امریکا کی نئی ڈکٹیشن؟

امریکا کی دوستی ہمیشہ ہم پر بھاری پڑی ہے۔ جب 1989ء کی افغان جنگ میں سوویت یونین کو شکست دیتے ہوئے اسے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا تو اس کے نتیجے میں امریکا دنیا کی واحد سپر پاور رہ گیا تھا اور بدلے میں ہمیں کیا ملا؟ امداد بند کر دی گئی، پابندیاں لگیں، پریسلر ترمیم آگئی ‘ حتیٰ کہ امریکا نے حسبِ روایت احسان فراموشی کی روش پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ایف 16 کی سپلائی بھی روک دی جس کے پیسے واشنگٹن پیشگی وصول کر چکا تھا۔ جب بھی ہمیں امریکا کی ضرورت پیش آئی تو اس نے طوطا چشمی کا مظاہر ہ کیا۔پاک بھارت71ء کی جنگ میں امریکی بحری بیڑہ ہماری مدد کو نہ پہنچ سکا اورانڈیا نے مکتی باہنی کے ذریعے پاکستان کو دولخت کر دیا، بنگلہ دیش وجود میں آگیا۔ یہ وہی امریکا ہے جس کو کل تک افغانستان سے انخلا اور اپنے فوجیوں کی زندگی بچانے کیلئے پاکستان کی مدد چاہیے تھی، افغان سر زمین سے نکلنے کا عمل پورا ہوتے ہی اس نے آنکھیں پھیر لیں اور ڈکٹیشن دینا شرو ع کر دی۔جیسا کہ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ جب تک افغان طالبان بین الاقوامی مطالبات پورے نہیں کرتے‘ انہیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جائے۔یہ امریکی ڈکٹیشن نہیں تو اور کیا ہے؟امریکی وزیر خارجہ کا بیان پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی اور براہِ راست دخل اندازی ہے۔ادھر امریکا کی کانگریس کے اراکین کا بھی پاکستان مخالف رویہ دیکھنے کو ملا جنہوں نے اپنی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان سے سخت رویہ اپنائے۔ کانگرس کی کمیٹی کے اجلاس کے دوران ڈیموکریٹک ارکان بل کیٹنگ اور جوکین کاستر ونے الزام عائد کیا کہ افغانستان میں پاکستان کا کردار دہرا ہے۔ جوکین کاسترو نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ امریکا پاکستان کے 'اہم غیرنیٹو اتحادی‘ کا درجہ ختم کرنے پر غور کرے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے مطابق‘ مستقبل میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بنیاد کیا ہونی چاہیے‘ اس کا ازسر نوجائزہ آنے والے ہفتوں میں لیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہاں امریکا کے نزدیک '' جائزہ‘‘ کے معانی کیا ہیں؟
ہمارا المیہ یہ ہے کہ گزشتہ74 برسوں میں ہم اپنی خود مختاری و پاسداری کو مدنظر رکھ ایک درست خارجہ پالیسی کا تعین نہیں کر سکے۔ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے روس کے دورے کی باضابطہ دعوت ٹھکرا کر امریکا کا دورہ کیا مگر طوطا چشم امریکا نے کبھی برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار نہیں کیے بلکہ وہ کسی بھی موقع پر ڈکٹیشن دینا اپنا حق گردانتا ہے۔درحقیقت امریکا عالمی قوت ہونے کے زعم میں مبتلا ہے اور اسی تناظر میں کسی بھی ملک پر حملہ کر دے،اقتصادی قد غنیں عائد کر دے، این پی ٹی، سی ٹی بی ٹی جیسے ایٹمی عدم پھیلائو معاہدوں کی آڑ میں دوسرے ملکوں کی خودمختاری و آزادی روند ڈالے‘ وہ خود کو کسی ضابطے کا پابند نہیں سمجھتا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پوری دنیا میں طاقت کاتوازن بگاڑنے میں امریکا کا کلیدی کردار ہے۔پاکستان کے ساتھ امریکی کروفر کا سلسلہ بش جونیئر سے شروع ہواجو ڈونلڈ ٹرمپ تک جاری رہا۔ دوسرے لفظوں میں موجودہ صدر بائیڈن کی حکومت میں بھی یہ سلسلہ رکا نہیں۔ بھارت جو 80ء کی دہائی تک امریکا کے خلاف 'سامراج مردہ باد‘ کے نعرے لگاتا رہا وہ یکدم نائن الیون کے بعد امریکی آنکھوں کا تارا بن گیا اور اس پر عنایات اور نوازشات کی جاتی رہیں۔ دوسری جانب امریکا کی نام نہا د دہشت گردی کی جنگ میں لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے والے پاکستان کو خودکش حملوں سمیت تاریخ کی بدترین دہشت گردی کا سامناکرنا پڑا۔ڈرون حملوں سے عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا مگرامریکا کے ڈومور کے تقاضے میں کوئی نرمی یا کوئی لچک نہیں آئی۔ اس کے برعکس بھارت کی سر پرستی کرتے ہوئے اسے خطے کا تھانیدار بنانے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔
امریکا کی تاریخ شاہد ہے کہ اسے ہر وہ حکمران، ہر وہ حکومت نا گوار گزرتے ہیں جو اس کے اشاروں پر ناچنے سے انکار کر دیں اور جنہوں نے اس کا ساتھ دیا ہو‘ ان کے ساتھ وہ ہمیشہ بے وفائی کرتا ہے ۔دراصل ویتنام سے افغانستان تک ذلت و ہزیمت نے امریکا کو کہیں کا نہیں چھوڑا، امریکی عوام اربوں ڈالرز ایک لا حاصل جنگ میں جھونکنے کا حساب مانگ رہے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکا اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے آئندہ کسی بھی ملک میں مداخلت سے توبہ کرتا لیکن وہ اپنی غلطیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے اور ایک بار پھر سے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کے اشارے مل رہے ہیں؛ چنانچہ ہمیں اب اپنے بہترین قومی مفادات اور ملکی سلامتی کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر افغانستان کے ساتھ تعلقات کا سوچنا اور اپنی قومی خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین کرنا ہے۔ کیونکہ افغانستان میں طالبان کا غلبہ ہونے کے بعد خطے کی تبدیل ہوتی صورتحال کے تناظر میں چین‘ روس‘ ایران اور ترکی کی نگاہیں پاکستان پر مرکوز ہیں جو افغانستان میں امن کی بحالی کے حوالے سے پاکستان کے کردار کے معترف بھی ہیں اور اس معاملے میں پاکستان کے ساتھ تعاون پر آمادہ بھی۔
غالباً ابھی تک امریکا نائن الیون سے باہر ہی نہیں آسکا، بعض رپورٹس کے مطابق‘ نائن الیون کے بعد امریکی حملوں میں ایک ملین سے زائد افراد کی جانیں گئیں لیکن انہیں یاد نہیں کیا جاتا کیونکہ مرنے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ مسلم امہ نے نائن الیون کی جو قیمت چکائی ہے اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔عراق اور افغانستان پر حملے، مغربی ممالک میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کے واقعات، بھارت میں ماب لینچنگ (mob lynching)، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں دہشت گردی، قید و بند اور صعوبتوں کا تاریک دور، گوانتا نامو اور ابو غریب جیسے بدنام زمانہ عقوبت خانے‘ جن کی جھلکیاں ہی سارے عالم کو حیرت میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ 'کروسیڈ‘ (مذہبی جنگ کے لیے استعمال ہونے والا لفظ) ہے اور اس میں یا تو آپ ہمارے دوست ہیں یا دشمن۔ انہوں نے نائن الیون کے واقعے کے لیے اسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم القاعدہ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے افغانستان میں جنگ کا اعلان کر دیا۔ حالانکہ اب 20 سال کی جنگ کے بعد بھی‘ افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے اسامہ بن لادن کے نائن الیون کے حملوں میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ اس جنگ کی کوئی منطق نہیں تھی، اسے امریکیوں کی طرف سے بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ بعض سنجیدہ حلقوں کی جانب سے ایک اِن سائیڈ جاب قرار دیا جاتا ہے یعنی امریکی اشرافیہ کا تیار کردہ منصوبہ یا سازش۔''زیٹ گیسٹ‘‘ نامی ایک ڈاکیومنٹری میں تمام تر دستاویزات کو یکجا کیا گیا ہے کہ کس طرح اس سازش کو من گھڑت طریقے سے دہشت گردی سے جوڑا گیا۔ ترکی کے انسدادِ دہشت گردی کے سابق سربراہ محمد ایمور (Mehmet Eymür) کا اپنی کتاب 'ڈسائفر‘ میں کہناہے کہ انہیں ٹوئن ٹاور پر طیاروں کے حملوں کا علم واقعے سے 40 دن قبل ہی ہو گیا تھا۔ انہوں نے اس کی اطلاع سی آئی اے کو بھی دی تھی؛ تاہم سی آئی اے حکام نے اس اطلاع کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔2003 ء میں امریکا نے یہ کہہ کر عراق پر حملہ کیا تھا کہ اس کے پاس 'تباہی پھیلانے والے ہتھیار‘ موجود ہیں مگر بعد میں جب یہ بات ثابت نہیں ہو پائی توجارج ڈبلیو بش نے کہا ''صدام حسین کے بغیر دنیا زیادہ محفوظ ہوگی‘‘ اور یوں پوری دنیا کو ایک نئی جنگ میں دھکیل دیا گیا جس کا نتیجہ پوری عرب دنیا آج تک بھگت رہی ہے۔ تو پھر کیا یہ تسلیم کر لیا جائے کہ امریکا اپنے معمولی سیاسی و سفارتی فوائد کیلئے سازشیں کرتا ہے اور اس میں دوسرے ملکوں، مذہبی اور ثقافتی گروپوں کو پھنساکر طویل مدتی سیاست کرتا ہے؟ تاریخ تو یہی بتاتی ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان کی حکومت بننے کے بعد آج بھارت عالمی تنہائی کا شکار ہے جبکہ چین کی کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنے کیلئے امریکا‘ برطانیہ اور آسٹریلیا کو ساتھ ملا کر فوجی تعاون کا ایک نیا اتحاد ''اوکس‘‘ کے نام سے قائم کر چکا ہے جو آسٹریلیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس جدید ترین جوہری آبدوزیں فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؛ چنانچہ اس تناظر میں ہمیں نئے امریکی ' ٹریپ ‘میں آنے سے بچنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں