افغان بحران پر او آئی سی اجلاس کا مستحسن اقدام

41سال بعد پاکستان کی میزبانی میں 57 مسلم ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس یقینا ایک احسن اقدام ہے اور اس حوالے سے پاکستانی قوم مبارکباد کی مستحق ہے کہ پاکستان نے مجبور و بے بس بھوک و افلاس کے شکار افغان بھائیوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مسلم امہ کو افغانستان کے سنگین انسانی المیے اور بحران پر ایک پلیٹ فارم پر متحدکر تے ہوئے بھائی چارے کا حق ادا کر دیا۔ دراصل او آئی سی وزرائے اعلیٰ کا 17واں اجلاس افغانستان میں امن و استحکام کے فروغ کیلئے پاکستان کی دائمی وابستگی و عزم کا مظہر ہے۔ قبل ازیں 1980ء میں وزرائے خارجہ کونسل اسلام آباد میں پہلا غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا تھا‘ اس میں بھی افغانستان کی صورتحال پر غور ہوا تھا۔ اس سے قبل2007ء میں پاکستان نے وزرائے خارجہ کونسل کے آخری اجلاس کی میزبانی کی تھی۔ سعودی عرب کی تجویز پر طلب کیے گئے اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے اجلاس میں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی، او آئی سی کے سیکرٹری جنرل، اقوام متحدہ، یورپی یونین، عالمی مالیاتی اداروں، علاقائی و بین الاقوامی تنظیموں، جاپان، جرمنی اور دیگر نان او آئی سی ممالک کے نمائندوںنے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان میں خواتین اور بچوں سمیت عوام کومشکلات کا سامنا ہے لہٰذا ان کٹھن حالات میں معاشی و انسانی بحران پر قابو پانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہوئے سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہو گاجس کیلئے ایک ایسا گروپ تشکیل دیا جائے جودرپیش مالی چیلنجز اور بینکاری نظام کی عدم موجودگی کا حل تلاش کر سکے۔ اجلاس سے پہلے 46 امریکی سینیٹرز کا افغانستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے سبد باب کیلئے صدر بائیڈن کو مراسلہ بھیجنا بھی بڑی کامیابی ہے۔ اس سے قبل 4 امریکی سینیٹرز کا پاکستان کے دورے پر آنا اور اعلیٰ حکام سے ملاقات کرنے کا مقصد پاکستان کی ترجیحات کا جائزہ لینا تھا۔
در حقیقت نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں افغانستان کی تباہی اور بھارتی ایما پر سابق افغان حکومت کے امن مذاکرات سے راہ فرارنے پُرتشد کارروائیوں اور معاشی و انسانی بحران کو جنم دیا۔ امریکا نے20 برس کے دوران کھربوں ڈالرز جھونک دیے‘ 3 لاکھ سے زائد افغان فورسز کو تربیت دے کر مسلح کرنے کے باوجود وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا۔ دریں اثنا طالبان کے روز بروز بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ اور بدامنی سے متعلق جہاں مغرب کے خدشات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں‘وہیں واشنگٹن بھی تاحال اسی کوشش میں مصروف ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت کا قیام ہو جو اس کے اشاروں پر چلے۔
بی جے پی انتظامیہ‘ جس نے افغانستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی‘ آج بھی نہیں چاہتی کہ خطے میں امن قائم ہو۔ پاکستان کے خلاف سٹریٹیجک سبقت کھونے کے خوف سے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھانا اس کی بوکھلاہٹ کا واضح ثبوت ہے۔ اظہرمن الشمس ہے کہ افغانستان سے بدترین شکست اور بوریا بستر لپیٹنے کے بعد امریکا خطے میں تنہا ہو کر رہ گیا ہے اور وسطی ایشیا میں بھی چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے اسے حواس باختہ کر دیا ہے‘ اس لیے جنوبی ایشیا میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کیلئے عرب ممالک کی آڑ میں او آئی سی کا اجلاس طلب کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگرچہ سعودی عرب کی جانب سے افغانستان کیلئے ایک ارب ریال فنڈ کا علان خوش آئند ہے لیکن یہ امر بھی حیران کن ہے جہاں ایک ڈالر امداد کرنے کی پاداش میںبلیک لسٹ کر دیے جانے کا خدشہ ہو' وہاں اگر امریکی اشیر باد حاصل نہ ہوتی تو یہ کیسے ممکن تھا ؟ دوسری جانب جن عرب ممالک نے کبھی پاکستان سے کوئی رابطہ نہیں رکھا‘ ان کی بھی اس کانفرنس میں شمولیت اچنبھے کی بات ہے، ایران اور سعودی عرب کی مشترکہ شرکت خوش گوارپیشرفت ہے لہٰذاحالیہ او آئی سی اجلاس میں امریکی کلیدی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مذکورہ اجلاس میں منظور کی گئی قرراداد میں مخلوط حکومت کے قیام کی باز گشت بھی سنائی دی جو میری نظر میں کسی طرح بھی افغانستان کیلئے سود مند ثابت نہیں ہو گی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ طالبان پہلے کی نسبت بہت بہتر اور مفاہمانہ انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں‘ کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ افغانستان فتح ہو گیا لیکن خانہ جنگی کے آثار کہیں بھی نظر نہیں آئے اور کابل ایک بھی گو لی چلائے بغیر فتح ہو گیا۔
پاکستان کی میزبانی میں او آئی سی ممالک نے افغانستان کی صورتحال پر غور و فکر کرکے عملی اقدامات کی راہ وضع کرتے ہوئے مستحسن اقدام کیا اور حقیقت پسندی کا علمی ثبوت دیا ہے لیکن دوسری جانب عالمی قوتیں مسلسل ان حقائق سے پہلوتہی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ اگر آج دنیا نے افغانستان کا ساتھ نہ دیا تو یہاں دہشت گردی اور شدت پسندی کو فروغ ملے گا جس سے امریکا سمیت مغربی ممالک محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔ یورپی ممالک سمیت امریکا اور اس کے اتحادیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ افغانوں کو دیوار سے لگانے کی سازش خود ان کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ ستم بالائے ستم امریکا نے افغانستان کے 9بلین ڈالر کے اثاثے ضبط کر رکھے ہیں۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف نے بھی امداد روک رکھی ہے، وہاں کی معیشت شدید مشکلات کی زد میں ہے۔ ایک طرف مغرب نے واویلا مچا رکھا ہے کہ خواتین کے تعلیمی ادارے کھولے جائیں تو دوسری جانب اساتذہ سمیت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے افغانستان کے بلینز آف ڈالرز منجمد کر رکھے ہیں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر امریکا کی جانب سے پیش کی گئی ایک قرارداد منظور کی ہے جس کے تحت افغانستان کیلئے انسانی امداد کی سہولت فراہم کی جا سکے گی اور فنڈز کی ادائیگی اور دیگر مالیاتی اثاثوں یا اقتصادی وسائل اور امداد کی بروقت فراہمی کو یقینی بنانے یا ضروری سامان اور خدمات کی بھی اجازت ہوگی۔ اس تناظر میں امید کی جا سکتی ہے کہ امریکا افغانستان کی ترقی اور امن کی بحالی کو سنجیدگی سے لے گا اور افغانستان کے منجمد کیے گئے اکائونٹس اور اثاثے بحال کر دے گا جس سے نہ صرف افغانستان کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو جائے گی بلکہ سنگین انسانی بحران کا خطرہ بھی ٹل جائے گا۔ افغانستان کو تاراج کرنے کے فوری بعدہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دی جاتی تو شدید جانی و مالی نقصان سے بچنے کے ساتھ ساتھ آج یہ دن بھی دیکھنے نہ پڑتے۔ او آئی سی اجلاس کے بعد‘ گزشتہ دنوں میری افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیر منصور احمد خان سے ملاقات ہوئی جس میں افغان امور پر گفت و شنید ہوئی۔ منصور احمد خان افغانستان میں وطن عزیز کا امیج مزید بہتر بنانے میں انتھک محنت کر رہے ہیں۔
امریکا کی یہ خواہش تھی کہ بھارت کو استعمال کرکے جنوبی ایشیا میں اپنی اجارہ داری قائم کی جائے تاکہ چین کی عالمی افق پر بڑھتی ہوئی مقبولیت کے آگے ایک مضبوط دیوار کھڑی کی جا سکے۔ ''ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور بھی لگا یاگیایہی وجہ ہے کہ پاکستان کیلئے سی پیک منصوبہ بھی ناگزیر حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ چین علاقے کی ایک بڑی قوت ہونے کے ناتے جرمنی اور اٹلی کی امریکا سے بڑھتی ہوئی دوریوں سے فائدہ اٹھائے اور ان دونوں یورپی ملکوں کے ساتھ مل کر افغانستان پرکوآرڈی نیشن گروپ قائم کرے ۔ اٹلی اور جرمنی امریکی پالیسیوں سے منحرف ہو چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ جرمنی کا سفارت خانہ باقاعدہ طور پر افغانستان میں کام کر رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان ایک خودمختار و آزاد خارجہ پالیسی کا ازسر نو تعین کرے۔ بلاشبہ اسلامی تعاون تنظیم امت مسلمہ کی اجتماعی آواز ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ او آئی سی کے تحت مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کے حق میں بھی قراردادیں منظور کی جاتیں کیونکہ نہ صرف افغانستان بلکہ کشمیر میں بھی امن و انصاف کا قیام خطے کے پائیدار امن و استحکام کیلئے ناگزیر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں