معدنی ذخائر سے مالامال یوکرائن مشرقی یورپ کے خطے میںزرعی لحاظ سے پہلے نمبر پرہے۔ رقبے میں یہ فرانس سے بھی بڑا ملک ہے۔ امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کے مطابق یوکرائن یورپ کے لیے ''بریڈ باسکٹ‘‘ کی سی اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں گندم کی برآمدات میں وسطی ایشیا کی اس آزاد ریاست کا حصہ 10 فیصد ہے۔ Black Soil جیسی زرخیز مٹی کے سبب یہ قیمتی زرعی اجناس جیسے مکئی، آلو اور سورج مکھی کی پیداوار میں بھی سرفہرست ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یورینیم اور ٹیٹینیم کے ذخائر کے حوالے سے اس کا یورپ میں دوسرا اور دنیا بھر میں دسواں نمبر ہے۔ شیل گیس ذخائر میں یہ یورپ میں تیسرا اور دنیا میں تیرہویں نمبرپر آتا ہے۔ صنعتی ملک ہونے کی حیثیت سے یہاں گیس پائپ لائن کا عالمی سطح پر چوتھا نمبر ہے۔ یوکرائن نیوکلیئر پلانٹس کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ دفاعی پیداوار کی صنعت میں بھی 9ویں پوزیشن پر ہے؛ تاہم یوکرائن امریکا سے جنگی امداد لینے والے ممالک میں بھی شامل ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ حالیہ روس‘ یو کرائن کا تنازع ایک بین الاقومی شکل اختیار کر گیا ہے‘ یہ یوکرائن والامعاملہ ہے کیا؟
پس منظر میں جائیں تویوکرائن کو 1991ء میں روس سے آزادی ملی تھی، روس کا ایک حصہ کریمیا سوویت یونین سے علیحدگی کے وقت یو کرائن کے پاس چلا گیا تھا حالانکہ وہاں روسی باشندے اکثریت میں ہیں۔ روس نے 2014ء میں اس علاقے کو بازیاب کرا لیا تھا۔ ریفرنڈم میں بھی وہاں کے لوگوں نے روس کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ دونوں ممالک کے مابین تنائومیں شدت تب آئی جب یوکرائن نے نیٹو میں شمولیت اختیار کرنا چاہی۔ یوکرائن کی روس کے لیے جغرافیائی اہمیت ہے۔ اگر یہ نیٹو میں شامل ہوا تو روس مغربی فرنٹ پر کمزور ہو کرامریکا اور مغرب کے زیر اثر آجائے گا۔ چونکہ روس بخوبی بھانپ چکا ہے کہ نیٹو میں شامل ہونے کے بعد یو کرائن کریمیا کا علاقہ واپس لینے کے لیے جنگ کر سکتا ہے اور اس صورت میں پورا نیٹو اتحاد اس کی پشت پر ہو گا اور پھرروس کو صرف یوکرائن ہی نہیں‘امریکا اور یورپ سے بھی جنگ لڑنا ہو گی۔ اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو نہ صرف روس کی معیشت متاثر ہو گی بلکہ پورے یورپ کا مالیاتی نظام بھی درہم برہم ہو جائے گا۔ نتیجتاًامریکا کو ایک با ر پھر کھوئی ہوئی سپر پاور پانے کا موقع مل جائے گا۔
اصل میں افغانستان سے ہزیمت کے بعد خطے میں اجارہ داری کا خواب چکنا چور ہو نے کی وجہ سے امریکی تھانیداری خطرے میں ہے، اسے روس اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خاتمے کے لیے ایک نئے محاذ کی ضرورت ہے۔ موجودہ عالمی منظر نامے میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یوکرائن کے نام پر جو بحران پیدا کیا جا رہا ہے‘ اس کا یوکرائن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ جرمنی اور خاص طور پر گیس پائپ لائنوں کے حوالے سے ہے‘ جو جرمنی کو روس سے جوڑتی ہیں اور جنہیں Nord Stream کہا جاتا ہے۔ واشنگٹن ان پائپ لائنوں کو یورپ میں اپنی برتری کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے اور ہر موڑ پر ان منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ جرمنی روسی گیس پر زیادہ انحصار کرے کیونکہ ایسی دنیا میں‘ جہاں جرمنی اور روس دوست اور تجارتی شراکت دار ہوں‘ وہاں نہ امریکی فوجی اڈوں کی ضرورت باقی رہتی ہے، نہ ہی امریکی ساختہ مہنگے ہتھیاروں اور میزائل سسٹم کی ضرورت بچتی ہے جبکہ نیٹو اتحاد بھی اس سے کمزور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نورڈ سٹریم منصوبوں کی مخالفت کرتی ہے۔ یہ صرف گیس پائپ لائن نہیں بلکہ مستقبل کی کھڑکی ہے۔ ایک ایسا مستقبل جس میں یورپ اور ایشیا ایک بڑے آزاد تجارتی علاقے میں ایک دوسرے کے قریب آ گئے اور امریکا کی اس میں کوئی جگہ نہیں۔ یہی بات واشنگٹن کو قابلِ قبول نہیں۔ جرمنی اور روس کے مابین گرما گرم تعلقات اس ''یک قطبی‘‘ عالمی نظام کے خاتمے کا اشارہ دیتے ہیں جس کی امریکا گزشتہ 75 سالوں سے نگرانی کر رہا ہے۔ جرمنی اس وقت اپنے جوہری پاور پلانٹس کو ختم کر رہا ہے اور توانائی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اسے قدرتی گیس کی ضرورت ہے۔
حالیہ برسوں میں جرمنی اور یورپی یونین کی ریاستوں کو روس کے گیس فراہمی معاہدے پر امریکا کو شدید اعتراض رہا ہے۔ شنید ہے کہ وائٹ ہائوس میں جرمنی کے نئے وائس چانسلر سے ایک ملاقات میں دھمکی آمیز لہجے میں بیا ن دیا گیا کہ اگر روسی فوجیں یوکرائن میں داخل ہو جاتی ہیں تونورڈ سٹریم منصوبہ شٹ ڈائون ہو جائے گا۔ نورڈ سٹریم ٹو منصوبے کی بدولت بحیرہ بالٹک سے گزاری گئی پائپ لائن کی سالانہ 55 ارب کیوبک میٹر گیس براہِ راست جرمنی پہنچتی ہے۔ ''تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی حکمت عملی کے تحت واشنگٹن نے روس کے خلاف ہائبرڈ معلوماتی وار شروع کر رکھی ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ روس نے یوکرائن کی سرحد پر 1 لاکھ 27 ہزار فوجیوں کو اکٹھا کیا ہے جس سے پورے یورپ کو ایک تباہ کن جنگ میں جھونکنے کا خدشہ ہے۔ تمام جنگی پروپیگنڈا ایک ایسے بحران کو تیار کرنے کے ارادے سے بنایا گیا جس کا استعمال روس کو الگ تھلگ کرنے اور بالآخر روس کو چھوٹی اکائیوں میں تقسیم کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے؛ تاہم اصل ہدف روس نہیں بلکہ جرمنی ہے۔
اس منصوبے کے حوالے سے انکل سام کا ''پلان بی‘‘ یہ ہے کہ ایسا بیرونی خطرہ پیدا کیا جائے تا کہ جرمنی پائپ لائن منصوبے کو معطل کرنے پر مجبور ہو جائے۔ کون نہیں جانتا کہ واشنگٹن مستقبل قریب میں اشتعال انگیزیوں کے حوالے سے کیا منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ وہ جرمنی اور روس کے مابین دراڑیں ڈالنے کے لیے جانوں کا ضیاع چاہتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ امریکا کے زوال کو کم کرنے اور ایک نئے ''پولی سینٹرک ورلڈ آرڈر‘‘ کے لیے ہر طرح کے خطرات مول لینے کو تیار ہے۔ آنے والے ہفتوں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اب یہ نو منتخب جرمن چانسلر Olaf Scholz پر منحصر ہے کہ وہ اس معاملے کو کیسے طے کرتے ہیں؟ امریکی سفارت کاروں کے پاس یورپی خریداریوں کو روکنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ روس کو فوجی ردعمل کی طرف راغب کریں اور پھر یہ دعویٰ کریں کہ اس ردعمل کا بدلہ لینا کسی بھی قومی اقتصادی مفاد سے زیادہ ہے‘ جیسا کہ انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ برائے سیاسی امور وکٹوریہ نولینڈ نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی پریس بریفنگ میں وضاحت کی: اگر روس یوکرائن پر کسی نہ کسی طرح حملہ کرتا ہے تو نورڈ سٹریم ٹو منصوبہ آگے نہیں بڑھے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے مشرقی حصے میں نسلی روسیوں کے دفاع کے لیے پوٹن کو اپنی فوجیں سرحد کے پار بھیجنے کے لیے کسی قسم کی اشتعال انگیزی کی جائے گی۔ اگر صدر پوٹن امریکی چال میں آجاتے ہیں تو ردعمل تیز اور سخت ہوگا۔ میڈیا اس کارروائی کو پورے یورپ کے لیے خطرہ قرار دے گا جبکہ دنیا بھر کے رہنما پوٹن کو ''نیا ہٹلر‘‘ قرار دیں گے۔
یوکرائن بحران میں شدت آنے کے بعد سے امریکا نے بڑی تعداد میں یوکرائن کو ہتھیار فراہم کیے اور تین بالٹک ممالک سے امریکی ساختہ میزائل اور دیگر ہتھیار یوکرائن منتقل کرنے کی بھی منظوری دی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے نورڈ سٹریم پائپ لائن منصوبے کو ختم کرنے کی حالیہ دھمکی دراصل یورپی ممالک کو مجبور کرنے کے مترادف ہے کہ وہ روس پر توانائی کے انحصار سے نجات حاصل کریں اور یورپ میں توانائی کے حوالے سے امریکی برآمدات کو بڑھانے کیلئے حالات پیدا کریں۔ اگر یہ تنازع برقرار رہا اور نیٹو روس پر نئی پابندیاں عائد کرتا ہے تو یورپ اس منصوبے کو منقطع کر سکتا ہے جس سے دنیا کو ایک نیا عالمی ما لیاتی بحران سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اس وقت اقوام عالم کو مہلک وبا کے پیش نظر کمزور معاشی صورتحال کا سامنا ہے۔ روس پر پابندیاں یورپ کی 20فیصد اور جرمنی کی 60 فیصد امپورٹ کیلئے مضر ثابت ہوں گی۔ یہ تنازع کہاں اور کیسے ختم ہو گا؟ اس بارے میں کوئی بھی حتمی طور پر کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں، البتہ اس معاملے میں روسی کارروائیوں کے جواب میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے روس اور اس کی قیادت پر پابندیاں عائد کیں اور پھر روس نے بھی اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا تو روس اور خاص طور پر یورپ کیلئے بہت سی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ یورپ روس کی گیس اور پٹرولیم منصوعات پر کافی انحصار کرتا ہے اور روس نے ابھی سے اپنی گیس کی ترسیل پر کنٹرول کرنا شروع کردیا ہے جس کے سبب یورپ میں گیس کی قیمتوں میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے۔ اب اگر روس یورپ کیلئے گیس سپلائی پوری طرح بند کردے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیا صورتحال بنے گی۔ یہ امریکا ہی کی لگائی ہوئی آگ ہے۔ امریکی سامراج اپنے سیاسی و عسکری مفادات کیلئے حکومتیں گراتا‘ ملکوں پر جارحانہ حملوں کے ذریعے ان کی خود مختاری پر کاری ضرب لگا تا ہے۔ اگر روس اور چین نے مل کر امریکا اور نیٹو کے آگے بند نہ باندھا تو مسلم ورلڈ کی طرح آئندہ ساری دنیا نیٹو کے نشانے پر ہو گی۔