مسئلہ فلسطین اور ہماری حکمت عملی

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد قبلۂ اول بیت المقدس مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں پیغمبر ختمی مرتبت حضرت محمدﷺکو شبِ معراج مسجد حرام سے لایا گیا تھا اور آپﷺ نے یہیں پر انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت کی امامت فرمائی تھی۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے لیکن مسئلۂ فلسطین کی ابتداء کو ایک سو سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ 1917ء میں برطانوی استعماری حکومت کے وزیر خارجہ آرتھر بالفور کا جاری کردہ اعلامیہ جسے بالفور اعلامیہ کہتے ہیں‘ تاریخ کے چہرے پر سیاہ کلنک کی مانند آج بھی موجود ہے۔ 1948ء میں فلسطین کی سرزمین پربرطانو ی اور امریکی استعمار کی سرپرستی میں قائم کی جانے والی صہیونیوں کی غاصب ریاست اسرائیل روزِاول سے ہی نہ صرف فلسطین بلکہ خطے کے تمام ممالک سمیت دنیا بھر میں ایک خطرے کے طور پر ابھری۔ اسرائیل نے ''گریٹر اسرائیل‘‘ کیلئے جہاں عرب ممالک کے ساتھ جنگوں کا آغاز کیا‘ وہیں اپنے تسلط کو توسیع دیتے ہوئے 1948ء، 1967ء، 1973ء اور 1978ء کی جنگوں کی آڑ میں مصر، اردن، شا م اور لبنان کے علاقوں پر قابض ہو چکا ہے۔ 1980ء تک صہیونیوں نے لبنان پرلگ بھگ مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کے مقابل فلسطین میں حماس، جہادِ اسلامی اور لبنان میں حزب اللہ نے جدوجہد کا آغاز کیا اور بالآخر اسرائیل‘ جسے 1948ء سے 1978ء تک کی جنگوں میں ناقابل تسخیر ہونے کا گھمنڈ تھا‘ کو لبنان کی سرزمین پر2000ء میں پہلی مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اسے لبنان سے فرار ہونا پڑا۔ یہ وہ موقع تھا کہ جب اسرائیل کی شکست کا آغاز ہوا تھا۔ پھر 2006ء میں لبنان کی 33روزہ جنگ کا نتیجہ اسرائیل کی شکست کی صورت میں نکلا۔ اسی طرح 2007ء، 2009ء، 2014ء اور 2019ء میں فلسطین کی مقبوضہ پٹی غزہ میں ہونے والی جنگوںمیں ہمیشہ اسرائیل کو بھاری نقصان اٹھا نا پڑا اور اس کے مقابلے میں تحریک آزادیٔ فلسطین کے لیے سرگرم عمل مسلم مزاحمتی تحریکیں
حماس، جہادِ اسلامی اور حزب اللہ مزید مضبوط ہوتی رہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ امریکا اور اسرائیل نے ماضی کی تمام تر ہزیمت کی پردہ پوشی کے لیے ناجائزصہیونی ریاست کی توسیع کی خاطر 2011ء میں داعش نامی ایک جرثومے کو جنم دیا جو مسلسل نو سال تک مسلم مزاحمتی تحریکوں کے سپوتوں کی قربانیوں کے باعث ناکام ہوا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بقو ل عراق‘ شام اور افغانستان جیسی جنگوں پر سات ٹریلین ڈالرز خرچ کیے گئے لیکن اہداف حاصل نہ ہو سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکا اسرائیل کی توسیع کی صورت میں اس جنگ کو عرب دنیا اور اسی طرح جنوب ایشیائی ممالک بالخصوس ایران و پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں تک لانا چاہتا تھا‘ اب وہ جنگ عملی طور پر گولان کی پہاڑیوں، جنوبی لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے اندر مغربی کنارے یعنی القدس کی جانب سے اسرائیل ہی کو گھیرے میں لے چکی ہے۔
مسجد اقصیٰ میں ہونے والے حالیہ واقعات نے نہ صرف سعودی عرب بلکہ خطے کے تمام عوام کوجھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ عرب حکومتوں کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی وجہ سے سخت عوامی غم و غصے اور مزاحمت کا سامنا ہے۔ لندن کے ایک تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ سے منسلک مائیکل سٹیفن بتاتے ہیں کہ عربوں کا یہ دعویٰ کھوکھلا ثابت ہو گیا ہے کہ ''ابراہیمی معاہدوں‘‘ کے بعد متحدہ عرب امارات جیسی ریاستیں اسرائیل پر دباؤ ڈال سکیں گی کہ وہ فلسطینی خواہشات کا لحاظ کرے۔اب حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ صدر بائیڈن کی اس درخواست کی بھی شنوائی ہوتی نہیں دکھائی دے رہی کہ اسرائیل اپنے تابڑ توڑ حملوں میں کمی کرے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین بگڑتی ہوئی صورت حال ان عرب حکومتوں کے لیے خاصی شرمندگی کا باعث ہے جو کچھ عرصہ پہلے اپنے عوام کو خوشی خوشی بتا رہی تھیں کہ اسرائیل کے ساتھ دوستی کے بعد انہیں تجارت، سیاحت، طبی تحقیق، ماحول دوست معاشیات اور سائنسی ترقی کے شعبوں میں کتنے فوائد حاصل ہوں گے۔ آج غزہ پر اسرائیلی بمباری ، مشرقی یروشلم میں اپنے گھروں سے طاقت کے زور پر نکالے جانے والے فلسطینیوں کی وڈیوز سمیت اسرائیلی پولیس کے مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولنے کے المناک مناظرسب کے سامنے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے 'ابراہیمی معاہدے‘ کے تحت متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے جن منصوبوں کو بڑے طمطراق سے حتمی شکل دی تھی‘ ان کے نتیجے میں ہم نے دیکھا کہ کئی عرب ممالک نے نہ صرف اسرائیل سے اپنے تعلقات کو باقاعدہ تسلیم کرنا شروع کر دیا تھا بلکہ سکیورٹی اور انٹیلی جنس سمیت بہت سے دوسرے شعبوں میں اسرائیل کے ساتھ باہمی تعاون کے ایسے منصوبوں کو بھی عملی شکل دینا شروع کر دی تھی جن کی مثال ماضی میں نہیں دکھائی نہیں دیتی۔ واشنگٹن میں ان معاہدوں پر دستخط کرنے کے چند ہی ہفتوں میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ کو خلیجی ریاستوں میں ایک بڑی شخصیت کے طور پر خوش آمدید کہا گیا تھا۔ اس ''سنچری ڈیل‘‘ کو بالفور اعلامیہ کا ایک سو سالہ تسلسل ہی قرار دیا گیاتھا جبکہ فلسطینی مزاحمتی تحریکوں، فلسطین کے لیے دنیا بھر میں آواز اٹھانے والے حریت پسندوں اور خود فلسطینی شہریوں کی ثابت قدمی نے امریکا کے اس منصوبہ کو 2019ء سے 2021ء کے دوران بے اثر کر دیا۔ ملاحظہ کیجئے کہ تمام مذکورہ جنگوں، داعش کی بنیاد اور صدی کی ڈیل کی آڑ میں رونما ہونے والے پے در پے واقعات میں عالمی استعمار امریکا اور ناجائز ریاست اسرائیل کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ اسرائیل کا رقبہ وسیع‘ علاقے پر اسرائیل کا مکمل کنٹرو ل اور اجارہ داری قائم ہو جائے اور مسئلہ فلسطین دنیا کے قلوب و اذہان سے مٹا دیا جائے۔
امریکا کی سرپرستی میں تیار ہونے والے معاہدے پر اسرائیل اور عرب دنیا کے تعلقات استوار ہونا شروع ہوئے اور دنیا کو یہ تاثر دیا جانے لگا کہ اب عرب دنیا اسرائیل کو تسلیم کر رہی ہے تو باقی مسلم ممالک کیوں اسرائیل کو تسلیم نہ کریں؟ اس سازش کو مزید توسیع دیتے ہوئے امریکا نے جغرافیائی اور تزویراتی لحاظ سے اہم‘ واحد مسلم ایٹمی ریاست پاکستان‘ جس کے ایک جانب دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت چین اور دوسری طرف خطے میں امریکی مذموم پلاننگ کو شکست دینے والی قوت ایران اور افغانستان ہیں‘پر بھی اسرائیل سے روابط بڑھانے پر زور دیا جانے لگا۔ پاکستان چونکہ ایک نظریاتی ریاست ہے جو ایک نظریے کی بنیاد پر وجو د میں آئی ہے اور یہی بات اسرائیل کومجبورکرتی ہے کہ پاکستان جیسی نظریاتی ایٹمی طاقت اگر اسرائیل کو تسلیم کرلے تو اسرائیل کے وجود کو لاحق خطرہ ٹل سکتا ہے لہٰذا وطن عزیز کا ایک نادان ٹولہ اکثر و بیشتر یہ واویلا کرتا رہتا ہے کہ پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے چاہئیں تا کہ ٹیکنالوجی اور زراعت سمیت دیگر شعبہ جات میں فائدہ حاصل ہو سکے۔ در اصل پاکستان کا اسرائیل کو پہلے دن سے تسلیم نہ کرنے کا اصولی فیصلہ نظریۂ پاکستان کی بنیاد پر ہے۔ اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو پھر ہمیں 74 سالو ں سے مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے ناجائز و غیر قانونی قبضے کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا جوفلسطینیوں اور کشمیریوں کے پاکستان پر اعتماد سے صریح غداری ہو گی اور اس کے ساتھ ہی دو قومی نظریے کا وجود بھی کھو جائے گا۔ یہی بنیادی وجہ تھی کہ بانیانِ پاکستان نے قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران ہی فلسطین کے ساتھ ہونے والی خیانت پر شدید اضطراب اور احتجاج کا اظہار کیا تھا۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اپنے انتقال سے صرف ایک سال پہلے ایک برطانوی رہنما کو فلسطینی مسلمانوں کے حق میں خط لکھ کر زور دیا تھا کہ عربوں سے ناانصافی نہ کی جائے۔ اعلانِ بالفور کے سامنے آتے ہی قائد اعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ ''میں برطانوی حکومت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کو اگر منصفانہ اور آبرومندانہ طریقے سے حل نہ کیا گیا تو سلطنت برطانیہ کے لیے یہ تبدیلی کا نقطۂ آغاز ہو گا۔ ہم برصغیر کے مسلمان اس موڑ پر عرب موقف کے حامی ہیں اور ان کی منصفانہ جدوجہد میں ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں‘‘۔
اسرائیل نے ماضی میں فلسطینیوں اور اپنے عرب پڑوسیوں کے ساتھ دستخط کردہ تمام معاہدوں کو توڑا ہے اس لیے یہ توقع کرنا بیوقوفی ہوگی کہ اسرائیل پاکستان کے ساتھ کیے گئے کسی معاہدے کی پاسداری کرے گا۔ 1979ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے جب فلسطینیوں کی ہمت ٹوٹنے لگی تھی تو ایران میں امام خمینی نے ہر سال رمضان المبارک کے آخر ی جمعہ مبارک یعنی جمعۃ الوداع کو یومِ القدس منانے کی اپیل کی تھی جس پر پوری دنیا میں مسلمان اقوام نے لبیک کہا تھا۔ یاسر عرفات نے انقلابِ ایران کی کامیابی کے بعد ایران میں امام خمینی سے ملاقات کی اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ایران میں انقلاب کی کامیابی نے فلسطین میں موجود عوام‘ جو پتھروں سے اسرائیل کا مقابلہ کر رہے ہیں‘ کے جذبوں کو نئی امید بخشی ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ جمعۃ الوداع پر یوم القدس کی مناسبت سے اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں اور اقدامات کو اجاگر کریں اور پاکستانیوںکے دو ٹوک موقف کو دنیا پر واضح کریں کہ پاکستانی کبھی بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقا ت کو برداشت نہیں کریں گے اور اس باب میں ہمیشہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں