قرضوں کا جال ملکی سلامتی پر کاری ضرب

2014ء میں موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر جو خوشنما اور دلفریب وعدے کیے تھے‘ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے مگر پی ٹی آئی نے بھی اقتدار میں آنے کے بعد گزشتہ حکومتوں کی طرح قرضوں کا ہی سہارا لیا۔ اس معاملے پر یوٹرن لیا اور جس طرح آئی ایم ایف کے احکامات کو من و عن تسلیم کیا گیا‘ پچھلی تمام حکومتوں کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس سے وطن عزیز کی خوشحالی و ترقی کے بجائے معاشی تنزلی کی رفتار تیز ہوئی ہے۔ ایسے میں ہر پاکستانی یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ تبدیلی اور فلاحی ریاست کے نام پر عوام سے جھوٹے وعدے کیوں کیے گئے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اور کیا موجودہ حکومتی ٹیم معیشت چلانے کی صلاحیت سے عاری ہے؟ حکومتی ناقص معاشی پالیسیوں کی سزا عوام کوبھگتنا پڑ رہی ہے۔
گزشتہ دنوں مشیرِ خزانہ شوکت ترین کا آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پانے اور تمام شرائط کو تسلیم کرنے کا فخریہ انداز میں اعلان سامنے آیا۔ 350 ارب روپے کے سیلز ٹیکس کی چھو ٹ سمیت پٹرول، بجلی اور گیس کی مد میں سبسڈی کے خاتمے کے عوض آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو ایک ارب 5 کروڑ90 لاکھ ڈالر قرض کی اگلی قسط جاری کر دی جائے گی۔ ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر معاہدے کی بنیاد پر صرف دو ارب ڈالر ہی مل پائے ہیں اور قرض کی تیسری قسط کی ادائیگی کیلئے نئی عائد کر دہ شرائط کی بنیاد پر عوام پر مزید مہنگائی مسلط کردی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں ہڑتال کی وجہ سے پٹرول کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت ہوتا رہا۔ چینی 155 روپے کلو تک جا پہنچی ہے۔ آٹے کا بحران پیدا کرکے مہنگائی کی چکی میں پستے ہوئے عوام سے اربوں لوٹ لئے گئے۔ حکومت بتائے کہ عام آدمی جائے تو کہاں جائے؟ ستم در ستم‘ حکومت ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ضمنی بجٹ لانے کی تیاریاں کر چکی ہے اور پہلے سے بدحال‘ مفلسی کی ماری قوم کو زندہ درگور کر دینے کا عندیہ دیا جا چکا ہے۔ مذکورہ معاہدے کا سیدھا سادہ اور واضح مطلب یہی ہے کہ ہم نے اپنی خود مختاری، سالمیت، اپنی خودی اور قومی آزادی کا سودا کرتے ہوئے وطن عزیز کو عالمی ساہوکا روں کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ اب ہماری پارلیمنٹ میں قانون سازی بھی آئی ایم ایف کی ہدایت پر ہوگی اور بجٹ سمیت معاشی پالیسیوں میں ردوبدل کی منظوری‘ نامنظوری کا دارومدار بھی اسی ادارے کی منشا کے مطابق ہوگا؛ چنانچہ حاکمِ وقت سے سوال تو بنتا ہے کہ پھر ہم کہاں کے آزاد ہیں؟
پاکستان نے پہلی بار 1958 ء میں آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلایا‘ جب ایک ڈالر تین روپے کا تھا۔ تب سے لے کر اب تک پاکستان 22 بار آئی ایم ایف سے قرضہ لے چکا ہے ۔ 1965 ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد‘ جب بیرونی امداد بند ہوئی تب ڈالر7 روپے کا ہو گیا مگر اس وقت بھی پاکستان کے مالی حالات بہترتھے اور قرض کی ادائیگی ہو سکتی تھی۔ ایوب خان کے زمانے میں ہر پاکستانی پر صرف60 روپے کا قرض تھا۔ آج ہمارا ہر شہری‘ یہاں تک کہ نوزائیدہ بچہ بھی‘ ایک لاکھ 82 ہزار روپے سے زائد کامقروض ہو چکاہے۔ لیگی حکومت کے دور میں قرضوں کے بوجھ میں 15 ہزار 561 ارب روپے کا اضافہ ہوا، پیپلزپارٹی کے 5 سالہ دور میں قرضوں میں 8 ہزار 200 ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ مشرف کے 9 سالہ دور میں قرضوں میں 3 ہزار 200 ارب روپے کااضافہ ہوا۔ تحریک انصاف کی حکومت جولائی 2018ء سے 2021ء تک‘ قرضوں کی ادائیگی اور معاشی ترقی کے نام پر 33 ارب ڈالر قرض لے چکی ہے جس سے شرحِ نمو کم ہونے اور ملک کے دیوالیہ ہونے کے امکانات بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کی رپورٹ کے مطابق 2024 ء تک ملک کا مجموعی اندرونی اور بیرونی قرض 45 ہزار 573 ارب روپے ہو جائے گا۔ حکومت اس وقت لگ بھگ 40 ہزار ارب روپے کی قرض دار ہے جن کی ادائیگیاں مزید قرضے لے کر کرنا پڑتی ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں 11 ہزار ارب روپے کا اضافہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سے اربوں ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج ملے‘ جن کی بنیاد پر معاشی ترقی کے بلند بانگ دعوے بھی کیے گئے۔ آئی ایم ایف کے قرضے کے باوجود بقول وزیراعظم‘ ملک چلانے کے لیے پیسہ نہیں ہے۔ جب کورونا جیسی مشکل گھڑی میں سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات نے ہمارے ساتھ بے لوث دوستی کا حق ادا کیا، مجموعی طور پر 12 ارب ڈالر کے قریب بیل آئوٹ پیکیجز کے ذریعے ہماری معیشت کو سنبھالنے کیلئے معاونت فراہم کی‘ پھرہمیں خود غرض مغرب اور اس کے زیر اثر عالمی مالیاتی اداروں پر تکیہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
کوئی نہیں جانتا کہ گزشتہ 74 برسوں میں لیا گیا کھربوں ڈالر کا قرضہ کہاں گیا؟ کہاں خرچ ہوا اور ہو رہا ہے ؟مقروض ملکوں میں ان قرضوں کی مدد سے من پسند حکومتیں بھی بنائی جاتی ہیں اور ان قرضوں کے عوض ایسی اقتصادی پالیسیاں بھی بنائی اور چلائی جاتی ہیں جن سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو۔ لمحۂ فکریہ تو یہ ہے عالمی استعماری و طاغوتی قوتوں کا اصل ہدف ہماری ایٹمی صلاحیت ہے۔ موجودہ خوفناک حالات اس طرف اشارے دے رہے ہیں کہ لوگوں کو روٹی کے چکر میں اس قدر پھنسا دیا جائے گا کہ باقی تمام معاملات ان کی ترجیحات سے نکل جائیں گے۔ اللہ یہ وقت نہ لائے! البتہ یہ حقیقت ہے کہ ہم باضابطہ طور پر آئی ایم ایف کی غلامی میں آ چکے ہیں۔ ہمیں ظالمانہ قرضوں کے جال میں جکڑ کر نہ صرف یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ہمارے قرضے مع سود واپس کرو بلکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تمہاری روٹی اور روزگار کا فیصلہ ہم کریں گے؛ چنانچہ آئی ایم ایف کے حکم پر گیس، بجلی اور آٹے پر غریبوں کے لیے رعایت ختم، کرنسی کی قیمت کم کی جا رہی ہے، علاوہ ازیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اپنے تمام ذرائع اور وسائل کثیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کر دو۔ پہلے مرحلے میں دفاعی بجٹ و اخراجات میں کٹوتی ہو گی جو پہلے ہی حکومت نے بڑھنے نہیں دیے‘ پھرہمارے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کیوں ہم بلیک میلر کی بلیک میلنگ کا جواب نہیں دیتے؟ ہمارے سامنے ایک راستہ تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور امریکا کے سامنے مکمل سرنڈر کی راہ اپنا لیں، ایٹمی صلاحیت ختم کرنے پر رضا مند ہو جائیں، اپنی خارجہ پالیسی امریکہ کے تابع کر لیں لیکن یہ سب کچھ کرکے بھی ہماری اقتصادی حالت بہتر ہو سکے گی یا قرضے معاف کر دیے جائیں گے‘ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں اور یہ راستہ اختیار کرنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے عقیدے، نظریے اور آزادی سے محروم ہونا قبول ہے۔ دوسرا آبرو مندانہ آپشن یہ ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کا تعین کریں اور ملک کو قرضوں کے دلدل سے نجات دلائیں۔ ہمارا سب سے زیادہ خرچ تیل و گیس پر ہوتا ہے۔ ہم ایران اور وسطی ایشیا سے سستا فیول لے سکتے ہیں‘ درآمدات کو گھٹا اور برآمدات کو بڑھا کر تجارتی خسارے کو نفع میں بدل سکتے ہیں، حکومتی اور غیرپیداواری اخراجات کو کم سے کم کرکے حکومتی خزانے کی بچت کی جا سکتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ لاطینی امریکا کے16 ممالک ڈیفالٹ ہو چکے ہیں۔ ارجنٹائن اس کی بڑی مثال ہے جس کے بعد اس کی معیشت میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے۔ پاکستان اپنے ذمہ واجب الادا قرضے واپس نہ کرنے کی وجہ سے ایک ایسی دلدل میں پھنس چکا ہے جس سے نکلنے کی تدبیر نہ کی گئی تو خدانخواستہ ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔
افغانستان میں امریکی ہزیمت اور خطے میں چین کے بڑھتے اثرورسوخ نے بھارت، اسرائیل و امریکا کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ چینی بالادستی واشنگٹن کیلئے سوہانِ روح بن چکی ہے ایسی صورت میں پاکستان پر دبائو ڈالنے کی پالیسی پر عملدرآمد کیلئے آئی ایم ایف ہی کارگر ہتھیار ہے؛ چنانچہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے‘ ایک منصوبہ بند حکمت عملی پاکستان کو افریقہ جیسی حالت سے دوچار ہونے سے روک سکتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں