حقیقی تبدیلی کیلئے اسلامی نظام کا قیام ناگزیر!

برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی علیحدہ قومیت اور مذہبی شناخت کے تحفظ کیلئے جدوجہد دو قومی نظریے کی بنیاد پر کی تھی،مقصد محض انگریزوں سے غلامی حاصل کرنا نہیں بلکہ ایک نئی اسلامی مملکت کا قیام تھا۔ قائداعظم نے فرمایا تھا: ''پاکستان کا مقصد اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ یہاں اللہ کے دین کا نظام ہو‘‘۔ اسلام کے سیاسی نظام میں حاکمیتِ اعلیٰ صرف اور صرف اللہ رب العزت کو حاصل ہے۔ یہ دستور کی سب سے پہلی اور بنیادی دفعہ ہے جس کو قرآنِ کریم نے دو ٹوک انداز میں مختلف الفاظ میں بیان کیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ''یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں اقتدار عطا کریں تو یہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے‘‘۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے ''حکومت کا سربراہ نگران ہے اور جن کی نگرانی اس کے سپرد ہے‘ ان کے بارے میں اس کو جوابدہ ہونا پڑے گا‘‘۔
دوسری جانب جمہوریت کا بنیادی اصول، خصوصی امتیاز اور سب سے بڑی خوبی یہ باور کی جاتی ہے کہ اس نظام میں حاکمیت خود عوام کو حاصل ہے۔ اس اصول کو ہم خوبی کہیں یا خامی ؟عوام کی حاکمیت کا نعرہ در حقیقت ایک بہت بڑا دھوکا ہے، اس کے ذریعے عوام کو خوش کردیا گیا ہے کہ تم حاکم ہو لیکن ہوتا یہ ہے کہ حکومت میں عوام کی شرکت محض ایک تخیلاتی اور تصوراتی حیثیت رکھتی ہے۔ عملاً اکثر جگہوں پر عوام کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ حکومت کیا کر رہی ہے؟ افسو س گزشتہ 74 بر سوں میں ہمیںمغربی طرزِ حکومت، پارلیمانی و صدارتی نظام میں کے چکر میں پھنسا دیا گیا، اور نام نہاد جمہوریت کی نیلم پری زبر دستی ہم پر تھونپ دی گئی۔
بقول شاعرِ مشرق علامہ اقبال:
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مفہوم: جسے تم آزادی کی نیلم پری سمجھ رہے ہو‘ یہ درحقیقت جمہوری لبادے میں ظلم و استبداد کا دیو ہے‘ جو تمہاری جانب بڑھتا چلا آ رہا ہے۔
دنیا میںجمہوریت کو بہترین نظام گردانا جاتا ہے توسوال یہ اٹھتاہے کہ پھر پاکستانی اس کے حقیقی ثمرات سے بہرہ مند کیوں نہیں ہو سکے؟بلاشبہ جو نظام اس قت چل رہا ہے وہ فرسودہ، کرپشن، بد عنوانی و لوٹ مار کا خاصہ ہے یعنی موجودہ دقیانوسی سسٹم اپنی مدت پوری کر چکا ہے اب اس میں جوہری تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔حضرت علیؓ کا قول ہے کہ معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے مگر ناانصافی پر نہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری مروجہ جمہوریت مندرجہ بالا تعریف پر پورا اتر رہی ہے۔
Government of elite, for the elite and by the elite.
''یہ اشرافیہ کی حکومت ہے‘ جو اشرافیہ پر اشرافیہ ہی کے ذریعے کی جا رہی ہے‘‘۔ بعض سنجیدہ فکر طبقات اس اشرافیہ کو مافیا بھی قرار دیتے ہیں۔ جمہوریت کی سیاسی خوبی محض عددی برتری ہے۔ اس نظامِ حکومت میں انسانوں کی گنتی ہوتی ہے‘ صلاحیتوں اور قابلیتوں کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوتی۔ ہماری مروجہ جمہوریت صرف سرمایہ دارانہ حیثیت رکھتی ہے‘ جمہوریت کے نام پر دولت کو فضول طریقے سے خرچ کیا جاتا ہے، انتخابات کے موقع پر امیدوار اور ان کے حامی لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کامیابی حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، دولت مند طبقے خفیہ طور پر ووٹ خریدتے ہیں اور روپے پیسوں کے زور سے اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں۔ اس طرزِ حکومت میں اقلیت ہمیشہ اکثریت کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ عملی طور پر جمہوریت میں عوام کی نہیںبلکہ محض اکثریت کی حکومت ہوتی ہے اور اکثریت بھی وہ جسے ایک اقلیتی طبقہ مختلف ہتھکنڈوں سے اپنا یرغمال بنا کر رکھتا ہے۔ اس کے برعکس ہمیں یہاں اسلامی معاشرے کا نفاذ عمل میں لانا ہے‘ یہاں اسلامی نظام قائم کرنا ہے۔ اسلامی معاشرہ وہ معاشرہ ہے‘ جو کلمۂ شہادت اور اس کے تمام تقاضوں کی عملی تفسیر ہو۔ گویا ''لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ ایک مکمل نظام کی بنیاد ہے جس پر امتِ مسلمہ کی اجتماعی حیات تعمیر ہوتی ہے۔ المیہ ہے کہ ہمارا موجودہ سیاسی نظام ریاستی نظام کی کمزوری، حکمرانوں کی نا اہلی اور بد نیتی کی وجہ سے بنیادی ضرورتوں اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سیاسی نعروں، جھوٹے وعدوں اور طبقاتی سسٹم کی بدولت ریاست کو کمزور تر کیا جا رہا ہے۔ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے کہ موجودہ نظام نے قوم کو مہنگائی‘ بیروزگاری‘ کرپٹ قیادت‘ معیشت کی تباہی اور محرومیوں کے سوا کچھ نہیں دیا جبکہ تبدیلی کے دعویداروں کا اصلی روپ بھی سب کے سامنے رہا۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ نئے الیکشن کرانے سے معاملات درست سمت میں آ جائیں گے‘ تو یہ محض ایک بھول اور غلط فہمی ہے۔ اس وقت قومی سطح پر انتخابات کرانے سے فائدہ تو نہیں ہو گا؛ البتہ ایک پارٹی ابھرے گی جس سے حکومتی ایوانوں میں خلیج بڑھے گی اور صحیح معنوں میں تبدیلیٔ نظام کی گنجائش نکل آئے گی۔
نئے انتخابات کے بعد اگر کوئی جماعت واضح اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں نہیں آتی تو کچھ بھی نہیں بدلے گا‘ وہی دھڑے بازیاں، ہارس ٹریڈنگ کا دور چلے گا‘ سیاسی نمائندوں کی منڈیاں لگیں گی‘ قلابازیاں اور شعبدے بازیاں ہوں گی۔موجودہ سسٹم میں کسی ایک جماعت کے واضح اکثریت لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ معاشرے میں تفریق و تقسیم اتنی گہری ہو چکی ہے کہ یہ نظام یونہی بیساکھیوں کے سہارے ہی چل پائے گا۔ حالات واضح عندیہ دے رہے ہیں کہ نظام مدت پوری کر چکا ہے۔ نظامِ انصاف میں ریفارمز کے ساتھ سا تھ، شعبۂ تعلیم و صحت میں انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں۔ عدالت، کفالت، حفاظت کو بہتر بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ قائداعظم نے جس نظام کا ذکر کیا تھا‘ وہ کہاں چلاگیا؟ اگر ایسٹ انڈیا کا باقیاتی نظام ہی لاگو کرنا تھا تو پھر مغربی جمہوریت بہتر نہیں تھی؟ پھر کیوں کہا گیا کہ پاکستان اس لیے بنایا جا رہا ہے کہ اس کے اندر قرآن و سنت کی بالادستی ہوگی۔ آج ہم اپنی منزل ہی نہیں‘ راہ بھی کھو چکے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی اور وزیر اعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش اور صدرِ مملکت کے اسمبلی تحلیل کرنے کے حکم کو غیر قانونی قرار د ینے کے فیصلے سے نئی عدالتی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ اس سے کسی فریق کی نہیں‘ پاکستان اور آئین کی جیت ہوئی ہے اور جاری بحرانی کیفیت کا خاتمہ ہوا ۔ اس فیصلے نے نظریۂ ضرورت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے جسے اس لحاظ سے بھی خوش آئند قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس سے بانیانِ پاکستان علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کے آئین و قانون کی پاسداری کے تصور کو یقینی بنایا گیا۔ اب تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بال اپوزیشن کے کورٹ میں ہے؛ تاہم پاکستان تحریک انصاف سمیت سبھی جماعتوں پر لازم ہے کہ وہ مستقبل کے لیے بہتر لائحہ عمل مرتب کرتے ہوئے گروہی اور جماعتی سمیت ہر نوع کے تعصب سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنے اپنے اہداف کے حصول کے لیے یکسو ہو جائیں۔ ضروری ہے کہ آئین و قانون کی بالادستی اور عوام کی فلاح و بہبود کو اپنا مطمح نظر بنایا جائے؛ چنانچہ حکومت ہو یا اپوزیشن‘ کسی کو بھی اس سارے معاملے کو اپنی ہار یا جیت یا انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ یہ سارا عمل آئین، پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بالادستی سے مشروط ہے کیونکہ صرف حکومت میں بیٹھ کر ہی ملک و قوم کی خدمت نہیں کی جاتی‘ اس عمل میں اپوزیشن کی بھی اتنی ہی ذمہ داری ہوتی ہے جتنی حکومت کی۔
اس وقت دنیا بھر کی نظریں پاکستان کے حالات پر مرکوز ہیں اور عالمی منظرنامے میں سیاسی‘ اقتصادی اور جغرافیائی طور پر یہ ملک انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔پاکستانی تاریخ گواہ ہے کہ ہر عہدِ حکمرانی میں عوام اپنے حقوق کیلئے جہدِمسلسل میں ہی رہے۔ لوگ اپنی کم مائیگی و بے بسی کا ماتم کر تے رہے۔ ہر عہد میں ان کی کمائی لٹتی رہی،ہر عہد میں ان کی غیرت و خودی کو سولی پر چڑھا دیا جاتا رہا۔ کبھی ملک کو عالمی ساہوکاروں کی بھٹی میں جھونکا جاتا رہا مگر راوی چین اور امن ہی لکھتا رہا۔ سیاسی بازی گر اپنی شعبدہ بازیوں سے ملک و قوم کا مال و متاع کو لوٹنے میں مصروف رہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہم ایسٹ انڈیا کمپنی اور تاجِ برطانیہ کی غلامی سے کبھی آزاد ہی نہیں ہوئے۔حقیقی تبدیلی اور عوام کی قسمت صرف اسلامی نظام ہی بدل سکتا ہے۔ا س میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ حالات نے نوجوانوں کو مایوسی کی طرف دھکیلا ہے اور وہ اس موجودہ گھسے پٹے نظا م سے منہ موڑ رہے ہیں۔ یقینا ان میں ایک نئے نظام کی خواہش جنم لے رہی ہے۔ اب یہ کہنا غلط نہیں کہ اس فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا وقت آگیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں قانونی و انتظامی ادارے بھی بری طرح ناکامی سے دو چار ہوئے ہیں۔معاشی اور اقتصادی و مالیاتی بحران سے دوچار عوام کا جینا تو درکنار‘ مرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ قومی ترقی اور عوامی خوشحالی رول بیک ہوچکی ہے۔ غربت، بھوک، افلاس اور بے روزگاری کی دلدل میں عام آدمی دھنستا جارہا ہے؛ چنانچہ مذکورہ سنگین صورتحال کے تناظر میںمیں قوم کسی نجات دہندہ کی منتظر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں