مہنگائی‘ معاشی بحران اور ’’ریلیف پیکیج‘‘

حکومت کی طرف سے اربوں روپے کے ریلیف پیکیجز کی فراہمی کے باوجودملکی حالات کاروز بروز دگر گوں ہونا لمحۂ فکریہ سے کم نہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ مسلسل بڑھنے سے آئے روز مہنگائی کا نیا طوفان عوام کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ گراں فروش مافیا جہاںمتعلقہ محکموںکی روایتی سستی کا فائدہ اٹھا کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے‘ وہیں ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہ ہونے سے اشیائے خور و نوش کا سستے داموں حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکا ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیز گرانفروشوں اور منافع خوروں کے سامنے مکمل بے بس ہیں جبکہ ضلعی انتظامیہ کا کردار بھی نہ ہونے کے برابر ہے، لہٰذا ایسی کٹھن صورتحال میں وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے مہنگائی اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیشِ نظر 120 ارب روپے کا ریلیف پیکیج کا اعلان کیاگیا۔ انہوں نے قومی خسارے کا نوحہ سنا کر‘ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام پر پٹرولیم نرخ مزید بڑھانے کا عندیہ دے کر اس ریلیف پیکیج کو 'تکلیف پیکیج ‘میں بدل دیا۔ حکومت کی جانب سے پٹرول بم چلا کر عوام سے ایڑیاں رگڑ کر زندہ رہنے کی سکت بھی چھین لی گئی۔ وزیراعظم نے اس موقع پر دوبارہ یہ باور کرایا کہ ہم اپنے عوام کو خطے میں سب سے سستا پٹرول مہیا کر رہے ہیں‘ بھارت اور بنگلہ دیش میں تیل کے نرخ بتدریج اڑھائی سو اور دو سو روپے فی لیٹر ہیں۔ ان کے بقول‘ دو خاندانوں کی وجہ سے ہمارا ملک بنگلہ دیش سے بھی پیچھے چلا گیا‘ عوام پانچ سال بعد ہماری کارکردگی دیکھ کر فیصلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کا مسئلہ ساری دنیا میں ہے‘ ہم کوئی انوکھے نہیں۔ وزیراعظم کے بقول‘ ا ن کی حکومت غریب عوام کا بوجھ کم کرنے کی خاطر اس وقت 450 ارب روپے کا خسارہ برداشت کررہی ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے وزرا کے بقول بجلی، پٹرول و گیس وغیرہ کے نرخ بڑھانے کا جواز یہ ہے کہ ہمسایہ ملکوں کے مقابلے میں یہاں اب بھی قیمتیں بہت کم ہیں حالانکہ برطانوی جریدے اکانومسٹ نے اپنی یہ تحقیق پیش کی ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 9 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ بھارت میں 5.3 فیصد اور بنگلہ دیش میں 5.6 فیصد ہے۔ بھارت میں فی کس سالانہ آمدنی 2191 ڈالر، بنگلہ دیش میں 2554 ڈالر ہے‘ اس کے مقابلے میں پاکستان میں فی کس سالانہ آمدنی کم ہو تے ہوئے 1194 ڈالر رہ گئی ہے۔ دنیا کے تقریباً دو سو ممالک میں مہنگائی کے اعتبار سے پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ اس سے یہ منطق بھی غلط ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان میں مہنگائی دنیا میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا نتیجہ ہے۔ حکومت کو اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام کیلئے پیدا ہونے والے بیروزگاری‘ غربت اور مہنگائی جیسے گمبھیر مسائل کا بہرصورت ادراک ہونا چاہیے اور عوام کو حقیقی ریلیف دینے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا چاہئیں‘ بصورت دیگر آنے والا انتخابی معرکہ حکمران جماعت کو بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔
تحریک انصاف نے 2018ء کے انتخابات سے قبل ریلیف فراہم کرنے کے سہانے خواب دکھائے تھے اورکرپٹ عناصر کو کٹہرے میں لاکر پائی پائی وصول کرنے کا جو نعرہ لگایا گیا تھا‘ اس پرخاطر خواہ عملدرآمدنہ ہونے سے عوام کے اعتماد کوشدید ٹھیس پہنچی ہے۔ افسوس وزیراعظم اور کابینہ ارکان کے بیانات میں کہیں اس ناکامی کا اعتراف دکھائی نہیں دیتا بلکہ وہ یا تو مسائل کا سارا ملبہ سابقہ حکمرانوں پر ڈال دیتے ہیں یا کورونا کو مہنگائی، بیروزگاری اور ایسے ہی دیگر مسائل کا ذمہ دار قرار دے دیتے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں اگر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کا ہمارے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تو شاید قیمتوں میں اضافے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ موجودہ کسمپرسی کے حالات میں آئی ایم ایف کی قبول کی گئی شرائط کے تحت پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں بتدریج اضافہ عوام کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے‘ ایسے میں حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں پر نظرثانی کرکے عوام کو غربت، مہنگائی اوربیروزگاری کے عفریت سے نکالنے کیلئے کوئی ٹھوس لائحۂ عمل مرتب کرنا ہو گا کیونکہ اگریونہی بیرونی ڈکٹیشن پر تیل، گیس، بجلی، ادویات اور اشیائے خودرنی کے نرخ بڑھاکرعوام کو نئے ٹیکسوںکے بوجھ تلے دبایا جاتا رہا تو اپوزیشن کو حکومت مخالف تحریک چلانے کا بھرپور موقع میسر آئے گا جس کیلئے دوبارہ صف بندی شروع ہو چکی ہے۔ یہ موقع حکومت اپوزیشن کو خود فراہم کر رہی ہے۔ دوسری جانب حزبِ اختلاف کے رہنما‘ حکومت کی طرح‘ صرف زبانی جمع خرچ پر ساری توانائیاں لگا رہے ہیں۔ اگر ان لوگوں کو واقعی عوام کا احساس ہوتا تو یہ تین سال تک خاموشی سے نہ بیٹھے رہتے۔ اگر حزبِ اختلاف عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے واقعی سنجیدہ ہو تو ایک بھرپور عوامی تحریک کے ذریعے حکومت کو اس بات کا احساس دلایا جاسکتا ہے کہ مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل کو فوری حل کیے بغیر حکومت نہیں چل سکتی۔ یہاں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن کے کیسز میں ملوث ملزمان‘ چاہے وہ کوئی بھی ہوں‘ کی میڈیا پر پابندی کیلئے موثر قانون سازی کی جائے۔ اس حوالے سے معاشرے میں ایک فکری انقلاب کی بھی اشد ضرورت ہے۔ درحقیقت عام آدمی کی بنیادی ضروریات کو مسلسل نظر انداز کرنے کا نتیجہ آج بدترین بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں اور غلط فیصلوں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے تو پھر یہاں پیدا ہونے والی اشیا کیوں مہنگی ہیں؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری کورونا کی وبا نے دنیا بھر کی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں‘ ہماری معیشت کو بھی یقینا اس نے بری طرح جھنجھوڑا ہے مگر وزیراعظم کے بقول‘ دوست ممالک سعودی عرب اور چین نے مختلف بیل آئوٹ پیکیجز کے ذریعے پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دیا ہے‘ اس تناظر میں حکومت کیلئے عوام کو مہنگائی میں ریلیف فراہم کرنے کیلئے کسی دقت کا سامنا نہیں ہونا چاہیے تھا؛ چنانچہ اس صورتحال میں عوام کیلئے کسی چور‘ ڈاکو نہ چھوڑنے کے حکومتی نعرے میں کوئی کشش نہیں رہے گی اور وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سڑکوں پر آکر احتجاج پر مجبور ہوں گے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ملک کے ہر شعبے اورہر ادارے میں کرپشن اور اقربا پروری ''اوپر سے نیچے‘‘ اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا ادارہ ہو جو سیاسی جماعتوں کے مفادات کیلئے استعمال نہ کیا گیا ہو۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اہم قومی اداروں کو معاشی زبوں حالی کا شکارکرنے کیلئے سیاسی‘ سفارشی مفادات اور رشوت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ چشمِ فلک نے ماضی میں ایسے واقعات بھی دیکھے کہ سر شرم سے جھک گئے‘ مثال کے طور پرپاناماسکینڈل منظرِ عام پر آیا تو ہمارے حکمرانوں کو عالمی میڈیا نے بحری قذاقوں سے تشبیہ دی۔ اس عالمی سکینڈل میں سیاسی رہنماؤں کے علاوہ فنکار، کھلاڑی اوردیگر بہت سے لوگوں کا بھی ذکر سامنے آیا جنہوں نے ٹیکس بچانے کیلئے آف شور کمپنیاں بنا ئیں۔ ہماری سیاسی اشرافیہ اور دیگر نے ٹیکس سے بچنے کیلئے ایسے ایسے مضحکہ خیز حربے استعمال کئے کہ بطورِ قوم ہمیں شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہی قرضہ لینے کی ضرورت پیش آ گئی تھی۔ بیرونی قرضوں کے لحاظ سے ملکی تاریخ کو 8 ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جس سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح سابقہ حکمرانوں نے اپنی عیاشیوں کیلئے وطن عزیز کو مقروض کیا۔ بھٹو کے تباہ کن 'جمہوری‘ دور میں پاکستان نے پہلی بار بڑے قرضے لینا شروع کیے اوریہ سلسلہ آصف زرداری اور نواز شریف کی جمہوری حکومت میں اپنے عروج پر پہنچا، بظاہر ہمیں ایسے کوئی منصوبے نظر نہیں آتے جہاں یہ رقم خرچ کی گئی ہو۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو جمہوری حکومتوں کیلئے گئے قرضوں کا محض سود ہی آمرانہ ادوار کے کل لیے گئے قرضوں سے زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ 10 برس کے دوران ٹیکس کی شرح کا کم ہونا، زرمبادلہ کے ذخائر کا ہمیشہ نازک سطح اور سرکاری اداروں کا مسلسل نقصان میں رہنا معاشی بدحالی کے ذمہ دار عوامل ہیں۔ ان کو ٹھیک کیے بغیر معیشت درست ڈگر پر گامزن نہیں ہو سکے گی؛ چنانچہ حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں پر نظرثانی کرکے عوام کو غربت، مہنگائی اوربیروزگاری کے عفریت سے نکالنے کیلئے کوئی ٹھوس لائحۂ عمل مرتب کرنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں