاں رائج فرسودہ سرداری نظام میں عام آدمی کا استحصال ہو رہا ہے، کئی سردار بلوچ عوام کو اپنی کٹھ پتلیاں سمجھتے ہیں اسی لئے انہیں تعلیم و تربیت اور جدید سہولتوں سے دور رکھتے ہیں۔ سرداری نظام نے بلوچستان کے لا اینڈ آرڈرسسٹم کو کمزور کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کی آڑ میں صوبے کے وسائل ہڑپ کرلئے گئے، ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں بھی یہ نظام بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومتی فنڈ زکاعام آدمی کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں پہنچتا۔ دوسری جانب صوبے میں بلوچ و پشتون قبائل کے مابین بڑھتی تفریق سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں عمومی طور پر مجموعی آبادی کی 42 فیصد‘ بلوچ بیلٹ پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جبکہ پشتون، براہوی، ہزارہ جات و دیگر اقلیتی برادری کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ سی پیک منصوبے کیلئے پورے ملک میں ماسوائے بلوچستان‘ چینی زبان کے کورسز کروائے جارہے ہیں، اس پسماندہ صوبے میں بھی چینی لینگوئج کیلئے انسٹیٹیوٹ قائم کئے جائیں۔ پاک فوج کی جانب سے ہتھیار ڈالنے والے علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے ملٹری ورکشاپس اور تربیتی مراکز کا قیام خوش آئند ہے ، اس کے علاوہ بلوچستان کے غیور و بہادر عوام کی فوج میں نمائندگی کیلئے متعدد نوجوانوں کو ISSBکے ذریعے سلیکٹ کرکے کمیشن آفیسرکے طور پاک فوج کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ضروری ہے کہ بلا تفریق بلوچستان کے تمام نوجوانوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ یہ سہولت تمام بلوچ نوجوانوں کو بلا تخصیص فراہم کی جانی چاہیے تاکہ وہ بھی باعزت زندگی گزار سکیں۔ نوجوان طبقے کو چھوٹے کاروبار کیلئے سرمایہ دینا چاہئے تاکہ ان کا حکومت پر اعتمادبحال ہو اور وہ شرپسندوں کے چنگل سے نکل کر صوبے کی ترقی کیلئے بہتر امور سر انجام دے سکیں۔ بیروز گاری کے عفریت پر قابو پانے کیلئے انڈسٹریز کا قیام ناگزیر ہے‘ فروٹ انڈسٹری کو فروغ دینا چاہیے۔ میرا حکومت کو مشورہ ہے کہ صوبے میں زیادہ سے زیادہ صنعتیں لگانے کے مواقع پیدا کرتے ہوئے اسے آئندہ پانچ سال کیلئے ٹیکس فری زون بنا دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ سیاحت کے شعبے پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔
بلوچستان میں علیحدگی کی آگ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت گزشتہ 73 سالوں سے سلگائی جا رہی ہے۔ افغانستان کے ذریعے بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کا منظم نیٹ ورک صوبے میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث شرپسند عناصر کو اسلحہ اور سرمایہ کی فراہمی کے علاوہ انہیں تربیت بھی دیتا ہے جو ملک کی سلامتی کیلئے خطرے کا باعث ہے۔ ''را ‘‘ کے تحت چلنے والے تین چینلز 24 گھنٹے بلوچستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔ ملکی و قومی سالمیت و خودمختاری کے تحفظ اور دشمنوں کی سرکوبی کیلئے فوری کارروائی ضروری ہے۔اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ پاک فوج اور ایف سی صوبے میں امن و امان کے قیام، استحکا م اور سی پیک سمیت ترقی کے منصوبوں کی تکمیل اور ان کی حفاظت کیلئے کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں؛ تاہم کورونا اوردگرگوں ملکی حالات کے پیش نظر پاک آرمی کیلئے موجودہ وقت کسی آزمائش سے کم نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں