قازقستان میں بدامنی اور ہم

وسطی ایشیا کی ریاست قازقستان میں حکومت کی جانب سے گیس و تیل کے نرخ بڑھا نے پر ہنگامے پھوٹ پڑے اور ان حکومتی اقدامات نے عوام کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا۔ وہاں ٹرانسپورٹ کے نظام کا دارومدارزیادہ تر ایل پی جی پر ہے۔ عوام کا غصہ اس وقت بھڑک اٹھا جب حکومت نے مائع پٹرولیم گیس کے لیے قیمتوں کی حدیں ختم کردیں۔ حکومت کے اعدادوشمارکے مطابق قازقستان میں اوسط تنخواہ 570 ڈالرماہانہ کے لگ بھگ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ بہت کم کماتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے پر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ سڑکوں پر آگئے۔ مظاہرین نے صدارتی محل بھی نذرِ آتش کر دیا۔2019ء میں بھی حکومت مخالف تحریک اٹھی تھی۔ دراصل قازقستان کے عوام چہرے کی تبدیلی کے لیے نہیں‘ نظام کی تبدیلی کیلئے باہر نکلے ہیں۔ اس وقت تک پُرتشدد مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 164ہو چکی ہے جن میں پولیس اہلکاروں کی بھی بڑی تعداد شامل ہیں جبکہ ہزاروں زخمی ہیں اور تین ہزار سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ قازق صدر نے وزیراعظم سے استعفیٰ لیتے ہوئے کابینہ کو تحلیل کر دیا ہے جبکہ فوج کو مظاہرین پر گولی چلانے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ مظاہرین کے مطابق صدر نے کابینہ کو چلتا کرکے اپنا عہدہ بچایا ہے جبکہ مسائل کی اصل جڑ وہ خود ہیں۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے قازق صدر قاسم جومارت توقایف کے نام ایک پیغام میں کہا ہے کہ چین بیرونی طاقتوں کی طرف سے قازقستان میں بدامنی پھیلانے اور ''رنگین انقلاب‘‘ کو بھڑکانے کے ساتھ ساتھ چین اور قازقستان کی دوستی کو نقصان پہنچانے اور دونوں ممالک کے تعاون میں خلل ڈالنے کی کسی بھی کوشش کو سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فریقین سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک میں غیر مستحکم صورتحال پر قابو پانے کیلئے تشدد سے گریز کریں اور صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے مذاکرات کو فروغ دیں۔ سربراہ یورپی یونین کمیشن نے بھی تشدد کے خاتمے اور تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا ہے۔ قازقستان کی حالیہ بگڑتی ہوئی نازک صورتحال سے ہماری اشرافیہ کو بھی عبرت حاصل کرنا چاہیے۔ اگر چہ یہ تسلیم شدہ ہے کہ وطن عزیز کی معاشی حالت دگرگوں ہے مگر اس کے نتیجے میں مہنگائی، منی بجٹ اور آئے روز پٹرولیم مصنوعات میں ہوشربا اضافے سے وہ قت دور نہیں جب یہاں بھی عام آدمی اپنے حقوق کی خاطر سڑکوں اور چوراہوں پر احتجاج کرتا نظر آئے گا۔ مجھے یہ خدشہ ہے کہ یہاں بھی لوگوں پر بلاجواز مہنگائی لاد کر عوامی طوفان کو تو دعوت نہیں دی جارہی ہے۔ خدارا!پاکستانی عوام کو دیوار کے ساتھ نہ لگا یاجائے۔ وگرنہ
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سے عناصر ہیں جو قومی اداروں کے خلاف نفرت بڑھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پوسٹوں، خبروں، وڈیوز کے وائرل ہونے سے اداروں کی ساکھ کو داغ دار کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں میمو گیٹ سکینڈل بھی اسی کا شاخسانہ تھا جس کے ذریعے غیر ملکی فوجوں کو ملکی معاملات میں مداخلت کا دعوت دی گئی تھی لہٰذا پورے معاشرے میں موجود کالی بھیڑوں کا احتساب نا گزیر ہو چکا ہے۔
قازقستان تاریخی طور پر خانہ بدوشوں کا ملک رہا ہے۔ سولہویں صدی تک یہاں کے لوگ تین بڑے قبیلوں کی صورت میں منظم ہو چکے تھے۔ اٹھارہویں صدی میں روسیوں نے قازقستان پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں انیسویں صدی کے وسط تک پورا قازقستان سلطنتِ روس کا حصہ بن چکا تھا۔ قازقستان نے 14 دسمبر 1991ء کو سوویت یونین سے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ یہ روس سے الگ ہونے والی آخری ریاست تھی۔ نورسلطان نذربایف اس نوزائیدہ ملک کے پہلے صدر بنے۔ قازقستان معدنی ذخائر اور تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ اس کی سرحدیں مغرب میں روس‘ مشرق میں چین‘ جنوب مغرب میں کیسپین سمندر اور تمام جنوبی سرحد کرغیزستان‘ ازبکستان اور ترکمانستان سے ملی ہوئی ہے۔ یہ ملک چٹیل میدانوں‘ پتھریلی وادیوں‘ ڈیلٹائوں‘ برف پوش پہاڑوں اور صحرائوں پر مشتمل ہے۔ یہ لینڈ لاکڈ ملک ہے یعنی اس کا کوئی سمندری ساحل نہیں ہے۔ اقتصادی لحاظ سے مضبوط ترین ملک ہے اس کا دارالحکومت نو ر سلطان ہے‘ جو پہلے آستانا کہلاتاتھا ۔ 1990ء سے 2019ء تک قازقستان کے صدر رہنے والے آمر نے اسے اپنے نام سے موسوم کیا تھا۔ اس کی آبادی دو کروڑ سے بھی کم ہے۔ قازقستان کو پھلوں کا گھر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا شہر الماتی ہے‘ جس کے معنی ایک ایسی سرزمین کے ہیں جو سیبوں سے لدی ہو۔ اب تک مظاہروں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں‘ 103‘ اسی شہر میں ہوئی ہیں۔ دنیا بھر میں یورینیم کی پیداوار میں یہ دوسرے نمبر پر شمار ہوتا ہے۔ کرومیم‘ سکہ اور زنک بھی یہاں بکثرت پائے جاتے ہیں، کوئلے‘ لوہے اور سونے کے حوالے سے یہ ملک دنیا کے دس بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ جواہرات اور ہیرے بھی برآمد کرتاہے۔ قدرتی گیس اور تیل کے لحاظ سے یہ دنیا کا گیارہواں بڑا ملک قرار دیا جاتا ہے۔ اس قدر معدنی وسائل ہونے کے باوجود عوام ان کے فوائد و ثمرات سے محروم ہیں۔
قازقستان اقوامِ متحدہ کا رکن ہونے کے علاوہ امن کے حصول میں نیٹو (NATO) کا حلیف بھی ہے۔ ان تمام خودمختار ریاستوں کی دولتِ مشترکہ میں بھی شرکت ہے۔ شنگھائی کارپوریشن کی تنظیم میں بھی اس نے شرکت اختیار کر رکھی ہے۔ قازقستان میں بہت سی نسلیں اور ثقافتیں موجود ہیں۔ قازق ان میں سب سے بڑے گروہ کی حیثیت سے موجود ہیں۔ جوزف سٹالن کے دور میں بہت سے قبائل اور نسلوں کو یہاں سے نکال کر روس کے دوسرے علاقوں میں دھکیل دیا گیا تھا۔
موجودہ قازقستان میں اسلام بنیادی مذہب کی حیثیت رکھتا ہے؛ یہاں کی 72 فیصد آبادی مسلم ہے؛ تاہم سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ قدامت پسند عیسائیوں کی ایک بڑی اقلیت بھی یہاں آباد ہے۔ یہاں قازق زبان کو ریاستی زبان کا درجہ حاصل ہے مگر روسی زبان دفتری زبان کا مقام رکھتی ہے۔ کاروباری معاملات میں بھی روسی زبان کو غلبہ حاصل ہے۔ افسوس بے پناہ معدنی ذخائر کے باوجود یہ ملک بدامنی اورعدم استحکام کا شکارہوچکا ہے۔ افغانستان سے انخلا سے مراد یہ نہیں کہ امریکا اس خطے سے نکل گیا ہے‘ وہ وسطی ایشیا کی ریاستوں کو روس و چین کے زیر اثر کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ وسط ایشیا کے پانچ ممالک قازقستان سمیت ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور کر غزستان کے توانائی کے وسیع ذخائر پر دنیا نے توجہ مرکوز کر رکھی ہیں۔ بلاشبہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سیاسی، معاشی اور سٹریٹیجک عدم استحکام کا جونیا دور شروع کیا جارہا ہے‘ شاید ہی کوئی ملک اس کے شدید منفی اثرات سے خود کو محفوظ رکھ پائے۔ اس وقت قازقستان کی سبھی اہم تنصیبات کی سکیورٹی روسی فوجی اتحاد کے پاس ہے۔
دنیا میں اس وقت امریکا اور چین کے درمیان مسابقت بنیادی مسئلہ ہے۔ بیجنگ اورماسکو مستقبل میں امریکی تسلط سے نمٹنے کیلئے فوجی اتحاد تشکیل دے رہے ہیں جس پر واشنگٹن نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکا اور نیٹو اتحادیوں کی جانب سے یوکرائن پر حملے کے نتیجے میں سنگین اقتصادی نتائج کی دھمکی کے باوجود روس کی جانب سے عسکری تیاریوں کے شواہد مل رہے ہیں، یہ تیاریاں ڈرامائی نہیں بلکہ مستحکم ہیں۔ایک طرف روس نے یوکرائن کی سرحد پر بھاری تعداد میں فوج تعینات کر رکھی ہے جبکہ دوسری جانب چین نے حالیہ مہینوں میں تائیوان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا ہے۔ چین تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے جس نے اس کے مطابق ایک دن اس کے ساتھ ضرور ملنا ہے یہی وجہ ہے کہ اسی دباؤ سے دنیا کا کوئی بھی ملک تائیوان سے سفارتی تعلقات تک قائم نہیں کر رہا۔ جوبائیڈن انتظامیہ محسوس کر رہی ہے کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکا بین الاقوامی سطح پر کچھ پیچھے ہٹ گیا ہے اس سلسلے میں امریکہ نیٹو کو مضبوط کرکے ایشیا میں نئے سرے سے اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ روس اور چین دونوں کو خدشہ ہے کہ امریکی صدر کی نئی خارجہ پالیسی یورپ اور ایشیائی ممالک کیلئے اب مزید چیلنجز کا باعث بن سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں