افغانستان میں طالبان کے تیزی سے بڑھتے اثرورسوخ اوراشرف غنی انتظامیہ کی اقتدار پرکمزور پڑتی گرفت کے باعث امریکا خطے سے جاتے جاتے اتحادیوں کی مدد سے جنوبی ایشیا میں ایک نیا جال بچھا رہاہے جس کا مقصد چین کے ''ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کوسبوتاژکرنا ہے۔ افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کا ڈرامہ، کے پی کے علاقے داسو میں 9 چینی انجینئروں کی ہلاکت اور بھارت کی پاکستان کے خلاف منظم جاسوسی کارروائیاں اسی مذموم سلسلے کی کڑیاں ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ''سی پیک‘‘بی آر آئی کا فلیگ شپ منصوبہ ہے جو آنے والے وقت میں علاقائی روابط میں اہم کردار ادا کرے گا۔ افغانستان یقینا وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکاری نہیں کہ مزید بدامنی کی صورت میں خطے کا کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ دہشت گردی کے خلاف20برس تک جاری رہنے والی نام نہاد جنگ کے دوران خراب حالات سے شدیدمتاثر ہونے کے باوجود امن، مصالحت، تعمیرِ نو اور اقتصادی ترقی کے تمام اقدامات کی حمایت جاری رکھتے ہوئے پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن گزشتہ دنوں ازبکستان کے شہر تاشقند میں وسطی جنوبی ایشیائی رابطہ کانفرنس میں افغان صدر اشرف غنی کے لگائے گئے بے سروپا الزامات سے جہاں ''امن عمل ‘‘کوشدید جھٹکا لگا‘ وہیں پاک افغان سرد مہری چین اور روس کیلئے کسی کڑے امتحان سے کم نہیں۔ افغان حکومت کی طرف سے لگائے گئے الزامات کوئی نئے نہیں کیونکہ کرزئی دورِ حکومت میں بھی اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالا جاتا رہا ہے اور اب 10 ہزار جنگجوئوں کو افغانستان بھیجنے کی من گھڑت خبریں پھیلائی جا رہی ہیں حالانکہ سپن بولدک پر طالبان حملے کے دوران وہاں سے فرار ہو کر آنے والے 40 افسران اور اہلکاروں کوپاکستان نے بحفاظت واپس افغانستان پہنچایا۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال دو دہائیوں کے تنازعات اور گہری تقسیم کا نتیجہ ہے۔ ایک لاکھ 50 ہزار نیٹو فوجیوں کی موجودگی میں طالبان کوسنجیدگی سے مذاکرات کی میز پر لانے کے بجائے جنگ کو ترجیح دی گئی جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔
نائن الیون کے بعد جب طالبان کے خلاف جارحیت کاارتکاب کیا گیا تو امریکا کو یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ جنگ دو دہائیوں پر محیط ہو جائے گی۔ امریکا کواس نام نہاد جنگ میں 2001 ء سے اب تک 1.2کھرب ڈالر سے زائد نقصان سے دوچار ہونا پڑا اور آج نیٹو افواج کی واپسی کے بعدافغان سکیورٹی فورسز بغیر کسی مزاحمت کے ہتھیار پھینک کر ایک سو سے زائدشہروں کا قبضہ طالبان کے حوالے کر چکی ہیں۔ واشنگٹن کی اپنے مقاصد اور مفادات کے حصول کیلئے توسیع پسندانہ اور جنگجویانہ پالیسیاں امریکی سمیت پوری دنیا کی معیشت کیلئے زہرِ قاتل ثابت ہوئی ہیں کیونکہ اس جنگ نے پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ امریکی کمزوری کا فائدہ کٹھ پتلی کابل انتظامیہ اور بھارت نے ہمیشہ بھرپور طریقے سے اٹھایاہے جس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں تعمیرِ نو کے مختلف پروگرامزکیلئے تقریباً 134 ارب ڈالر کی منظوری دی گئی تھی لیکن ان منصوبوں کا جب جائزہ لیا گیا تو انکشاف ہوا کہ 63 بلین کے اخراجات میں سے 19 بلین ڈالرزکرپشن اور ناجائز استعمال پر خرچ کئے گئے، صرف جنوری 2018 ء سے دسمبر 2019 ء تک تقریباً1.8 ارب ڈالرز فراڈمیں ضائع ہوئے۔ دراصل اقتصادی تسلط روز بروزختم ہونے کی وجہ سے''سپر پاور ‘‘امریکا کیلئے اب اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مختلف ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چلنے کی وجہ سے اس کا انجام بھی سوویت یونین کی طرح کا دکھائی دے رہا ہے۔ یاد رہے کہ سابق امریکی صدرٹرمپ کی کامیابی کے بعد علیحدگی پسند جذبات اتنی تیزی کے ساتھ پروان چڑھے ہیں کہ 25سے زائد امریکی ریاستوں‘ جن میں لوزیانا، ٹیکساس، مونٹانا، شمالی ڈکوٹا، انڈیانا، مسیسپی، کینٹکی، شمالی کیرولینا، الباما، فلوریڈا، جارجیا، نیو جرسی، کولوراڈو، اوریگون، جنوبی کیرولینا، ٹین ینسی، مشی گن، میسوری، نیویارک اور آرکنساس وغیرہ سرفہرست ہیں‘ نے علیحدگی کی درخواستیں جمع کروانے کوترجیح دی۔
دوسری جانب چین سرمایہ کاری، تجارت اورسفارتکاری کو استعمال کرتے ہوئے ایشیا میں ذرائع آمدو رفت اور اداروں کا ایک ایسا جال بچھارہا ہے کہ جس میں ہر ایک پالیسی ہر آنے والے منصوبے کو اس طرح تقویت دے کہ پورا خطہ اس کی بانہوں میں سمٹ آئے جبکہ چین کی بڑھتی ہوئی دفاعی صلاحیت اور اقتصادی و معاشی ترقی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے واشنگٹن اب ایک نیا محاذ کھولنے کے چکر میں ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان اربوں ڈالر زکے ترقیاتی منصوبوں کے معاہدوں پرجہاں بعض حلقے اطمینان اور خوشی کا اظہارکر رہے ہیں‘ وہیں چند ممالک اقتصادی راہداری کی تعمیر اور گوادر بندرگاہ معاہدوں پر تشویش کا شکار ہیں۔ دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور ''ون بیلٹ ون روڈ ‘‘منصوبے کی وجہ سے عالمی طاقتوں کے مابین ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ سی پیک منصوبے کوسبو تاژ کرنے کیلئے بھارت ایک طرف سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری کر کے پاکستان کیلئے مشکلات پیدا کر رہاہے تو دوسری جانب افغانستان کے راستے دہشت گردی کو پروان چڑھانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا؛ تاہم بیجنگ افغانستان کو '' ون بیلٹ ون روڈ ‘‘منصوبے میں شامل کرکے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے امکانات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ روس کوبھی یہ خدشہ لاحق ہے کہ مستقبل میں افغان سرحدوں پر کوئی نیابحران نہ پیدا ہوجائے یہی وجہ ہے کہ ماسکو بھی ممکنہ سکیورٹی وجوہات کے پیش نظر طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات کو ترجیح دے رہا ہے۔ نائن الیون سانحے کے بعد پتھر کے زمانے کی جانب لوٹانے کی دھمکی دے کرپاکستان کو افغان جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بناکر'' ڈومور ‘‘کے تقاضے کیے جاتے رہے حالانکہ امریکی بلاک کے ساتھ نتھی ہونے سے روس ہی نہیں دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا۔ قبل ازیں بھی اس حوالے سے تحریر کیا جا چکا ہے کہ سوویت یونین کے خلاف جب امریکا نے گوریلا جنگ شروع کی تھی تو بڑی تعداد میں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیاتھا جس سے یہاں کلاشنکوف کلچر کو تو فروغ ملا ہی‘ ساتھ ہی معیشت پر اضافی بوجھ بھی پڑالیکن واشنگٹن نے پاکستان کی عظیم قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سلامتی اور خودمختاری کے معاملے میں ہمارا ساتھ دینے کے بجائے بھارت اور دیگر پاکستان دشمن عناصر کولاجسٹک سپورٹ فراہم کی۔
پاکستان امریکا کے ساتھ گہرے دوطرفہ اقتصادی تعاون، علاقائی روابط کے فروغ اور امن کے حوالے سے دوطرفہ تعاون پر محیط وسیع البنیاد اور طویل المدتی تعلقات کیلئے پُرعزم ہے لیکن مقامِ افسوس ہے کہ کابل انتظامیہ کے معاملات دگرگوں ہونے کی وجہ سے بھارت کوایک مرتبہ پھر سے افغان سرزمین پر پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنی سازشیں مزید پروان چڑھانے کا موقع مل رہا ہے۔مودی انتظامیہ نے افغانستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے‘ وہ نہیں چاہتی کہ خطے میں امن قائم ہو۔ پاکستان کے خلاف سٹریٹیجک سبقت کھونے کے خوف سے بھارت کا طالبان کے اقتدار سنبھالنے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھانا اس کی بوکھلاہٹ کا واضح ثبوت ہے۔ افغان جنگ کے دوران پاکستان کے 70 ہزار سے زائد شہری شہید جبکہ معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچا۔ لازم ہے کہ ماسکو، بیجنگ، تہران، ترکی اور پاکستان مؤثر سفارتکاری کے ذریعے افغان متحارب گروپوں کو اعتماد میں لیں تاکہ امریکا، بھارت اور ان کے اتحادی ممالک کی سازشوں کو بروقت ناکام بنایا جا سکے۔خطے میں امن اور سیاسی عمل کو تقویت دینے کیلئے وزیر اعظم عمران خان کا ازبکستان اور تاجکستان سے مل کر کام کرنے کا عزم خوش آئند ہے لہٰذا ضروری ہے کہ غنی انتظامیہ سابقہ روایات کو ترک کرتے ہوئے پاکستان کا بھرپور ساتھ دے تاکہ قیام امن کیلئے دی جانے والی قربانیوں کو زائل ہونے سے بچایاجا سکے۔