دہشت گردی کی نئی لہر اور سیاسی جوڑ توڑ

وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں جمع کرادی گئی ہے اور سپیکر کو اجلاس بلانے کی تجویز دیتے ہی حسبِ توقع حکومتی اور اپوزیشن حلقے زیادہ متحرک نظر آرہے ہیں۔ رابطوں، دعووں، مشوروں اور تند و تیز بیانات کا سلسلہ جاری ہے، اندرونی خبریں اور قیاس آرائیاں بھی گردش میں ہیں۔ اس وقت ملک میں سیاسی جماعتیں انتہائی متحرک ہیںاور قومی اسمبلی میں ''نمبر گیم‘‘ کے حوالے سے فتح کے دعوے کیے جا رہے ہیں، سیاسی جوڑ توڑ بھی عروج پر ہے۔ حکومت اور اس کے مخالفین ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے باہم دست و گریباں ہیں۔ دھمکیوں، الزام تراشیوں اور ذاتیات پر رکیک حملوں کا سلسلہ تیز اور اخلاقیات کا دامن تار تار ہے۔ پورے ملک کی سیاسی فضا آلودہ ہو چکی ہے۔ دوسری جانب ملک دشت گردی کی نئی لہر کی لپیٹ میں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے ہمارے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر سوچیں اور ملکی سلامتی اور استحکام کو مقدم رکھیں۔ خدشہ ہے کہ اس افراتفری اور انتشار کا دشمن فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ گزشتہ دنوں پریس کانفرنس میں پاک فوج کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ اداروں کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں‘ اس لیے غیر ضروری افواہیں نہ پھیلائی جائیں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ افواجِ پاکستان ملک کے دفاع اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے پوری طرح مستعد ہیں۔ ہماری مسلح افواج آزمائش اور امتحان کی ہر گھڑی میں سرخرو ہوئی ہیں۔ بہتر ہے کہ ا نہیں ملک کے اندرونی معاملات میں نہ ملوث کیا جائے جس کا آرمی چیف بھی متعدد مواقع پر تقاضا کر چکے ہیں۔
اگر ملکی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ ماضی میں بھی ملک میں حالات خراب کرنے کے بعد سیاستدانوں نے ہی جمہوریت کو ڈی ٹریک کرنے کے مواقع مہیا کیے تھے۔ ہمارا ازلی دشمن ہر وقت اس تاک میں رہتا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنے عزائم کی تکمیل کر سکے‘ سو ہمیں اسے کسی صورت ایسا کوئی موقع نہیں دینا چاہیے۔ کورونا وائرس کے پھیلائو، کساد بازاری، روس‘ یوکرائن تنازع سمیت سرد جنگ کے امکانات اور بڑی طاقتوں کی باہمی کشمکش کے عالمی منظرنامے میں وطن عزیز کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے انہیں سامنے رکھتے ہوئے تمام حلقوں کے بیانات اور اقدامات میں احتیاط کے پہلو کو مدنظر رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک موجودہ تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے تو ایک طرف وزیراعظم صاحب اپنے معتمدین کے ذریعے اور بذاتِ خود مختلف پارٹیوں اور افراد سے رابطے کررہے ہیںاور دوسری جانب مولانا فضل الرحمن، شہباز شریف اور آصف علی زرداری سمیت اپوزیشن کے سبھی رہنما فعال و متحرک نظر آ رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کی طرف سے اپنے اپنے اہداف کے حصول کی حکمت عملیاں مرتب کی جارہی ہیں؛ چنانچہ صائب مشورہ یہی ہے کہ عدم اعتماد کے معاملے کو لمبا نہ لٹکایا جائے۔ امید ہے کہ تمام مراحل میں برسراقتدار اور اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے جمہوری اقدار اور آئینی و قانونی اصولوں کی پاسداری ملحوظ رکھی جائے گی۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 95 کی رو سے تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد سپیکر سات دن کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا پابند ہے۔ اسمبلی سیکرٹریٹ میں جو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی ہے اس پر مسلم لیگ نوا ز، پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے 86 ارکانِ قومی اسمبلی کے دستخط موجود ہیں؛ البتہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اپوزیشن کو 172 ووٹ درکار ہیں جبکہ اس وقت قومی اسمبلی میں حزبِ مخالف سے تعلق رکھنے والے ارکان کی کل تعداد 162 ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ حزبِ اختلاف 172 ارکان پورے نہیں کر پائے گی اور اسے ناکامی کاسامنا کرنا پڑے گا۔ بہر حال قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد سے حکومت اور اپوزیشن کے مابین پارلیمانی جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ اگرچہ تحریک عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن ایک عرصہ سے سرگرم عمل تھی اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم ) کے نام سے قائم اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے علاوہ دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے رابطوں کا سلسلہ بھی استوار کیاجاتا رہا۔
عدم اعتماد پر رائے شماری سے قبل ترین گروپ کی حکومت مخالف سرگرمیاں یقینی طور پر حکومت کے لیے پریشانی کا سبب ہیںکیونکہ اس گروپ کا اس تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی میں اہم کردار تصور کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے طرزِ حکمرانی سے نالاں 50 کے قریب ارکانِ صوبائی اسمبلی بھی مبینہ طور پر اپوزیشن کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کرا چکے ہیں جبکہ عبدالعلیم خان کی مسلم لیگ نون میں شمولیت کی خبروں نے حکومتی مشکلات بڑھا دی ہیں۔ یقیناوزیر اعظم عمران خان بھی اس معاملے کی نزاکتوں کو سمجھتے اور اس کی سنگینی سے آگاہ ہیں لہٰذا انہیں سسکتے اور بلکتے عوام کو ریلیف مہیا کرنے کے لیے بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔ ان کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کا دو روز قبل یہ کہنا کہ ''حالات ہاتھ سے نکل رہے ہیں‘ حکومت بڑا فیصلہ کرے‘‘ حکومت کے لیے واضح پیغام ہی نہیں بلکہ ایک انتباہ بھی ہے۔ بلاشبہ وزیر اعظم کو آج جن چیلنجز کا سامنا ہے‘ وہ اس بات کا تقاضا کررہے ہیں کہ وہ اب اپوزیشن کا مقابلہ پارلیمنٹ میں کرنے کے لیے اپنے تمام دائو پیچ اور سبھی پتے استعمال کریںلیکن کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے ملک و قوم کو کسی بڑی آزمائش سے دو چار ہونا پڑے۔
حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی کامیابی کے دعووں کے ساتھ ساتھ اپنے حامی ارکان کی تعداد میں اضافہ کرنے کی کوششوں میں تو مصروف ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ ان کے لہجوں میں تلخی‘ اخلاقیات سے عاری اور غیرشائستہ اندازِ تخاطب کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے جس نے ملکی سیاسی ماحول مکدر بنا دیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وزیراعظم سمیت حکومتی حلقے اس میں پیش پیش ہیں اور اپنی تقاریر میں مخالف سیاست دانوں کے حوالے سے جس قسم کی زبان استعمال کر رہے ہیں اور جس قسم کا لہجہ اپنائے ہوئے ہیں‘ وہ ہرگزان کے مناصب کے شایانِ شان نہیں۔ جمہوریت میں برسراقتدار جماعت اور حزبِ مخالف میں نظریاتی اختلافات جمہوری حسن کہلاتے ہیں۔ اسمبلی کا پلیٹ فارم ہو یا عوامی جلسے‘ ہر دو جگہوں پر متحارب گروپ ایک دوسرے کے خلاف تقاریر کرتے اور اپنے اپنے مؤقف کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب منطق، دلیل اور اصول کی جگہ الزام تراشی‘ اتہام اور گالی گلوچ لے لیتی ہے تو معاملات کو بگڑنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی؛ چنانچہ اب جو ''جواب آں غزل‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا ہے‘ خدا جانے وہ کہاں جا کر تھمے گا۔
جب بھی‘ کسی بھی دور میں سیاسی بے چینی اور محاذ آرائی کے سلسلے میں شدت آتی ہے تو حکمرانوں کی جانب سے یہی واویلا کیا جاتا ہے کہ ان کی حکومت گرانے میں بیرونی طاقتیں ملوث ہیں۔ میرا ماننا یہ ہے کہ حکومت کو کو بیرونی سازشوں کے بجائے ان وجوہات کی طرف توجہ دینی چاہئے جن کی بدولت حالات ایسے نہج پر پہنچ جاتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن درحقیقت جمہوریت کی گاڑی کے دو پہیے ہیں جو باہمی تال میل کے ساتھ اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں تو جمہوریت کی گاڑی بھی اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہے گی۔ یہ منزل بلاشبہ جمہوریت اور ملک کے استحکام کی منزل ہے‘ اس تناظر میں جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھنا اور اسے مستحکم بنانا حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ جمہوریت کی عملداری کے معاملے میں ہمارا ماضی تابناک ہرگز نہیں رہا اور حکومتی و اپوزیشن بنچوں پر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا سیاسی لیڈروںکی باہمی کھینچا تانی کے نتیجے میں جمہوریت کی گاڑی کے پٹڑی سے اترنے کے مواقع پیدا ہوتے رہے؛ چنانچہ اس تناظر میں ہمارے سیاسی قائدین کو فہم و تدبر کے ساتھ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوریت کے پودے کو تناور درخت بنانا چاہیے تاکہ اس کے میٹھے پھل سے عوام الناس بھی مستفید ہو سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں